0
Thursday 15 Jun 2017 18:31

پاراچنار، یوم شہدائے کرم کا انعقاد

پاراچنار، یوم شہدائے کرم کا انعقاد
رپورٹ: ایس این حسینی

19 رمضان المبارک کو تاریخ اسلام میں دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے، ایک یہ کہ روایات کے مطابق شب قدر کے ایام میں سے ایک اسکو بھی کہا گیا ہے اور اسے ایک ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مفاتیح الجنان میں اس رات سے منسوب اعمال کا ذکر موجود ہے۔ اسکے علاوہ 19 رمضان ہی کی رات کو نماز صبح کے دوران مسجد کوفہ میں امیر المومنین امام المتقین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے دنیا کے شقی ترین شخص عبد الرحمان ابن ملجم کے ہاتھوں زخم کھایا اور زخم کے بعد مولا علیہ السلام نے فرمایا "فزت ورب الکعبہ" یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ چنانچہ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا بھر کے مومنین کے لئے یہ یتیمی اور غم کا دن ہے، جبکہ کرم ایجنسی میں یہ دن شہداء کے خانوادوں کے لئے امید کے دن کے طور پر متعارف کرایا جاچکا ہے۔ 1982ء میں پہلی مرتبہ مرحوم علامہ شیخ علی مدد، قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی، علامہ سید عابد حسین الحسینی کی سرپرستی میں اس وقت کی انجمن حسینیہ خصوصاً سیکرٹری انجمن حسینیہ مرحوم سید طاہر حسین اور ڈاکٹر عابد علی شاہ کے زیر اہتمام 19 رمضان المبارک کو کرم کی سطح پر یوم شہداء کے طور پر منایا گیا۔ جس میں ماضی میں ہونے تمام شہداء کی تصاویر کی نمائش کی گئی اور پھر اس دن سے آج تک مرکزی جامع مسجد پاراچنار میں 1961ء سے لیکر آج تک کے شہداء کی تصاویر کی نمائش منعقد کی جاتی ہے۔

اس دوران شہداء کے خانوادوں سمیت کرم ایجنسی کے ہر طبقے کے لوگ اس نمائش کو دیکھنے دور دور سے پاراچنار کا رخ کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ شہداء کے خانوادوں کے لئے کپڑوں، سلائی مشینوں اور زندگی خصوصاً عید کے دیگر لوازمات کی صورت میں کمک کی جاتی ہے اور یوں اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہر آنے والے سال اسے مزید رونق بخشی گئی اور وہی روایت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تاحال جاری و ساری ہے۔ کرم ایجنسی میں اس وقت کل شہداء کی تعداد 3000 سے کچھ بڑھ کر ہے، جن میں سرفہرست قائد شہید اور شہید ملت اسلامیہ علامہ سید عارف حسین الحسینی بھی ہیں۔ جنہوں نے پوری پاکستانی قوم خصوصاً اہلیان کرم کو اتفاق و اتحاد میں رہتے ہوئے شہادت کا صحیح درس سکھایا تھا، جنہیں قومی سطح پر اہل تشیع کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے جرم میں ضیاء اور اسکے آلہ کاروں نے 5 اگست 1988ء کو اپنے جد امجد امام علی علیہ السلام ہی کی طرح صبح صادق اور نماز فجر کے وقت ایک مذھبی مقام و عبادت گاہ یعنی مدرسہ (جامعۃ الشہید پشاور) میں شہید کر دیا تھا، جس پر اہلیان کرم آج تک فخر کرتے ہیں، اہلیان کرم پاکستان کے علاوہ دنیا میں جہاں کہیں بھی جائیں، اپنے قائد پر دوسروں کی نسبت اس بنا پر کچھ زیادہ فخر کرتے ہیں کہ قائد شہید انہی میں سے تھا۔

شروع میں عوام میں جذبہ کچھ زیادہ تھا اور یہ ایک روایت تھی کہ متمول گھرانے رمضان المبارک کے ابتدائی ایام سے ہی شہداء کے بچوں کے لئے کپڑوں، سلائی مشینوں، پنکھوں اور گھر کی دوسری بنیادی ضروریات پر مشتمل مختلف قسم کے تحفے تحائف خریدنے کے علاوہ نقد رقومات کے ذریعے، انہیں عید کی خوشیوں میں اپنے ساتھ شریک کیا کرتے تھے۔ یہ تحفے مرکزی جامع مسجد میں 19 رمضان المبارک کے دن کو تقسیم کئے جاتے تھے۔ تاہم اس وقت عوام کی دلچسپی زیادہ تر صرف تصاویر دیکھنے تک محدود ہے۔ مرکزی جامع مسجد پاراچنار کے علاوہ مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں بھی تحریک حسینی کے زیر اہتمام اس دن کو یوم شہداء کے طور پر منایا جاتا ہے۔ چنانچہ آج انیس رمضان المبارک کو دونوں مقامات پر شہداء کی تصاویر کی نمائش کی گئی۔ جسے دیکھنے کے لئے کرم ایجنسی کے کونے کونے سے افراد تشریف لائے تھے۔ اپنی مرکزی حیثیت کی وجہ سے مرکزی جامع مسجد میں عوام کی تعداد کچھ زیادہ تھی، تاہم مدرسہ رہبر معظم میں بھی بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے تصاویر کا مشاہدہ کیا۔ اس دوران بڑے بڑے پینافلیکس پر شہداء کی تصاویر چھاپ کر سجایا گیا ہے۔ دو یا تین علاقوں کے شہداء کی تصاویر کو جمع کرکے ایک ایک پینافلیکس پر ترتیب دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ 2007ء کی لڑائی کے دوران بڑے پیمانے پر اہلیان کرم کے قتل عام خصوصاً خودکش دھماکوں کیوجہ سے شہداء کی تعداد ماضی کی نسبت 10 گنا بڑھ چکی ہے۔ اس سال تو اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے، کیونکہ اس سال تین خودکش دھماکوں میں سو سے زیادہ لوگ شہید اور سینکڑوں دیگر افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ چنانچہ ان تازہ شہداء کی تصاویر کو دیکھنے میں لوگوں نے غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
خبر کا کوڈ : 646238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش