0
Tuesday 12 Apr 2011 00:44

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو (دوسری قسط)

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو (دوسری قسط)
تحریر:عادل بنگش
نومبر 2007ء:
 اگرچہ اپریل 2007ء کے بعد دونوں شیعہ و سنی اکابرین نے امن و امان کی بحالی کے سلسلے میں کئی اقدامات کئے لیکن چونکہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا۔ وزیرستان کے طالبان اور انتہا پسند ملک دشمن گروہوں کی روایتی شیعہ دشمنی کب ختم ہونے والی تھی۔ 16 نومبر2007ء کو بروز جمعہ ایک بار پھر ایک ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل شدہ منگل شخص کا بہانہ بنا کر نماز جمعہ کے بعد ہینڈ گرنیڈ کے حملے سے ایک اور لڑائی کا آغاز کیا۔ بعد میں مسجد سے برآمد ہونے والے نقشوں اور دیگر دستاویزات سے معلوم ہوا کہ حملہ کا پروگرام ان کا کچھ اور تھا۔ دن کے وقت گرنیڈ کا حملہ گھبراہٹ کے عالم میں ہوا۔ جدید اسلحہ سے لیس تربیت یافتہ چھاپہ مار طالبان گروپس کا منصوبہ یہ تھا کہ رات کی تاریکی میں شہر کے بڑے بڑے مراکز، ہوٹلز اور مارکیٹوں کو آگ لگا دی جائے۔ رات 2 بجے جب لوگ آگ بجھانے پر لگ جاتے تو یہ اُن پر فائرنگ کرکے مکمل خاتمہ کرتے، اُس دوران ایک گروہ مرکزی امامیہ مسجد و امام بارگاہ میں گھس کر قبضہ کرتے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن شائد پروردگار کو کچھ اور ہی منظور تھا، سارا منصوبہ رائیگاں گیا، اگرچہ کرم ایجنسی کے حقیقی مالکان طوری و بنگش کو سینکڑوں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا لیکن مقاومت کا راستہ اختیار کرنے سے منصوبے و سازشیں بنانے والے خود اس کا شکار ہو گئے۔ بڑی تعداد میں ایجنسی بدر ہو گئے، یہ لڑائی صرف پاراچنار شہر تک محدود نہیں رہی بلکہ اطراف میں بھی کئی محاذ کھل گئے تھے۔
جون 2008ء:
 تاریخ انسانیت کا ایک المناک ترین واقعہ جو کُرم کے باسیوں کے ساتھ پیش آیا کہ طویل محاصرے و صعوبتوں کے شکار عوام نے جب اپنی ہی کوششوں سے اشیائے خورد و نوش کا انتظام کیا، اسے ایف سی کے بھروسے پر پاراچنار روانہ کیا، راستہ میں بدنام زمانہ جرائم پیشہ افراد(جنہیں ایک روز قبل خصوصی احکامات کے ذریعے رہا کیا گیا تھا) کے حملے سے 12 ٹرک ڈرائیورز کے جسموں کے اعضاء و سر قلم کئے گئے، کئی کو جلا دیا اور سامان لوٹنے کے بعد ٹرکوں کو بھی نذر آتش کیا۔ یہ سب کچھ بھی APA اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لوئر کرم عطاء الرحمٰن اور کرنل مجید کی سرپرستی میں شیعوں کے جذبات بھڑکانے کے لئے کیا گیا تاکہ جنگ کے نتیجے میں ایک اور لشکر کشی کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے، لیکن طوری و بنگش عوام نے علماء و اکابرین کی ہدایت پر خاموشی اختیار کی۔
اگست 2008ء:
 لوئر کرم میں کمزور شیعہ دیہات پر قبضہ کے لئے لشکر کشیاں کی گئیں کیونکہ دیگر محاذوں پر مسلسل ناکامیاں مل رہی تھیں لیکن یہاں پر بھی ان کی سازشیں ناکام ہوئیں، نتیجتاً 42 سے زائد دیہات (شر پسند طالبان کی پناہ گاہیں) خالی ہوئے اور وزیرستان سے، خیبر ایجنسی اور افغانستان سے لشکر کشیاں کرنے والے گروہوں کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تاریخی شکستوں سے دوچار ہونا پڑا۔ اگرچہ بڑی تعداد میں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا، لیکن اس علاقے میں طوری و بنگش قبائل نے اپنی کھوئی ہوئی قدرت دوبارہ حاصل کی اور باگزئی نامی قصبے سے طالبان کے مستقل بڑے کیمپس کا خاتمہ کر دیا۔
پاراچنار کی تاریخ میں دو خودکش بم دھماکے بھی درد دل رکھنے والے انسانوں کے دلوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ پہلا 4 اگست 2007ء کو جس میں تقریباً 15 شہادتیں ہوئیں۔ دوسرا ایک انتخابی جلسے میں، جس میں 100 تک شہادتیں ہوئیں اور درجنوں عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے۔ 2008ء کو ذالحجہ کے مہینے میں طوری و شیعہ بنگش قبائل کے قومی ملکیتی ہوٹل پر پشاور میں ایک بارود سے بھری ہوئی گاڑی کے ذریعے حملہ کیا گیا، جس سے نہ صرف یہ کہ ہوٹل کو شدید نقصان پہنچا بلکہ 23 پاراچنار کے شہریوں سمیت کل40 افراد شہید ہو گئے۔ اسی طرح ہوٹل کے قریف ایف سی کے ایک ایسے ٹرک کو بارودی سرنگ سے اُڑا دیا جس میں چھٹی پر آنے والے شیعہ ایف سی اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید ہو گئے۔
مندرجہ بالا واقعات میں ایک بات مشترک یہ ہے کہ ہر لحاظ سے کوشش کی گئی کہ کسی طرح سے اس علاقے سے شیعہ طوری و بنگش قبائل کو بےدخل کیا جائے۔ کبھی لشکر کشیوں سے، کبھی محاصروں کے ذریعے اور کبھی راستے میں مسافر گاڑیوں کو نشانہ بنا کر۔ ایک بار تو حد یہ ہو گئی کہ اسرائیلی صیہونی بربریت کی روایت اس علاقے میں قائم کر دی گئی، جب ایک ایمبولینس کو پشاور جاتے ہوئے راکٹ سے نشانہ بنا کر 5 افراد سمیت اُڑا دیا۔ یہ حملہ اپریل2007ء میں پاراچنار شہر کے اندر حیدری بلڈبنک کی ایمبولینس پر حملے کے علاوہ ہے۔ پشاور میں پارہ چناریوں کی ٹارگٹ کلنگ کی تفصیل بھی الگ سے ہے۔
قارئین محترم! یہ سلسلہ تاحال جاری ہے،کچھ واقعات بالکل تازہ آپ کے اذہان میں موجود ہونگے۔
4 جنوری 2011ء کو ایک بار پھر ایف سی کی موجودگی میں اشیائے خورد و نوش لے جانے والے 22ٹرکوں کو ا یف سی کی موجودگی میں لوٹنے کے بعد نذر آتش کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز تماشائی بنے رہے۔
مارچ 2011ء:
 2 مارچ کو ایک شیعہ مسافر وین پر ریموٹ کنٹرول بم کا حملہ ہوا۔ 13مارچ کو ضلع ٹل کے علاقے میں مسافر کوچ پر فائرنگ سے 13 افراد شہید ہو گئے۔ 20 مارچ کو بھی ہنگو کے قریب کوچ پر پھر فائرنگ ہوئی۔ 25 مارچ کو پشاور سے پارہ چنار جانے والی شیعہ طوری بنگش قبائل کی مسافر کوچز پر بگن کے نزدیک حملہ کیا گیا، جس میں 3 افراد شہید اور 25 اغواء کر لیئے گئے جو تاحال بازیاب نہیں کروائے جاسکے۔
خیوص کی لڑائی:
 خیوص نامی گاوں اس پہاڑی درے میں واقع ہے جس کی پشت پر تورہ بورہ کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل ان پہاڑوں میں افغانستان سے منگل قبائل میں سے جلاوطن چند برادریوں کو بطور مزارع آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔ 80ء کی دہائی تک یہ مقامی شیعہ بنگش قبیلے کو نہ صرف یہ کہ فصلیں اور لکڑیاں کاٹ کر دیتے تھے بلکہ باہر سے ہونے والی جارحیتوں کا مقابلہ بھی ان کی ذمہ داری رہی، لیکن ضیاء دور میں نام نہاد جہادی عناصر کی ان گزرگاہوں سے آمد و رفت و قیام سے ان قبائل نے شیعہ آبادی کو تنگ کرنا شروع کیا اور جنگلات و پانی کے منابع پر قابض ہو گئے، رفتہ رفتہ ان کی آبادی بھی کئی گنا بڑھ گئی۔ اس منطقہ میں منگل قبائل کی آبادی کئی ہزار گھروں تک پہنچ گئی۔
خیوص محل وقوع کے اعتبار سے شیعہ آبادیوں سے دور منگل اکثریتی علاقے کے عین وسط میں محفوظ گزرگاہوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جہاں دیگر پہاڑی علاقوں کی نسبت قابل کاشت اراضی بھی زیادہ ہے، اردگرد عمارتی لکڑی کے گھنے جنگلات میں گھری ہوئی تقریباً 90 گھرانوں پر مشتمل آبادی تھی جو کہ حالیہ لڑائی سے چند ماہ قبل کی معلومات کے مطابق ہجرتوں کے باعث فقط 35 سے 40گھرانوں تک محدود ہو گئی تھی۔
اگرچہ منگل قبائل کی طرف سے شلوزان کے شیعہ قبائل پر وقتاً فوقتاً پانی کی بندش، چھاپہ مار حملے، میزائل حملے اور بارودی سرنگوں سے حملے ایک معمول بن گیا تھا مگر ستمبر و اکتوبر 2010ء میں ایک منظم منصوبے اور بھرپور طاقت سے خیوص کی مختصر مگر اہم جغرافیائی آبادی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے محاصرے کے بعد حملہ کیا گیا۔ حملے سے پورا گاوں تباہ ہوا، مسجد و امام بارگاہ کو نذر آتش کیا گیا۔ 36 اہلیان خیوص سمیت 90 افراد شہید ہو گئے۔ اس وقت تک سیکورٹی فورسز نے جارحین کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جبکہ خیوص کے لئے ممکنہ کمک پہنچانے کے لئے تمام راستوں کو کاٹنے کے لئے ایف سی نے اپنی آرٹلری کے خوب جوہر دکھائے۔ مقامی انجمن حسینیہ کی طرف سے جارحین کے خلاف کاروائی کے مطالبہ پر کہا گیا کہ آرٹلری خراب ہے۔
چند روز بعد اپنے علاقے سے غاصبین کا قبضہ چھڑانے کے لئے طوری و بنگش قبائل کے لشکروں نے کارروائی کی اور خیوص کا علاقہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اطراف کی ناجائز قابض آبادیوں کو بھی بے دخل کیا، جس میں سے تقریباً 400 کے لگ بھگ گھر جلائے گئے اور کل 900 تک قابض گھرانے بے دخل ہو گئے۔
اس اہم پہاڑی درے سے خیوص کے شیعہ آبادی کو ختم کرنے کا پس منظر یوں ہے کہ طالبان کے حقانی گروپ کو (جنہیں پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے) شمالی وزیرستان سے کرم ایجنسی منتقل کر کے محفوظ علاقوں میں ان کے کیمپس قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، جہاں وہ ننگر ہار اور پکتیا کے علاقوں پر حملوں میں NATO کو نقصان بھی آسانی سے پہنچا سکیں۔ بجائے اس کے کہ محب وطن شیعہ آبادی کو اعتماد میں لیا جاتا، اُن کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا گیا، جو کہ دراصل وہابیت کے نظریات کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں میں پلاننگ کرنے والے ایسے نظریات کے حامل افراد ملک و ملت دونوں کے دشمن ہیں۔ لڑائی سے چند ہفتے قبل منگل قبیلے کو تیار کرنے کے لئے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کُرم اور بعد میں کرنل کمانڈنٹ توصیف اختر باری باری وہاں گئے اور اُن پہاڑوں میں ایک ایک شب بھی بسر کی، لیکن ایک بار پھر طوری و بنگش قبیلے نے اپنی جانوں پر کھیل کر اس گھناونے کھیل میں حصہ دار بننے سے ہمیشہ کے لئے انکار کر دیا اور دشمنوں کو خفت سے دوچار کیا۔
مارچ 2007ء میں دریائے کُرم میں طغیانی سے کناروں پر آباد کئی دیہات زیرآب آ گئے تھے۔ اس وقت کے گورنر علی محمد جان اورکزئی نے متاثرین سے ملاقات کے بعد مشران کی ایک میٹنگ میں اس بات کا اظہار کیا کہ کُرم پر اس سے بھی بڑا طوفان آنے والا ہے، اُس کے لئے تیار رہو اور وہی ہوا کہ S.S.P سپاہ صحابہ پاکستان کے مقامی لیڈر عید نظر (جو کہ خود کو یزید نظر کہلانے پر فخر کرتا تھا) کی سرکردگی میں ایک فتنے کی بنیاد رکھی گئی، جس نے ماضی کی خونریزیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یاد رہے یہ وہی یزید نظر ہے جو 6 اپریل 2007ء (لڑائی کے پہلے دن ) زخمی ہوا تو شہر میں خصوصی کرفیو نافذ کر کے اسے وہاں سے نکال کر بذریعہ ہیلی کاپٹر CMH کوہاٹ منتقل کر کے انتہائی نگہداشت اور فوجی پہرے میں رکھا گیا۔ آج بھی وہ مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ پشاور میں اہلِ تشیع کی ٹارگٹ کلنگ میں لگا رہتا ہے۔ اس بدنام زمانہ دہشت گرد کو بھی مخصوص اداروں کی شہ حاصل ہے۔
معاہدہ مری:
 قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک رونما ہونے والے تمام چھوٹے بڑے تنازعات و واقعات کے بعد امن و امان کے نام پر بیسیوں معاہدات مابین فریقین کئے جاچکے ہیں جن میں سے معاہدہ کوہاٹ 199ء اور معاہدہ مری 2008ء اپنی نوعیت اور متن کے اعتبار سے مضبوط معاہدے تصور کئے جاتے ہیں۔
اگست 2008ء کی خونریز لڑائیوں کے بعد ملکی سطح پر حکومت و سکیورٹی اداروں نے عوامی دباو، کے نتیجے میں دونوں مسالک کو پہلے اسلام آباد بعد میں مری کے مقام پر اکٹھا کیا۔ حکومت کی خواہش تھی کہ شیعہ اکابرین کے سامنے طالبان کو بطور دوسرا فریق پیش کیا جائے، لیکن قبائلی زعماء نے اسے یکسر مسترد کیا کیونکہ طالبان نہ صرف یہ کہ ماضی میں بھی دھوکے دیتے چلے آئے تھے بلکہ وزیرستان، خیبر ایجنسی، سوات و مالاکنڈ اور کُرم و اورکزئی کے طالبان لیڈر سب الگ الگ طور پر بات کرنا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ درہ آدم خیل میں مقیم " پنجابی طالبان"کچھ اور ہی نظریہ رکھتے تھے۔ وہ بات برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ شیعوں کو جزیہ ادا کرنے کے بعد Safe Passageدینے کی بات کرتے تھے۔
مذاکرات کے دوران سنی عمائدین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وزیرستان، خیبر، اورکزئی، باجوڑ اور دیگر علاقوں سے طالبان ان کی مدد کے لئے آتے رہے ہیں لیکن بعض اوقات وہ مدد سے بڑھ کر خود سے بھی کارروائیاں کرتے ہیں اور اگر کوئی انہیں روکنا چاہے تو اسے بھی قتل کر دیتے ہیں یعنی وہ اپنا الگ سے ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ کُرم کے اندر ہونے والی جنگیں کوئی شیعہ سنی یا قبائلی جنگیں نہیں بلکہ افغانستان میں لڑی جانے والی عالمی سرد و گرم جنگ میں سب شیعہ و سنی اہلیان کرم SANDWICTH بنے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایجنسی میں دیوبندی و وہابی مکتب فکر کے قبائل نے بیرونی عناصر کو خوش آمدید کہہ کر علاقے کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا۔ یہ بات آن دی ریکارڈ ہے کہ جنوبی وزیرستان سے بیت اللہ محسود نے متعدد بار 1000، 2000کے لشکر شیعوں کے خاتمے کے لئے بھیجے، اسی طرح خیبر ایجنسی سے منگل باغ نے بھی " لشکر اسلام" گروہ کے سینکڑوں جنگجووُں کو اس وادی کی طرف یلغار کی غرض سے بھیجا اور تو اور شمالی و جنوبی وزیرستان، خیبر، باجوڑ، ٹل اور افغانستان کے علاقوں خوست و شہرنو وغیرہ باقاعدہ اعلانات کے ذریعے سے " جہاد پاراچنار" کے نام پر ہزاروں کے لشکر ان چار سالوں کے دوران بلاناغہ بھیجے جاتے رہے لیکن نہ صرف یہ کہ کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لاشیں چھوڑ کر فرار بھی ہوتے رہے۔ ان معرکوں میں بیت اللہ محسود، حقانی گروپ، منگل باغ اور دیگر گروہوں کے 40 سے زائد کلیدی عہدوں پر فائز کمانڈرز بھی موت کے گھاٹ اُترے۔
الغرض مری معاہدے کو دونوں فریقین نے امن کی نوید جان کر اسے دل و جان سے قبول کیا کیونکہ ظاہری طور پر اس میں شیعہ قبائل کے محاصرے کو ختم کر کے روڈ محفوظ کرنے کی ذمہ داری مقامی قبائل اور حکومت کی ہوئی اور دونوں اطراف کے IDPs ( یعنی شیعہ صدہ، چاردیوار، سادات کلے، جلمئی اور گوبزنہ کے علاقوں جبکہ سنی پاراچنار شہر اور لوئر کرم کے 40 سے زائد دیہات میں) کو واپس اُن کے علاقوں میں آباد کرنے پر بھی دونوں فریقین رضا مند ہوئے۔ حکومت کو معاہدے پر عمل درآمد کے لئے ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جارحیت کی صورت میں حکومتی اقدام نہ ہونے پر حکومت کو بطور فریق قرار دینے کی شِق سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے مذاکرات جاری رکھنے پردستخط ہوئے۔
مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ معاہدہ اکتوبر 2008ء کے بعد ڈھائی سال تک Implemention سے کیوں محروم رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملکی ادارے اس صورتحال سے خوش ہیں، انہیں ہزاروں ماوں کی آہ و بکا اور بیواوں کی سسکیاں بھلی لگتی ہیں۔ پہلے تو انگریز سرکار کے فارمولے Divied and Rule کے ذریعے قبائلی خطے پر راج کرتے رہے لیکن جب مذموم مقاصد کے حصول میں یہ فارمولا کم موثر ثابت ہونے لگا تو بیوروکریسی اور سکیورٹی اداروں نے بھارت کے کشمیر والے کردار اور اسرائیلی صیہونیوں کے مشہور زمانہ" Protocols " سے درس لیتے ہوئے" Divide and Kill " اور اس کے بعد " Kill and Rule " کا فارمولا استعمال کرنے لگے، لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ ''اگر قوم ہی نہ رہی تو حکومت کس پر کریں گے؟ ''
ان چار سالوں کے دوران اہلیان کرم نے اپنی آواز کہاں کہاں نہیں اُٹھائی۔ ملک گیر مظاہروں، بھوک ہڑتالی کیمپس، دھرنوں، پریس کانفرنسز اور صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس سمیت تمام اعلیٰ وفاقی و صوبائی عہدیداروں سے خصوصی ملاقاتوں کے ذریعے آواز اُٹھانا اپنی جگہ، UN کے دفتر، لندن، آسٹریلیا حتیٰ کہ دہلی میں بھی پاراچنار کے مسئلہ پر صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ مگر صدر، وزیراعظم، وزیر داخلہ، گورنر سرحد الغرض سب نے طفل تسلیوں سے ملاقاتی وفود کو رخصت کیا۔ صرف جھوٹے اعلانات اور وعدوں کے ذریعے سے مظاہرین کو خاموش کرایا گیا، محض چند وقتی اقدامات کو بڑی کامیابیوں سے تشبہہ دے کر مسئلہ سے ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں کا رُخ تبدیل کیا گیا۔۔ اس پورے عرصے میں عوام (اہلیان کرم) پر کیا گزری۔۔۔ شاید ہی کوئی چشم دید گواہ بیان کر سکے۔ ان حالات میں آیت اللہ صافی گلپائیگانی کی بات بالکل صادق آتی ہے کہ "امروز پاراچنار بدتر از غزہ است"
جنگ کے اثرات:۔
1۔ تعلیمی انحطاط:
 قبائلی علاقوں میں سے سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والے پاراچنار بالخصوص اور کُرم ایجنسی بالعموم تعلیمی میدان میں بہت سی انفرادیتوں کی حامل تھی۔ فاٹا FATA کے کل 35 کالجز میں سے 8 کالجز کرم میں واقع ہیں جو کہ کل سرکاری کالجز کا تقریباً 24 فیصد بنتا ہے۔ پرائیویٹ کالجز اور سکولز کی تعداد الگ ہے۔ سال 2009-10ء میں طوری بنگش سپریم کونسل کے اکابرین اور علماء کی کوشش سے اسلامیہ کالج چارٹرڈ یونیورسٹی ( قائم شدہ 1913ء) نے کُرم ایجنسی میں دو برانچ کالجز کا اعلان کر دیا۔ لیکن پروفیسر اجمل خان (جو کہ فی الحال طالبان کی حراست میں یرغمال ہے) کے افتتاح کے باوجود اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی دو پرانچز کو متعصب فاٹا انتظامیہ نے بلاجواز منسوخ کر دیا۔ اسی طرح فاٹا کے لئے FATA MEDICAL COLLEGE کے قیام کی منطوری بھی اُس وقت کے گورنر افتخار حسین شاہ نے پاراچنار میں دی تھی مگر تاحال اس پر جان بوجھ کر پیش رفت نہیں کی جا رہی۔
اپریل 2007ء سے قبل ہر سال ایک بڑی تعداد انجینئرنگ، میڈیکل، آرمڈ فورسز کمشنڈ آفیسرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لئے Qualify کرتی تھی۔ خطے میں خون کی ہولی کھیلے جانے کے بعد مختلف مقامات پر سکولز تباہ ہو گئے، سکول اور کالجز سال کے بیشتر حصے میں بند رہے۔ نقل کا رجحان بڑھ گیا، بہت سے طلباء کے سال ضائع ہو گئے۔ تعلیمی امور اور داخلوں کی غرض سے بڑے شہروں کا رُخ کرتے وقت تقریبا 10 طالبعلم اغواء، 15 شہید اور 80 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ شہید ہونے والے طلباء کی مجموعی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے۔ راستے میں حملوں کے خوف سے کثیر تعداد میں طلباء تعلیم (اعلیٰ) جاری رکھنے سے بھی محروم ہو گئے۔ کسی بھی قوم کے زوال کے لئے یہی کافی ہوتا ہے کہ وہاں تعلیم کے دروازے بند کر دیئے جائیں جو کہ کرم ایجنسی میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ وہ بچے اور جوان کہ جن کے ہاتھوں میں قلم و کتاب ہونا چاہیئے تھی، بندوق و بارود آگیا۔
2۔ ثقافتی، معاشرتی و نفسیاتی اثرات:
 قبائلی پٹی کا وہ خطہ جو کسی زمانے میں امن و امان کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، وہ گولہ و بارود کے کھیل کے تاریک میدان میں تبدیل ہو گیا۔ قتل و غارت گری، ذاتی دشمنیاں، سٹریٹ کرائمز میں اضافہ، عدم ذہنی سکون و خوف و ہراس کی وجہ سے (اور کچھ دیگر عوامل جیسے دشمن کی طرف سے سازش) نشہ آور اشیاء کے استعمال میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ امن و امان اور سکون کی تلاش میں (جبری جلاوطنی کے علاوہ) بہت سے خاندانوں نے ازخود بھی ہجرت اختیار کر لی۔
3۔ اقتصادی زوال و مشکلات: 
امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے تو پہلے ہی سرمایہ دار طبقہ علاقے سے رخصت ہوا، جس سے کاروبار بری طرح متاثر ہوا، پھر مسلسل محاصرے کے باعث اور ٹل پاراچنار روڈ پر متعدد بار درجنوں Containers کی لوٹ مار نے جلتی پر تیل کا کام کر کے مشکلات کو دگنا کر دیا۔ بہت سے خاندانوں کے کفیل بالخصوص سمندر پار پاکستانیوں کی وطن آمد پر ٹارگٹ کلنگ کے باعث کثیر آبادی کی قوت خرید متاثر ہوئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ بلیک کے ذریعے پہنچنے والے آٹے، گھی، چاول، چینی وغیرہ پر آن ڈیوٹی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے منہ مانگے بھتے، قیمتوں کو تین سے چار گنا بڑھا دیتی ہیں۔ ادھر متحدہ عرب امارات سے ایک سازش کے تحت پاراچنار سے تعلق رکھنے والے 1500 سے زائد ملازمین کے ویزے منسوخ کر کے پاکستان واپس بھیجا گیا، جس سے ایک اور بڑا اقتصادی چیلنج درپیش ہوا۔
Overseas ملازمین کے بعد پاراچنار کے لوگوں کا دوسرا بڑا ذریعہ معاش زرعی اجناس Cash Crops اور ٹماٹر، آلو، سبزیاں اور مختلف میوہ جات ہیں، مگر راستوں کی بندش کے باعث فسادات کے پہلے سال تو علاقے کو اربوں روپے کا واضح نقصان ہوا کیونکہ تیار شدہ فصل کو بڑی منڈیوں تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ اس کے بعد کے سالوں میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر کاشتکاری ترک کر دی۔
ایک اور نقصان جو کہ شاید عام طور پر محسوس نہ کیا گیا ہو وہ یہ ہے کہ جب افغانستان کے راستے کو بطور متبادل استعمال کیا جانے لگا تو روزانہ کے حساب سے ٹرانسپورٹیشن کی مد میں دس لاکھ سے پندرہ لاکھ پاکستانی روپیہ اس علاقے سے افغانستان منتقل ہونے لگا۔ ادویات، اشیائے خورد ونوش وغیرہ جو کبھی پشاور اور لاہور سے خریدی جاتی تھیں اب کابل و گردیز سے خریدی جانے لگیں۔ زرمبادلہ کی اس منتقلی جو کہ حقیقتاً پاکستان کا نقصان ہے کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پشاور فلائنگ کلب اور پرائیویٹ ائیر لائنز کے کاروباری حضرات نے ہوائی سفر کی غرض سے ایجنسی کے مظلوم و مجبور عوام کو جی بھر کے منہ مانگے کرایوں کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔
4۔جانی نقصان: 
جانی نقصان کے حوالے سے جو اعداد و شمار پاراچنار کے فلاحی ادارے پیش کرتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ایجنسی کے حقیقی مالکان طوری و شیعہ بنگش قبائل سے شہیدوں کی کل تعداد ساڑھے تیرہ سو (1350) سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ مجروحین کی تعداد ساڑھے سات ہزار (7500) تک ہے جن میں 500 کے لگ بھگ عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے ہیں۔ شہداء میں سے خواتین کی تعداد 40 ہے، کم سن شہداء کی تعداد 15 ہے، شہید ہونے والے طلباء 100 سے زیادہ ہیں، دوران سفر شہید ہونے والے 150 ہیں، ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے 20 ہیں، خودکش بم دھماکوں سے شہید ہونے والوں کی تعداد 115 ہے جبکہ لشکر کشیوں کو روکنے اور دوران دفاع شہید ہونے والوں کی تعداد بتقریباً 700 ہے۔
شہداء کے واقعات الگ تفصیل کے طلبگار ہیں۔ بہرحال ان میں سے 7 اور 5 بہنوں کے اکلوتے بھائیوں، شادی کے ایک ہفتے اور ایک ماہ کے اندر شہید ہونے والوں اور ایک ہی گھر کے 3،4 بھائیوں کی شہادتوں کے واقعات دل ہلا دینے والے ہیں۔ یقیناً ان شہداء، جسم کے اعضاء اور سر کٹنے والے شہداء سمیت تمام شہداء کا پاکیز ہ لہو قوم کو ضرور حیات بخشے گا۔ دراصل اُنہی شہیدوں کے پاکیزہ لہو نے اس قوم کو مقاومت کا حوصلہ عطا کیا ہے۔
شہداء کے وصیت نامے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر شہداء کو وقت شہادت اور جائے شہادت کا پہلے سے ہی علم تھا جنکو پڑھ کر آنسووں کو آنکھوں میں روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔ حملہ آوروں کی ہلاکت کے Accurate صحیح اعداد و شمار میسر نہیں ہیں۔ حکومتی اطلاعات اور بعض جگہوں پر چھوڑی ہوئی لاشوں سے تقریباً 3000 کے لگ بھگ تعداد معلوم ہو سکی ہے (اپریل2007ء سے10ء تک)
 (جاری ہے)

خبر کا کوڈ : 64661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش