0
Tuesday 20 Jun 2017 03:37

شام کے شہر رقہ کا نوحہ کون لکھے گا؟

شام کے شہر رقہ کا نوحہ کون لکھے گا؟
تحریر : عرفان علی

دریائے فرات کے کنارے ملک شام کا تاریخی شہر رقہ واقع ہے کہ جہاں ایثار و وفا عشق و عرفان کی انتہا یعنی حضرت اویس قرنی اور حضرت عمار یاسر جیسے عظیم شہید اصحاب رسول کے مزارات تھے, جو امریکی و سعودی اتحادی دہشت گردوں نے تباہ کر ڈالے۔ یہ شہر شام کے صوبہ رقہ کا صوبائی دارالحکومت بھی ہے۔ صوبہ رقہ، صوبہ حسکہ اور صوبہ حلب کے درمیان ترکی کی سرحد پر واقع ہے۔ اس شہر سے شمال کی سمت میں پندرہ میل دور امریکی فوجی اڈہ ہے، جہاں چار سو امریکی فوجی موجود ہیں۔ صوبہ رقہ میں امریکہ کی اسپیشل فورسز بھی کئی ماہ سے کارروائیاں انجام دے رہی ہیں اور امریکہ کی قیادت میں اتحادی یہاں بمباری بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں سیرین ڈیموکریٹک فورسز نامی اتحاد کے مسلح جنگجو بھی ہیں کہ جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی اعلانیہ مدد و حمایت حاصل ہے اور یہیں داعش نام کا تکفیری دہشت گروہ بھی ہے کہ جس کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادی اور تربیت یافتہ یہ مسلح گروہ کارروائیوں کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ سال 2013ء سے یہی صورتحال ہے کہ مارچ 2013ء میں رقہ شہر کا کنٹرول سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے پاس تھا، پھر داعش آئی اور سال 2014ء سے رقہ کو داعش نے اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے۔ نومبر 2016ء سے آپریشن فرات جاری ہے، لیکن نہ داعش ختم ہوئی اور نہ ہی امریکی، سعودی و دیگر اتحادی ممالک کی افواج اور اب 6 جون2017ء سے رقہ کی آزادی کے لئے سیرین ڈیموکریٹک فورسز جس میں کرد مردوں اور خواتین کی اکثریت ہے اور ان کے ساتھ عرب اور آشوری مسیحی بھی ہیں، نے زمینی حملے شروع کئے ہیں۔

ہفتہ 17 جون کو سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے دس روزہ کارروائی کی رپورٹ جاری کی کہ داعش کے 312 دہشت گرد ہلاک کر دیئے اور سات کو زندہ پکڑ لیا ہے جبکہ رقہ کے چار اضلاع کو آزاد بھی کروا لیا ہے، جبکہ ان کے 15 افراد بھی مارے گئے، البتہ داعش کے ہلاک شدگان کی صرف 39 لاشیں ان کے قبضے میں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ داعش کے زیر استعمال چار ڈرون طیارے بھی انہوں نے مار گرائے۔ لیکن ایک موقف اقوام متحدہ کا بھی ہے کہ جس کے جنگی جرائم شعبہ کے تفتیش کاروں پر مشتمل آزاد تحقیقاتی کمیشن نے امریکی اتحاد کی فضائی کارروائیوں سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے اور اسے پریشان کن نقصان قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رقہ شہر میں ان امریکی اتحاد کے فضائی حملوں کے نتیجے میں اب تک رقہ شہر میں 300 عام شامی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ یہ موقف 14 جون کو برطانوی روزنامہ دی گارجین میں رپورٹ ہوچکا ہے۔ ایک اور موقف روس کے شام میں متعین فوجی کمانڈر کرنل جنرل سرجئی سوروویکین کا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی داعش کے دہشت گردوں کو مار نہیں رہے بلکہ انہیں فرار کروار ہے ہیں، تاکہ وہ ان علاقوں کا رخ کریں کہ جہاں شامی افواج یا ان کے اتحای دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔(حوالہ:US-led coalition colluding with IS instead of fighting terrorism http://tass.com/defense/950769

اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ پاؤلو پنہیرو نے جنیوا میں حقوق انسانی کاؤنسل کو بتایا کہ اس افسوسناک صورتحال کی وجہ سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار شہری اپنے گھروں سے فرار اور علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اس آزاد انکوائری پینل میں امریکی رکن کیرن ابو زید نے کہا کہ انہوں نے صرف امریکی کوالیشن کی فضائی کارروائی سے ہونے والی شہریوں کی اموات کو ڈاکیومنٹ کیا ہے، یعنی اسکا ثبوت موجود ہے کہ 300 اموات ہوئیں اور ان میں سے 200 صرف ایک گاؤں ال منصورہ میں ہوئیں۔ رقہ میں جنگی قیدی اور غلام بنائی گئیں ایزدی (یزیدی)خواتین بھی مقیم ہیں، لیکن امریکہ یہاں فضائی حملوں میں مہلک سفید فاسفورس استعمال کر رہا ہے، جو عام شہریوں کے لئے نقصان دہ ہے۔Staggering' loss of civilian life from US-led airstrikes in Raqqa, says UN...... The Guardian Wednesday 14 June 2017)اب صورتحال یہ ہے کہ رقہ سے فرار ہونے والے حلب کے شمال میں مضافات میں جمع ہو رہے ہیں۔ انہیں جرابلس یا ترکی و شام کے سرحدی علاقے اعزاز کے پناہ گزین کیمپوں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں پہلے سے ہی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد عارضی طور پر آباد ہے۔ رقہ میں بھی شام کے مختلف شہروں سے لوگ نقل مکانی کرکے آباد ہوئے تھے۔ رقہ سے شمال حلب کا سفر خطرات سے پر ہے۔ کم از کم پندرہ کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ جگہ جگہ داعش یا سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی چیک پوسٹیں ہیں، داعش انہیں علاقہ چھوڑنے نہیں دیتی۔ البتہ داعش یا ایس ڈی ایف دونوں ہی علاقہ پانچ سو ڈالر کی ادائیگی پر رقہ سے انخلاء پر روکتے نہیں۔

شام کے یہ شہری مالی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہیں، کرائے پر گھر نہیں لے سکتے، پناہ گزینوں کے لئے اب کیمپ بھی نہیں بچے، اس لئے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں کہ جنہوں نے شام میں دہشت گردوں کے ذریعے نیابتی جنگ (پراکسی وار) کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ شام کی حکومت اور اسکی افواج کو مادر وطن کا دفاع کرنے کی سزا امریکی اتحاد اس طرح دے رہا ہے کہ شام کے طیارے کو مار گرایا گیا ہے، لیکن یہ شام کی فوج اور اس کے اتحادی ہیں کہ جنہوں نے حلب کو دہشت گردوں سے آزاد کروایا۔ وہاں موصل میں شام کی سرحد پر واقع عراقی علاقے ابو جریص تک حشد الشعبی کا لشکر پہنچ چکا ہے۔ دوسری طرف اب شام کی افواج بھی سرحدی علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کروا رہی ہیں۔ یرموک کے فلسطینی کیمپ سے بھی دہشت گرد فرار پر مجبور ہوئے اور بہت سے علاقوں میں دہشت گرد آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب ایران سے اطلاعات یہ ہیں کہ ایران نے ایران سے میزائل فائر کرکے شام کے صوبے دیر الذور میں داعش کے کمانڈ سینٹر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ مقاومت کا محور اس خطے میں نسل پرست صہیونی جعلی ریاست اور اس کے آقاؤں اور دوستوں کے انسانیت دشمن فلسطین دشمن، عرب دشمن و اسلام دشمن سازشوں کو ناکام بنا رہا ہے۔

اس یوم القدس سے پہلے حشد الشعبی، ایران اور شام کی حکومتوں کی جانب سے مقاومت کے حامیوں کو یہ تحفے دیئے گئے ہیں تو دوسری جانب رقہ کے مظلوم شامی عوام کو امریکی اتحاد اور داعش کے دہشت گردوں نے مزید انسانی المیے سے دوچار کر دیا ہے۔ میرا سوال فقط اتنا ہے کہ رقہ لٹ گیا، اجڑ گیا، حضرت اویس قرنی اور حضرت عمار یاسر جیسے عظیم الشان صحابہ کرام کے مزارات اور مسجد کو تباہ کر دیا گیا، لیکن وہ حلقہ جو حلب میں دہشت گردوں کے مارے جانے پر گریاں تھا، نوحہ کناں تھا، ریلیاں، جلوس نکالا کرتا تھا، سوشل میڈیا سمیت سارے ذرایع ابلاغ پر حلب کا غصہ بشار الاسد کی منتخب جمہوری شام عرب حکومت پر اتارا کرتا تھا، یہ ٹولہ رقہ کے معاملے میں کیوں خاموش ہے؟ رقہ کا نوحہ کیوں نہیں لکھا جا رہا؟ کوئی ایک ریلی، جلوس، پریس کانفرنس، کوئی ایک بیان؟ رقہ بدنصیب ہے، اس لئے کہ یہاں کھلے عام امریکی اتحاد جس میں سعودی عرب، قطر، بحرین، ترکی سمیت سبھی کسی نہ کسی انداز میں شامل ہیں، اس کے کالے کرتوت کے بارے میں کوئی بیان دینا نہیں چاہتا، کیونکہ اس قاتل اتحاد اور ان کی نیابتی جنگ لڑنے والوں کے چہرے سے رقہ میں ایک اور مرتبہ پردہ اٹھ چکا ہے۔ رقہ کا نوحہ لکھا جائے گا تو فرات کے کنارے شام کی کربلا میں امریکہ اور سعودی عرب کو یزید وقت لکھا جائے گا، اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ موت کی سی خاموشی اختیار کر لی جائے۔ حیف ہے بے ضمیرو پر۔
خبر کا کوڈ : 647413
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش