0
Thursday 22 Jun 2017 01:02

سعودی فرمانروا کے چند نئے فرامین اور انکے اثرات

سعودی فرمانروا کے چند نئے فرامین اور انکے اثرات
تحریر: سید اسد عباس

سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے چند ایک تازہ شاہی فرمان جاری کئے ہیں، جن میں سے ولی عہد محمد بن نائف کی معزولی اور نائب ولی عہد محمد بن سلمان کی بطور ولی عہد تعیناتی کو زیادہ اہمیت ملی۔ محمد بن نائف کو ولی عہد کے ساتھ ساتھ نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے عہدے سے بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان اپنے عہدے یعنی وزیر دفاع کی حیثیت سے کام کرتے رہیں گے۔ سعودی فرمانروا کی جانب سے جاری کردہ دیگر فرامین میں ریاست کے حکومت کے قانون کے آرٹیکل پانچ میں تبدیلی بھی اہم ہے، جس کے تحت فقط عبد العزیز بن سعود کے بیٹے اور پوتے ہی ریاست کے بادشاہ اور ولی عہد بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ شاہی فرمان کے تحت عبد العزیز بن سعود بن نائف بن عبد العزیز کو وزیر داخلہ، ڈاکٹر احمد بن محمد السلیم کو ڈپٹی وزیر داخلہ متعین کیا گیا ہے۔ اس عہدے پر پہلے کام کرنے والے عبد الرحمان بن علی الربایان کو شاہی دربار کا مشیر متعین کیا گیا ہے۔ شاہی دربار کے سابقہ مشیر ڈاکٹر ناصر بن عبد العزیزی الداود کو ان کے عہدے سے معزول کرکے وزارت داخلہ کا انڈر سیکرٹری، خالد بن بندر بن سلطان کو جرمنی کا سفیر، فیصل بن ستم بن عبد العزیزی کو اٹلی میں سفیر، بندر بن فیصل بن عبد العزیز بن آل سعود، ترکی بن محمد بن فہد بن عبد العزیز آل سعود، عبد اللہ بن خالد بن سلطان بن عبد العزیز آل سعود اور فیصل بن عبد العزیزی بن عبد اللہ السدیری کو شاہی دربار کا مشیر متعین کیا گیا ہے۔ بندر بن فیصل بن بندر بن عبد العزیز کو جنرل انٹیلیجنس ڈائریکٹریٹ کا صدر، عبد العزیز بن ترکی بن فیصل بن عبد العزیز آل سعود کو کھیلوں کی وزارت کا چیئرمین، عبد العزیز بن فہد بن ترکی بن عبد العزیز آل سعود کو جوف کے علاقے کا ڈپٹی گورنر متعین کیا گیا ہے۔ شاہی فرمان کے مطابق نجی ملازمین اور سپاہ کے افراد کے بونس اور الاونسز کو اپریل 2017ء کے اقدامات کے برخلاف 27 ستمبر 2016ء کے مطابق کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اپریل 2017ء میں سعودیہ نے تمام ملازمین کے بونس اور الاونسز میں بجٹ خسارے کے سبب کٹوتی کا اعلان کیا تھا۔

ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ درج بالا تمام فرامین میں پہلا یعنی ولی عہد کی معزولی اور نئے ولی عہد کی تعیناتی کا فرمان ہی سب سے اہم ہے، باقی تمام فرامین اسی پہلے فرمان کو تقویت دینے اور نئے ولی عہد کے کاموں میں آسانیوں نیز حکومتی امور پر مکمل دسترس اور کنڑول کے لئے جاری کئے گئے ہیں۔ سابقہ ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف انٹیلیجنس کے شعبہ میں خاصی مہارت کا حامل تھا، محمد بن نائف نے ایف بی آئی، سکاٹ لینڈ یارڈ میں کئی ایک انٹیلیجنس کورسز کئے۔ یہ شہزادہ امریکیوں کے بہت قریب تصور کیا جاتا تھا۔ سعودیہ میں 2003ء سے 2007ء تک القاعدہ کے خلاف کارروائیاں شہزادہ محمد بن نائف کی سربراہی میں ہی ہوئیں۔ سی آئی اے اور ایف بی آئی اس شہزادے کو القاعدہ کے خلاف جنگ میں کلیدی حیثیت کا حامل سمجھتی تھیں۔ سی آئی کے نئے سربراہ نے 2017ء میں شہزادہ نائف کی دہشتگردی کے خلاف خدمات کے صلہ میں انہیں تمغے سے بھی نوازا۔ یاد رہے کہ محمد بن نائف کو شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو معزول کرکے ولی عہد متعین کیا گیا۔

موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان 2013ء میں اپنے والد سلمان بن عبدالعزیز کے بادشاہ بننے کے بعد سعودیہ کے وزیر دفاع اور نائب ولی عہد متعین ہوئے۔ محمد نے قانون کے شعبے میں تعلیم حاصل کی اور اپنے تعلیمی دور میں ذہین طلاب میں شمار کئے جاتے تھے۔ یمن جنگ میں کردار اور ایران کے خلاف جارحانہ پالیسی کے سبب محمد بن سلمان نے خاصی شہرت حاصل کی۔ محمد اپنے دیگر عہدوں کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے مشیر، کونسل فار اکنامک افیئر اینڈ ڈویلپمنٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ کونسل بیرون ملک ریاست کے معاشی معاملات کو دیکھتی ہے۔ ملک کی سیاسی اور سکیورٹی پالیسیز بھی یہی کونسل وضع کرتی ہے۔ 2016ء میں محمد بن سلمان نے 2030ء وژن متعارف کروایا، جس کے تحت سعودیہ کو مستقبل میں عرب دنیا کا مرکز بنانا مقصود ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2030ء تک سعودیہ عرب دنیا میں سرمایہ کاری کا پاور ہاوس اور تین براعظموں کو ملانے والے ملک کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ رائس یونیورسٹی کی استاد کرسٹن کوئیٹس کے مطابق یہ تبدیلی گذشتہ پچاس برسوں میں سعودیہ میں ہونے والی تبدیلیوں میں سے ایک بڑی تبدیلی ہے، اگر یہ کامیاب ہوتی ہے تو اس کے ذریعے نوجوان ولی عہد کو متوقع طور پر ایک لمبے عرصے تک سعودی ریاست پر حکومت کا حق حاصل ہو جائے گا۔ کرسٹن کوئیٹس کے مطابق یہ تبدیلی سعودی ریاست کی ہیئت میں کلیدی تبدیلیوں کا باعث ہوگی۔

ٹیکساس یونیورسٹی کے پروفیسر جارج گوس کے مطابق جدید سعودی ریاست کے قیام سے لے کر آج تک خاندان کے ایک فرد کے ہاتھ میں تمام تر اختیارات کی جمع آوری کی اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جارج گوس کے مطابق لڑکھڑاتی معیشت، تیل کی کم قیمتیں، مشرق وسطٰی کی متزلزل سیاست، شاہی خاندان کے بہت سے افراد کا سیاسی قوت سے الگ تھلگ کر دیا جانا اور انسانی حقوق کے حوالے سے الزامات یہ تمام امور سعودیہ کے لئے ایک خطرناک دور کا عندیہ دیتے ہیں۔ محمد بن نائف اگرچہ بہت آرام سے اقتدار سے الگ تھلگ ہوگئے اور ان کے بیانات سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ آرام کرنا چاہتے، تاہم کیا یہی بات شاہ سلمان پر صادق نہیں آتی کہ اگر 57 سال کا شہزادہ حکومتی ذمہ داریوں سے تھک گیا ہے تو اکیاسی برس کا بادشاہ کیسے اب تک اپنے کاندھوں کو ان تمام ذمہ داریوں کے قابل جانتا ہے۔ سعودی امور کے ماہر سفارتکاروں کے مطابق قوت کے اس تمرکز نے شاہی خاندان میں یقیناً بے چینی کو جنم دیا ہے، اگر محمد بن سلمان سے حکومتی امور میں غلطیاں سرزد ہوتی ہیں تو شک نہیں کہ ان کے خلاف شاہی خاندان سے ہی آوازیں اٹھیں گی، جو اقدامات کی صورت بھی اختیار کرسکتی ہیں۔

محمد بن سلمان کی بحیثیت ولی عہد تعیناتی جہاں ریاست کے اندر پیغامات کی حامل ہے، وہیں اس تعیناتی میں ریاست سے باہر کے لئے بھی کئی ایک پیغامات ہیں۔ یہ تعیناتی قطر، یمن، ایران کے لئے اس بات کا عندیہ ہے کہ سعودیہ کی ان ممالک کے خلاف جارحانہ پالیسیاں جاری رہیں گی۔ اسی طرح امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو بھی پیغام ملتا ہے کہ سعودیہ کی موجودہ خارجہ پالیسی اور سیاسی و معاشی تعلقات بدستور قائم رہیں گے۔ میری نظر میں محمد بن سلمان کا ولی عہد متعین ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ عبد العزیز کے بیٹے مقرن کی جگہ اقتدار کا پوتوں میں منتقل کرنا اور محمد بن نائف کا ولی عہد مقرر کیا جانا، اس امر کا غماض تھا کہ شاہ سلمان بادشاہت کو غیر محسوس انداز میں عبدالعزیز کے بیٹوں سے نکال کر پوتوں کی جانب منتقل کر رہے ہیں، محمد بن نائف کو کچھ عرصہ ولی عہدی کا لولی پاپ دے کر اب ولی عہدی اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں شاہ سلمان پہنچانا چاہتے تھے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ اس بڑی اور غیر روایتی تبدیلی کے دیر پا اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

سعود بن عبدالعزیز، شاہ فیصل بن عبدالعزیز، خالد بن عبدالعزیز، فہد بن عبدالعزیز اور عبد اللہ بن عبدالعزیز کی روش سے ہٹ کر موجودہ سعودی فرمانروا نے شاہی اقتدار کی منتقلی کے نظام کو اپنی نسل تک محدود کر لیا ہے، جو عبدالعزیز کے باقی پوتوں کے لئے تشویشناک ہوگی۔ اقتدار کی تقسیم کا نظام جو اس خاندان کو جوڑے ہوئے تھا، عملاً معطل ہوچکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس عمل پر باقی شہزادے کیا ردعمل دیتے ہیں اور خاندان کا اتحاد کس حد تک برقرار رہتا ہے۔ اقتدار کا یہ تمرکز ریاست کی سیاسی پالیسیوں بالخصوص خلیج میں جاری اقدامات کے حوالے سے بھی اثر کا حامل ہوگا۔ قطر پہلے ہی سعودی طوق گلے سے اتار چکا ہے، خطے کے دیگر ممالک اس تمرکز کو کس انداز سے لیتے ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ظاہراً ایسا لگتا ہے کہ سعودیہ کی موجودہ جارحانہ پالیسیاں محمد بن سلمان کی ولی عہدی میں مزید تیز تر ہوں گی، جس کے سبب نئے ولی کو کو بہت جلد نئے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا، تاہم اب اسے خاندان کی جانب سے وہ حمایت میسر نہیں ہوگی، جو اس سے قبل موجود شاہی نظام میں تھی۔ واللہ اعلم
خبر کا کوڈ : 647992
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش