0
Sunday 25 Jun 2017 16:29

نئے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو درپیش چیلنجز

نئے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو درپیش چیلنجز
تحریر: عبدالباری عطوان

سعودی عرب کے نئے ولیعہد محمد بن سلمان نے اپنی بیعت کی تقریب میں ایک عجیب اقدام انجام دیا۔ جب سابق ولیعہد محمد بن نائف ان کی بیعت کیلئے آئے تو انہوں نے زمین پر بیٹھ کر ان کے پاوں چومنے کی کوشش کی۔ ان کا یہ اقدام مجھ سمیت کئی افراد کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ سعودی عرب کی تاریخ میں یہ پہلی بار نہ تھا کہ ایک شہزادہ اپنے رقیب پر فتح حاصل کرنے کے بعد اس کے ہاتھ کا بوسہ لے رہا ہو۔ ماضی میں بھی ایسے اقدام کی مثالیں ملتی ہیں، جب سعودی حکام میں کسی ایک نے اپنے رقیب کو شکست دینے کے بعد اس کا ہاتھ چوما۔ برطانوی مصنف رابرٹ لیسی، سعودی عرب کے بارے میں اپنی مشہور کتاب میں لکھتا ہے: 1964ء میں سعود بن عبدالعزیز کو اس کے خاندان کی جانب سے بادشاہت کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا اور اسے اہلخانہ سمیت یونان جلاوطن کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ وہ جب یونان جانے کیلئے ہوائی اڈے پر آیا تو سعودی شہزادوں، علماء اور حکام کی بڑی تعداد انہیں خدا حافظی کہنے کیلئے وہاں موجود تھی۔ انہیں میں سے ایک ان کا بھائی ملک فیصل بن عبدالعزیز بھی تھا، جس نے سعود بن عبدالعزیز کو اپنے عہدے سے برطرف کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ جب اس کی باری آئی تو انتہائی احترام سے خم ہوا اور اپنے بھائی سعود بن عبدالعزیز کا ہاتھ چوما۔ اس وقت کے ڈیلی الاخبار کے صحافی جعفر البکلی کے بقول سعود بن عبدالعزیز نے ملک فیصل کو کہا: خداوند تمہاری مدد کرے اور ملک فیصل نے بھی جواب دیا: خداوند آپ کو عزت دے۔ دونوں بھائیوں کے درمیان یہ آخری ملاقات اور بات چیت تھی۔

یہ منظرنامہ گذشتہ ہفتے بدھ کے روز دوبارہ دیکھنے میں آیا اور محمد بن سلمان کی جانب سے جھک کر محمد بن نائف کے پاوں چومنے کی کوشش کے علاوہ ماضی کا مکالمہ بھی دہرایا گیا۔ محمد بن نائف نے کہا: "خداوند تمہاری مدد کرے، میرا ذہن مطمئن ہوگیا ہے۔" جواب میں محمد بن سلمان نے کہا: "خداوند آپ کو عزت بخشے، میں آپ کی تجاویز اور نصیحتوں کا محتاج رہوں گا۔" لیکن یہ سب کچھ صرف رکھ رکھاو کی حد تک تھا۔ محمد بن سلمان جب سے نائب ولیعہد کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، انہوں نے ہرگز محمد بن نائف کو قبول نہیں کیا اور انہیں یکسر نظرانداز کیا ہے۔ اب جبکہ محمد بن نائف کے پاس کوئی حکومتی عہدہ ہی باقی نہیں رہا تو محمد بن سلمان انہیں کیا اہمیت دیں گے؟ محمد بن نائف کے پاس زیادہ آپشنز موجود نہیں تھے۔ ان کے پاس صرف دو راستے تھے، یا تو وہ اس حقیقت کو قبول کر لیتے اور نئے ولیعہد کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے اور اس اقدام کے عوض انہیں ایک ارب ڈالر بھی نصیب ہو جاتے اور یا پھر سعودی فرمانروا کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے۔ محمد بن نائف نے بھی اپنے چھوٹے چچا مقرن بن عبدالعزیز کی مانند خاموش رہنے میں ہی بہتری سمجھی۔

اب جبکہ محمد بن سلمان اپنے سامنے موجود بڑی رکاوٹ سے عبور کرچکے ہیں تو جیسے جیسے حالات معمول پر واپس آئیں گے، انہیں نت نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلا بڑا چیلنج نائب ولیعہد کا عہدہ ہے۔ ان کی ولیعہد کے عہدے پر ترقی کے باعث نائب ولیعہد کا عہدہ خالی ہوچکا ہے، جو جلد از جلد پر ہونا ضروری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس عہدے کیلئے کس شخص کا انتخاب کریں گے۔ کیا وہ اپنے بھائیوں میں سے کسی ایک جیسے شہزادہ خالد بن سلمان کا انتخاب کریں گے، جو ان دنوں واشنگٹن میں سعودی سفیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں؟ لیکن سعودی فرمانروا ملک سلمان کی جانب سے آئین میں انجام پانے والی تبدیلیوں کی رو سے شہزادہ خالد اس عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔ لہذا کیا کسی اور قریبی شہزادے کو اس عہدے کیلئے منتخب کیا جائے گا؟ اور اس بات کا انتظار کیا جائے گا کہ محمد بن سلمان بادشاہت کے عہدے پر فائز ہو جائیں اور ان کا پہلا بیٹا بڑا ہو جائے۔؟

دوسری طرف محمد بن سلمان کے پاس نائب وزیراعظم کا عہدہ بھی ہے، جس کی روشنی میں ملک کے تمام سیاسی، سکیورٹی، فوجی اور اقتصادی امور ان کے ذمے ہیں۔ اسی طرح خام تیل کی قیمتیں روز بروز گرتی جا رہی ہیں اور یمن کے خلاف جنگ کے باعث بھی سعودی عرب کو بھاری اخراجات کا سامنا ہے۔ لہذا انہیں درپیش دوسرا بڑا چیلنج شدید اقتصادی مشکلات کے دور میں ملک کو چلانا ہوگا۔ مزید برآں، مستقبل قریب میں ایران یا قطر کے خلاف ممکنہ جنگ کا خطرہ بھی منڈلاتا نظر آ رہا ہے۔ محمد بن سلمان کے حامی حلقوں اور ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ وہ سعودی عرب کو خطے کی بڑی طاقت میں تبدیل کر دینے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے، اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ سعودی عرب ایسی سطح پر پہنچ جائے کہ ایران اور ترکی جیسے طاقتور ممالک کا مقابلہ کرسکے۔ دلچسپ اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس مد میں اسرائیل کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لیکن محمد بن سلمان کے حامی حلقے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ یہ مقصد محض میڈیا پر شور شرابے یا امریکہ کے ساتھ اربوں ڈالر اسلحہ خریدنے کے معاہدوں کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے اندر سیاسی و سماجی استحکام اور ترقی پیدا کی جائے۔

ایران اور ترکی کی جانب سے پیش کردہ علاقائی منصوبوں کی بنیاد جمہوری اصولوں اور مذہبی و قومی رواداری پر استوار ہے۔ ایران اور ترکی جیسے ممالک میں آزاد اور خود مختار عدلیہ، ایک حد تک اجتماعی انصاف، عوام کی منتخب پارلیمنٹس، آزاد میڈیا اور مضبوط معیشت پائی جاتی ہے، جن میں اتنی آسانی سے خلل پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ آخر میں اس اہم نکتے کی جانب اشارہ بھی ضروری ہے کہ محمد بن سلمان کی جانب سے ولیعہد کے عہدے تک رسائی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انہیں رشوت کے طور پر دی گئی اربوں ڈالر کی دولت کا بھی اہم کردار ہے۔ محمد بن سلمان اپنے نئے عہدے کی خوشی میں مست ہیں۔ وہ ایک عرصے تک سلطنتی خاندان اور مذہبی اور حکومتی حکام کی بیعت لے کر خوش رہ سکتے ہیں، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ان کا اگلا فیصلہ کیا ہے؟ اس صورت میں کچھ بھی ممکن ہوگا۔ خاص طور پر یہ کہ خطے میں نئی جنگ کا بھی قوی امکان پایا جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 648732
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش