QR CodeQR Code

امام خمینی، ایران،پاکستان اور عالم اسلام،شریف فاروق

10 Jun 2009 12:03

قوموں کی زندگی میں حضرت امام خمینی علیہ الرحمۃ جیسی انقلاب آفرین شخصیات بہت کم پیدا ہوتی ہیں۔ آج جمہوری اسلامی ایران جس بلند اور عظیم مقام پر کھڑا ہے اس کا کریڈٹ عالم اسلام کے اس عظیم مفکر، مدبر،سپہ سالار اور عالم دین کو جاتا ہے۔ جو حضرات ایران کی تاریخ سے واقف


شریف فاروق ۔پشاور
حکیم الامت علامہ اقبال اور قائداعظم جناح کی آرزوئوں کی روشنی میں!
قوموں کی زندگی میں حضرت امام خمینی علیہ الرحمۃ جیسی انقلاب آفرین شخصیات بہت کم پیدا ہوتی ہیں۔ آج جمہوری اسلامی ایران جس بلند اور عظیم مقام پر کھڑا ہے اس کا کریڈٹ عالم اسلام کے اس عظیم مفکر، مدبر،سپہ سالار اور عالم دین کو جاتا ہے۔ جو حضرات ایران کی تاریخ سے واقف ہیں انہیں خوب علم ہو گا کہ طاغوتی طاقتوں نے کس طرح ایران کے نہ صرف وسائل پر قبضہ کیا بلکہ پوری قوم کو اپنی لوٹ مار کیلئے یرغمال بنا لیا۔ شاہ قاچار کے زمانے میں تو حالت یہ ہوگئی تھی کہ ایران کی ساری پیداوار پر مغربی طاقتیں قابض ہو جاتی تھیں۔ قاچار کا تختہ الٹنے کے بعد توقع یہ تھی کہ ایران جدیدیت کے ساتھ ساتھ اپنے قومی مفادات کی پاسداری کا فریضہ بطریق احسن انجام دے سکے گا لیکن سامراجی طاقتوں نے ایران کے وسائل پر قبضہ کرنے اور ایران کے اسلامی تشخص کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ملیامیٹ کرنے کی خاطر رضا خان کے بعد اس کے بیٹے رضا شاہ پہلوی کے سپرد ایران کا اقتدار کر دیا،جو ایک کٹھ پتلی ثابت ہوا۔ اس نے ایک ایسے ایجنٹ کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا جس کے بارے میں اب کچھ کہنا لاحاصل ہے۔ اپنے اس کٹھ پتلی ایجنٹ کے ذریعے اس دور کی دوسری یورپی قوتوں کی ملی بھگت سے اینگلو امریکی بلاک نے ایران کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا۔ صرف قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ ایران کی عظیم قوم کو اپنا مکمل طور پر غلام بنا لیا۔ ان سامراجی طاقتوں کے ایجنٹ نے عظیم ایرانی ملت کو اس کی قومی غیرت،حمیت دین اور مذہب، تہذیب اور شائستگی،علوم اور ثقافت سے محروم کرنے کیلئے بے پناہ جبر و استبداد سے کام لینا شروع کر دیا اور بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی SAVAK کے ذریعے وہ ہولناک مظالم ڈھانے شروع کئے کہ امریکیوں کا بدنام زمانہ گوانتاناموبے گردِ راہ دکھائی دیتا ہوگا۔ ظلم و استبداد سے قطع نظر رضا شاہ پہلوی نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے تہران میں پچاس ہزار امریکی فوجیوں کے ساتھ ساتھ امریکی اور یورپی اسلحے کے بھی انبار لگا دیئے۔ اس مستبد حکمران کو امریکیوں نے اپنی قوم کو کچلنے اور گرد و نواح کے مسلمان ممالک پر اپنی دھاک اور دبدبہ بٹھانے کیلئے کھلی چھٹی دے دی۔ اسرائیل کے بعد ایران کو امریکنوں کا سب سے بڑا اڈہ بنا دیا گیا اور ایران کو ایشیاء کا پولیس مین (Police Men) قرار دے دیا۔ امریکی اور یورپی استحصالی طاقتوں نے اپنی سازشوں کا ایسا جال بچھایا کہ حریت مآب ایرانی ملت اپنی ثقافت اور تہذیب سے ہاتھ دھو کر ایک مایوس اور بددل قوم میں بدل گئی۔ بلاشبہ یہ جو کچھ ہو رہا تھا اس کے خلاف ایران میں بائیں بازو کی تحریکیں بھی اٹھتی رہیں ڈاکٹر مصدق جیسا صف شکن لیڈر بھی میدانِ عمل میں کود پڑا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی علیہ الرحمۃ کی زیر قیادت علمائے ایران نے جس فکری اور نظری تبدیلی کے بعد ایران کو اس کے عظیم ماضی،اسلامی اور قرآنی تعلیمات کی عملی قوت سے وابستہ کیا وہ انقلاب کی ایک ایسی لہر بن کر ابھرا جس کے سامنے تمام فرعونی طاقتوں کو سپرانداز ہونا پڑا۔ چنانچہ حضرت امام خمینی کی بصیرت،تدبر اور قائدانہ صلاحیت کے باعث صرف انقلاب کی بنیادیں ہی نہ ڈالی گئیں بلکہ انقلاب کے بعد اس کی عمارت کو استوار کرنے کیلئے جس انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی قائم کر دیا یہ بہت بڑا اور ناقابل تصور کارنامہ تھا جو حضرت امام خمینی نے انجام دیا اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انقلاب ناکام ہو سکتا تھا۔ تاہم امریکہ،اسرائیل اور یورپی استحصالی کہاں چاہتے تھے کہ ایران اپنا سر اٹھائے چنانچہ ان طاقتوں نے دنیائے عرب کو ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابیوں سے ڈرا کر عراق کے ذریعہ حملہ کرا دیا جس میں عراق سمیت تمام یورپ اور جاپان تک سبھی ممالک شامل ہو گئے۔
جس طرح ایران کے جبہ اور عمامہ بردار علماء اور شوق شہادت سے سرشار نوجوانوں نے سامراجی عزائم کو خاک میں ملا دیا وہ اس عظیم قوم اور اس کے عظیم ترین رہنماء کی فکری گہرائی اور کردار کی بلندی کا مظہر ثابت ہوا یہ اسی تسلسل کا نتیجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای کی زیر نگرانی اپنے عظیم صدر محمود احمدی نژاد کی صورت میں دنیا کی تمام مظلوم اور محکوم قوتوں کیلئے روشنی کا مینار ثابت ہو رہے ہیں۔ آج امریکہ جیسی استبدادی قوت کا صدر اور اس کی بے پناہ عسکری قوت اور اس عسکری قوت کے نشے میں سرشار مغرور اور متکبر پینٹاگان،سی آئی اے،وہائٹ ہائوس اس کے تھنک ٹینک، آج ایران کے سامنے سجدہ ریز دکھائی دے رہے ہیں۔ صدیوں کا عالمی استحصالی نظام ایران میں دم توڑ رہا ہے بلکہ توڑ چکا ہے آج کی محیرالعقول کامیابی اس عظیم قائد اور اس کے جانشینوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے۔ جنہوں نے ناقابل تصور مشکلات، مسائل،دبائو،رخنہ اندازیوں کا سامنا کرتے ہوئے ایٹمی قدرت کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سامراجی اور استحصالی قوتیں ایران کی اس عظیم قیادت کی کامرانیوں کے سامنے سپرانداز ہو چکی ہیں۔ ایران کا مستقبل نہایت روشن ہے اور عالم اسلام سمیت دنیا کی تمام مظلوم قوموں کی نگاہیں اب ایرانی قیادت کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ وقت ایرانی قیادت کی طرف نگاہیں بلند کئے ہوئے رہنمائی کا منتظر ہے۔ شاید حکیم الامت علامہ اقبال کی عمیق فکر کے عملی صورت اختیار ہونے کا وقت آپہنچا ہے جب انہوں نے ناقابل تصور امید کا اظہار کیا تھا۔
تہران ہوا گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
اس دور انحطاط و ابتذال میں ایسی امید و آرزو صرف حکیم الامت جیسے ژرف نگاہ مفکر اور مومن کامل ہی سے کی جاسکتی تھی۔ جہاں تک پاکستان اور ایران کا تعلق ہے یہ دو ایسی قومیں ہیں جو ناقابل تقسیم ہیں۔ اس لئے کہ دونوں کے فکری سوتے نہ صرف قرآن و احادیث کی تعلیمات عالیہ سے پھوٹتے ہیں بلکہ پاکستان کی علمی اور تہذیبی تکمیل ایران کے ساتھ لازوال جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باطل قوتیں ایران اور پاکستان کے درمیان نفاق اور انشقاق کیلئے ہر وقت سرگرم عمل ہیں۔ فرقہ واریت کا وہ زہر جس کے خلاف حضرت امام خمینی ،حکیم الامت علامہ اقبال علیہ الرحمۃ اور قائداعظم علیہ الرحمۃ کی تعلیمات کی وجہ سے خاک بسر ہو چکا تھا۔ اب پھر بین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے سر اٹھا رہا ہے۔ ان کوششوں کو ہم نے ناکام بنانا ہے اس کیلئے گہرے غور و فکر وسیع القلبی اور لازوال ہوشمندی سے کام لینا ہوگا۔
میری آج بھی یہ رائے ہے کہ اگر پاکستان اور ایران جو فکری اور نظری طور پر یکجان اور دو قالب ہیں اگر عملی طور پر بھی مشترکہ میدانوں جن میں سائنس ٹیکنالوجی،علوم جدید کے حصول اور تعمیر و ترقی،تجارت و اقتصاد اور باہمی وسائل سے استفادہ کرنے کیلئے کوشش کی جائے تو یہ دونوں ملک ایک قابل تقلید نمونہ بن سکتے ہیں۔ ترکی کے بارے میں بھی میری یہی رائے ہے جو ایران کے بارے میں ہے، ترک عوام کے دل بھی ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں اگر یہ تین ملک بامقصد اتحاد کار Purposeful working relationship قائم کر لیں تو اس کے بعد وسطی ایشیائی ریاستیں بھی ہماری مئوثر قوت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اس مثالی اتحاد کے بعد افغانستان میں اس وقت بھارت،اسرائیل اور امریکہ نے جو پنجے گاڑ رکھے ہیں اور جس طرح کی زمین دوز گہری سازشیں ہو رہی ہیں ان کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان دو ایسے برادر ملک ہیں جن کی سرحدات ایک ہی ہیں۔ ان کا خون اور عقیدہ اور دینی قوت ایک ہے، ان دونوں ملکوں کے مقدس خون کو یہی سامراجی طاقتیں آلودہ کر رہی ہیں۔ ہمیں ان سازشوں کے خلاف گہری بصیرت اور انتہائی یخ بستہ فکر سے کام لیتے ہوئے ان عزائم کو ناکام بنانا ہے اگر ہم اس عظیم مقصد میں کامیاب ہو جائیں تو عالم اسلام اپنے بے پناہ وسائل سے کام لیتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے انسان اور مسلمان دشمن عناصر کی خون نابہ فشانیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک امام خمینی کا یہی پیغام عالم اسلام کیلئے بالخصوص اور اقوام عالم کیلئے بالعموم ہو سکتا ہے۔



خبر کا کوڈ: 6490

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/6490/امام-خمینی-ایران-پاکستان-اور-عالم-اسلام-شریف-فاروق

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org