0
Sunday 2 Jul 2017 16:56

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا!

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com


گذشتہ ایام کے مقابل آج لوگوں نے اس قدر ترقی کے زینے طے کر لئے ہیں کہ موبائل، ٹیب لیٹ، لیپ ٹاپ اور کمپوٹر کی صورت میں دنیا مٹھی میں سمٹ کر آگئی ہے۔ دور حاضر کا انسان روزانہ صبح سویرے اٹھتے ہی اخبار کا مطالعہ کرتا ہے۔ جس میں ظلم، ظالم، مظلوم اور قتل، قاتل، مقتول کے نت نئے چہرے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ان تمام واقعات کی مشترکہ روداد غم یہ ہوتی ہے کہ ان میں معصوم مسلمان مرد و عورت اور بچوں کو ظلم کو نشانہ بنایا جانا واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس سفاکانہ کارنامے کو بروئے کار لانے والے دشمن عناصر نے مسلمانوں کا حلیہ اپنا لیا ہے اور اپنی شناخت ایک متدین اور حقیقی مسلمان کی حیثیت سے کراتے ہیں۔ جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے! جب ان مجرموں کو اپنے کئے کی سزا نہ ملی اور مسلمان دشمن نہیں بلکہ انسان دشمن ایجنسیوں نے ان کی جنگی اسلحہ اور دیگر تمام وسائل زندفی فراہم کئے تو ان کی جسارتیں اور جوان ہوگئیں۔ جس کے چلتے ان درندہ صفت لوگوں نے مسجد، مندر، گرجا گھر، عزا خانہ، مقدس روضوں اور مذہبی مقامات کی برملا توہین کرکے عالم انسانیت کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے۔

آج سے تقریباً 90 برس قبل 8 شوال المکرم 1344ھ بمطابق 1926ء میں آل سعود نے بنی امیہ و بنی عباس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خاندان نبوت و عصمت کے لعل و گہر کی قبروں کو جنت البقیع (مدینہ منورہ) اور اسی سال جنت المعلٰی (مکہ معظمہ) میں ویران کرکے اپنے اس بغض و عداوت کا ثبوت دیا، جو صدیوں سے ان کے سینوں میں کروٹیں لے رہا تھا۔ چوری کے بعد سینہ زوری کا عالم یہ ہوا کہ ان کے زرخرید غلاموں نے یہ فتویٰ صادر کیا کہ قبر پر سائباں، چھت، گنبد، مینار اور قبور و حرم بنانا اور اس کی زیارت کرنا حرام  ہے، جبکہ قرآن مجید کا صریح بیان ہے کہ: "ومن یعظم شعائراللہ فانھا من تقوی القلوب" اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگا۔(حج 32) ام قیس بنت محض کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں رسول خدا کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ نے فرمایا: اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے، جو بغیر حساب و کتاب داخل بہشت ہوں گے۔ نیز ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کے مانند دمک رہے ہوں گے۔(صحیح بخاری جلد4 حدیث4، سنن نسائی جلد 4 حدیث 91، سنن ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 493)

اگر بفرض محال مذکورہ فتویٰ کو تسلیم کر لیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ 1115ھ سے پہلے جہاں جہاں بھی قبور کی زیارت، احترام، تعمیر و مرمت ہوئی، وہ سب کفر و شرک کے زمرے میں شامل تھا۔ یعنی اس کا کھلا ہوا مفہوم یہ ہوا کہ محمد ابن عبدالوہاب سے قبل گذشتہ تمام علماء اسلام غیر اسلامی و حرام افعال میں ملوث تھے، جبکہ بات از لحاظ عقل و منطق بالکل بعید نظر آتی ہے۔ آل سعود کی یہ کارستانیاں کہ عراق اور شام سے حج و عمرہ کی انجام دہی کی خاطر تشریف لانے والوں پر پابندی عائد کرنا اور سعودی عرب میں مقیم حضرات پر یہ دباؤ ڈالنا کہ وہابیت قبول کرو، ورنہ جلاوطن کر دیئے جاؤگے۔ جس کے باعث ہزاروں مسلمان ان کے مظالم سے تنگ آکر حجاز کو الوداع کہنے پر مجبور ہوگئے۔ مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کرنا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاہ کارنامے صدیوں کا سفر کرچکے ہیں۔ لیکن چونکہ آج  میڈیا کا دور آچلا ہے، اس سبب سے اگر دنیا کے کسی بھی گوشہ و کنار میں دہشت گردانہ واردات ہوتی ہے تو اس کی خبریں لمحوں میں جنگل کی آگ کے مانند پھیل جاتی ہیں۔

مثلاً 2013ء میں صحابی رسول اکرم جناب حجر ابن عدی کی قبر مطہر کو سلفی گروہ نے مسمار کرکے جب ان کے تر و تازہ جسم اطہر کی تصویریں سوشل میڈیاپر شائع کیں تو لمحوں میں اس دردناک خبر نے پوری دنیا میں غم و آلام کی فضا قائم کر دی۔ لوگوں نے ان کے اس وحشیانہ عمل پر صدائے احتجاج بلند کرکے رسول اعظم اور ان کے اصحاب باوفا سے اظہار محبت کا ثبوت پیش کیا۔ اسی طرح 2014ء میں جب ان سلفی وہابی گروہ نے انبیاء ما سبق جناب یونس اور جناب شیث علیہما السلام کے مزارات پر دہشت گردانہ حملہ کیا، تو اس المناک واقعہ کی خبر  پورے عالم میں جا پہنچی۔ پوری دنیا کے حریت پسند افراد نے اس شیطانی عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مسلم و غیر مسلم نے ایک عظیم پیمانہ پر احتجاجی جلوس بھی نکالا۔ المختصر! یہ سلسلہ روز ازل سے جاری و ساری ہے، مگر جس کروفر سے اس ظالمانہ روش کو اختیار کیا گیا، اسی شدت سے مظلومیت میں نکھار پیدا ہوتا گیا اور پھر ان مظالم کا اختتام ظالم کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا، جس کے بعد ظلم و ظالم دونوں پوری دنیا میں رسوائے زمانہ ہوئے اور یہ ہونا ہی تھا، کیونکہ
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خبر کا کوڈ : 650317
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش