1
0
Monday 3 Jul 2017 10:24

عراق میں داعش کی نابودی میں آیت اللہ سیستانی اور حشد الشعبی کا فیصلہ کن کردار

عراق میں داعش کی نابودی میں آیت اللہ سیستانی اور حشد الشعبی کا فیصلہ کن کردار
تحریر: حسن رستمی

ایک وہ زمانہ تھا جب عراق آرمی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار تھی جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش تیزی سے پیشقدمی کر رہا تھا اور ہر روز ایک نئے شہر پر اس کے قبضے کی خبریں سنائی دیتی تھیں۔ 10 جون 2014ء کے دن داعش نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا۔ یہ شہر عراقی دارالحکومت بغداد سے صرف 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ موصل پر داعش کا قبضہ اس قدر اچانک اور تیز تھا کہ شام آرمی اس کے خلاف مزاحمت نہ کر سکی اور شہرے سے پسپائی کو ترجیح دی۔ کیا وجہ تھی کہ عراق آرمی جو کسی زمانے میں مشرق وسطی سب سے زیادہ طاقتور فوج جانی جاتی تھی اس قدر کمزور ہو گئی کہ ایک دہشت گرد گروہ کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ گئی؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کا جواب دینا تحریر حاضر کا اصل موضوع نہیں لیکن یہ کہتے چلیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ صدام حسین کی سرنگونی کے بعد عراق میں امریکی ڈکٹیٹر پال بریمر کی جانب سے عراق آرمی کا خاتمہ تھا۔ ان کے اس اقدام کا نتیجہ عراق کی دفاعی طاقت ختم ہونے کی صورت میں نکلا۔ دوسری طرف عراق آرمی میں شامل مسلح بعث پارٹی کے افراد اپنے حال پر چھوڑ دیئے گئے جو بعد میں داعش سے ملحق ہو گئے۔

داعش اور خطے میں ان کی حامی حکومتیں اپنی مسلسل کامیابیوں اور عراق آرمی کی مسلسل پسپائی سے مغرور اور مست ہو چکی تھیں۔ اسی غرور اور مستی کے نتیجے میں انہوں نے عنقریب بغداد فتح کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔ لیکن اس وقت ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور ان کا غرور اور مستی خاک میں مل گئی جب عراق کے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی علی السیستانی نے داعش کے خلاف جہاد کے واجب کفائی ہونے کا فتوا جاری کر دیا۔ یہ فتوا جاری ہوتے ہی عراقی جوانوں کی عظیم تعداد جوق در جوق داعش کے خلاف جہاد میں شامل ہونے کی صف میں شامل ہو گئے اور پہلے مرحلے پر فوجی تربیت کیلئے آمادگی کا اظہار کر دیا۔ یوں ایک عظیم عوامی رضاکار فورس تشکیل پائی جسے "حشد الشعبی" کا نام دیا گیا۔ یہ فورس انتہائی مناسب وقت تشکیل پائی کیونکہ داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں خوف اور وحشت کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ اسی طرح تکفیری دہشت گرد گروہ داعش میڈیا کے ذریعے اپنا رعب اور دبدبہ پھیلاتا رہتا تھا اور سوشل میڈیا پر اپنی بربریت اور غیر انسانی اقدامات کی ویڈیوز اور تصاویر شائع کرتا رہتا تھا جس کا مقصد خود کو ایک فولادی اور ناقابل شکست طاقت کے طور پر ظاہر کرنا تھا۔ داعش اس مقصد کیلئے نفسیاتی جنگ کے تمام حربے بروئے کار لاتا اور کسی کوشش سے دریغ نہیں کرتا تھا۔

ایسے حالات میں عوامی فورس حشد الشعبی معرض وجود میں آئی۔ اس فورس میں شامل افراد کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ شروع میں صرف شیعہ جوان ہی اس فورس میں شامل تھے لیکن بعد میں صوبہ صلاح الدین، صوبہ نینوا، صوبہ الانبار اور کرد علاقوں سے سنی قبائل کے افراد اور عیسائی افراد بھی اس میں شامل ہو گئے۔ خطے کے بعض ذرائع ابلاغ خاص طور پر سعودی عرب کے نیوز چینل العربیہ اور دیگر چینلز نے آغاز سے ہی اس عوامی رضاکار فورس کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کر دیا اور اس فورس کو جو حقیقت میں عوامی ہے، فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی اور اسے ایران نواز گروہ ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ سعودی ذرائع ابلاغ اور بعض دیگر عرب میڈیا نے حشد الشعبی کا چہرہ مسخ کر کے پیش کرنا شروع کر دیا اور اہلسنت عراقی شہریوں کو اس فورس سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اپنے ناپاک عزائم میں ناکام رہے اور عراقی پارلیمنٹ میں اکثریتی رائے کے ذریعے حشد الشعبی کو قانونی طور پر ملک کی سیکورٹی فورسز کا درجہ دے دیا گیا۔ اسی طرح اس فورس کے کردار کا تعین کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ جب بھی ملک کو شدید سیکورٹی بحران درپیش ہو گا یا ملک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر آنچ آئے گی تو یہ عوامی رضاکار فورس عراق آرمی کی مدد کیلئے میدان میں حاضر ہو جائے گی۔

مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سیستانی نے بھی اسی نقطہ نظر کے تحت جہاد کا فتوا جاری کرتے ہوئے عوامی رضاکار فورس کی تشکیل کا حکم دیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی سطح پر جو بھی فیصلہ کیا جاتا ہے وہ ہر قسم کے قومی، نسلی اور مذہبی تعصب سے برتر ہو کر کیا جاتا ہے لہذا مرجع تقلید کی نگاہ بھی ان تمام محدودیتوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ اگر آیت اللہ العظمی سیستانی کا جہاد کا فتوا نہ ہوتا اور اس کی بنیاد پر حشد الشعبی نامی عوامی رضاکار فورس تشکیل نہ پاتی تو عراق کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہ تھا۔ عراق کی روایتی فوج اور سیکورٹی ادارے داعش کے مقابلے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے تھے۔ موصل سمیت دیگر کئی شہروں پر داعش کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا۔ دوسری طرف حشد الشعبی نے میدان جنگ میں بے مثال جرات اور شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ عراق کے مختلف شہروں اور قصبوں جیسے آمرلی، جرف الصخر، دیالی، العلم، الدور اور تکریت میں اس عوامی رضاکار فورس کے کارنامے کھل کر سامنے آئے ہیں۔

آج اگر عراقی قوم موصل کی آزادی کا جش منانے میں مصروف ہے تو وہ ایسے خاکی جوانوں کی شجاعتوں اور فداکاری پر مبنی اقدامات کی برکت سے ممکن ہوا ہے جنہوں نے ملک کا چپہ چپہ آزاد کروانے کیلئے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ انہوں نے اپنا سب کچھ ملک کو دہشت گرد عناصر کے چنگل سے آزاد کروانے میں لگا دیا۔ مختصر یہ کہ اگر تین سال قبل مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی علی سیستانی کی دور اندیشی اور جہاد کا فتوا نہ ہوتا تو آج موصل میں داعش کو حتمی شکست بھی نہ ہوتی اور عراق اگلے چند عشروں تک تکفیری دہشت گردی کی لپیٹ میں رہتا۔
خبر کا کوڈ : 650368
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Zarar Nasrullah
Pakistan
I use to watch many videos uploaded by the iraqi or syrian army _where they use to speak arabic during they capture terrorists.I also saw guays wearing hashd al shaibi uniforms and fighting alongside iraqi army i was very much curious to get to know who are they today i got information through this article and came to know about many things.During the musal fight i saw many civilians hugging iraqi army personnel with tears and there is a conversation between them about the behaviour of daesh terrorists in this conversation they are sharing their experiences.both shia and sunni muslims faced these bad experiences but language barrier is a huge hurdle in the way to find the truth straightaway _from them who suffered all this.In Short I request you that these articles are very useful but only educated people can benefit _from it.There should be a forum _where such videos and public opinion should be shown and it should be with translation for the good of common person.
ہماری پیشکش