0
Friday 7 Jul 2017 18:02

مقبوضہ کشمیر، شہری ہلاکتوں میں اضافے کا رجحان

مقبوضہ کشمیر، شہری ہلاکتوں میں اضافے کا رجحان
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر کو لیکر بھارت اور پاکستان کے درمیان جوں جوں کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وادی میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ عسکریت پسندوں کو قابو یا زیر کرنے کے لئے بھی شہری ہلاکتوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ قابض فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم میں انسانی جانوں کا زیاں عمل میں آنا ناقابل فہم نہیں، لیکن جس عنوان اور رفتار کے ساتھ شہری ہلاکتوں کے وقوع پذیر ہونے میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ CASO یعنی بستیوں کو گھیر کر تلاشی آپریشنوں کے دوران قابض فورسز کو عوامی احتجاج و مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن کیا اس احتجاجی عمل سے نمٹنے کے لئے فورسز کے پاس ہلاکتیں برپا کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر بھارت کے سکیورٹی ادارے ایسا سمجھتے ہیں، جیسا کہ اکثر معاملات میں لگتا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتیں فورسز کا معمول بن گیا ہے تو یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ رواں برس کے گزرے ایام میں بیالیس کے قریب عام شہریوں کی ہلاکتیں پیش آئی ہیں۔ ان عام شہریوں کا تعلق نہ کسی سیاسی جماعت سے تھا نہ عسکری تنظیموں سے وابستگی تھی، پھر بھی ان کے گھروں میں گھس کر فورسز نے انہیں ہلاک کیا، جو کسی بھی جمہوری نظام میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

مقبوضہ کشمیر میں برسر اقتدار قیادت کی جانب سے بات بات پر یہ تاثر دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا کہ شہری مزاحمت اور احتجاج سے نمٹنے کے لئے قابض فورسز کو احتیاط برتنے اور معیاری طریقۂ کار اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے، لیکن زمینی سطح پر اس کے برعکس کیوں ہو رہا ہے، یہ کٹھ پتلی حکمرانوں کے لئے غور و فکر کی بات ہے، کیونکہ کشمیر کے اندر ایک جمہوری عمل سے وجود میں آنے والی منتخب حکومت موجود ہے، جو عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہٰذا حکومت ہی اس کا جواب دینے کی مکلف ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکمرانوں کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود شہریوں کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آنا، اس امر کی واضح دلیل ہے کہ برسر اقتدار سیاسی قیادت حزم و احتیاط کی حکمت عملی کے اختیار سے عملاً محروم ہوتی جا رہی ہے، اگرچہ مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلٰی سمیت جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا ارٹی کے لیڈران ان شہری ہلاکتوں کے خلاف وقتاً فوقتاً رنج و غم اور برہمی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کو جمہوری اصولوں کے منافی قرار تو دیتے رہتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر ان بیانات کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔

2016ء کی عوامی احتجاجی لہر کے دوران شہریوں پر طاقت کے بے تحاشہ استعمال اور شہری املاک کی توڑ پھوڑ کے بعد سکیورٹی اداروں کے ذمہ داروں نے واضح طور پر اس رجحان میں تبدیلی لانے کی یقین دہانیاں کرائی تھیں، لیکن عملاً ایک سال گذر جانے کے باوجود ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں نہ صرف اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بلکہ اس میں مرد و زن اور بچوں و طالبات کا امتیاز بھی مٹتا جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے بٹہ پورہ پلوامہ میں ایسے ہی حالات میں ایک خاتون، جو تین معصوم بچوں کی ماں تھی، اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بھارت بھر میں میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے توسط سے ایسی کارروائیوں کو برحق ٹھہرا کر اس صورتحال کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایک مہم شروع کی گئی ہے، جس کے اثرات یقینی طور پر قابض فورسز کے طرز عمل پر پڑ رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو دہشتگردی سے جوڑنے کی پالیسی بھی کسی نہ کسی عنوان سے اس صورتحال میں معاون ثابت ہوتی جا رہی ہے۔

حالانکہ ایسی کارروائیاں بین الاقوامی اصول و قواعد کے نہ صرف برعکس ہیں بلکہ ان کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہیں، عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی نہتے شہری کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی جواز نہیں بنتا اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو وہ قابل تعزیر ہوتا ہے، لیکن مقبوضہ کشمیر میں قابض فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات (افسپا) کی آڑ میں یہ باب ہی بند کر دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام نہتے شہریوں کی ہلاکتوں کے بڑھتے رجحان پر سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ غور و فکر کرکے صورتحال کو قابو میں کرنے کی کوشش کرے۔ خاص طور پر وزیراعلٰی محبوبہ مفتی، جو متحدہ کمان کونسل کی چیئرپرسن بھی ہیں، سکیورٹی اداروں پر یہ منفی رجحان اُجاگر کرنے میں پہل کرے۔ شہری ہلاکتیں ڈی ایس پی محمد ایوب پنڈت کی ہوں یا برینٹی بٹہ پورہ کی پروینہ بیگم کی، بہرحال کسی بھی جمہوری نظام میں قابل قبول نہیں ہوسکتیں اور ایسے رجحان کو تقویت دینے کی کوششیں ہرحال میں منفی نتائج پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 651450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش