0
Sunday 16 Jul 2017 09:28

پاکستان کیساتھ امریکہ کی بلیک میلنگ، کیا پالیسی بدلنے کا وقت نہیں آگیا؟

پاکستان کیساتھ امریکہ کی بلیک میلنگ، کیا پالیسی بدلنے کا وقت نہیں آگیا؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کے امریکہ کیساتھ جب سے تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں، امریکہ اسے بلیک میل کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دے رہا، جس میں پاکستان کیلئے مشکلات ہوں۔ زمینی حقائق تو یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سمیت مشرق وسطٰی میں بدترین شکست کا غصہ ہے اور وہ اس شکست کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ہی سمجھتا ہے۔ جہاں امریکہ کو اپنا غصہ ہے، وہاں بھارت نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکی غصے کو بڑھاوا دیا ہے۔ ٹرمپ سے مودی کی ملاقاتیں اور پاکستان کیخلاف بھڑکانا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کے ایک اہم پینل نے پاکستان کیلئے امریکی سول اور عسکری امداد کو افغان طالبان کیخلاف جنگ سے مشروط کرنے کے حوالے سے سماعت کی اور اس بل کی تمام سخت شرائط کو منظور کر لیا۔ 2018ء کیلئے اسٹیٹ فارن آپریشنز اپروپریشن ڈرافٹ بل کے ایک حصے کے حوالے سے سخت موقف اختیار کیا گیا ہے، یہ بل بحث کیلئے ہاؤس اختصاص کمیٹی یا کمیٹی اپروپریشن ہاؤس کیا گیا، جسے بھاری اکثریت سے منظور کرلیا گیا ہے۔ بل کی حمایت میں 344 اور مخالفت میں صرف 81 ووٹ پڑے۔ اس بل کی منظوری کے بعد امریکہ یکم اکتوبر 2017ء سے 31 دسمبر 2018ء تک پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر امداد دے گا۔ اس ڈرافٹ میں پاکستان کی امداد کو جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے، لیکن اس حوالے سے سیکرٹری آف اسٹیٹ کو قومی سلامتی کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

مذکورہ بل کی منظوری کے بعد سیکرٹری آف اسٹیٹ فارن ملٹری فنانسنگ ایف ایم ایف یا غیر ملکی فوجی امداد 85 فیصد تک جاری کر سکیں گے۔ اس بل میں پاکستان کی جانب سے پاک افغان خطے میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے عزم پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کمیٹی کو اب بھی خطے کے حوالے سے امریکی حکمت عملی کیلئے پاکستانی عزم سے متعلق تشویش ہے، جس میں دہشتگردی بھی شامل ہے۔ گذشتہ دنوں میں سینیئر امریکی حکام اور قانون سازوں نے مشترکہ طور پر پاکستان کو واضح پیغام دیتے ہوئے زور دیا تھا کہ وہ طالبان کو شکست دینے میں امریکہ اور افغانستان حکومت کی مدد کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں امریکہ، پاکستان کیساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے دوبارہ غور کرے گا۔ بل میں یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ جب تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا نہیں کر دیا جاتا اور ان پر اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں امریکہ کی مدد کرنے کے لگائے گئے تمام الزامات کو ختم نہیں کر دیا جاتا، سیکرٹری آف اسٹیٹ اس وقت تک 3 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے فنڈز جاری نہیں کریں گے۔ کمیٹی نے پاکستان کی امداد کیلئے 64 کروڑ اور 22 لاکھ ڈالر کی تجویز پیش کی تھی اور پاکستان کی امداد کیلئے کیری لوگر بل کی مد میں ایک ارب 37 کروڑ ڈالر تک بڑھانے کا عندیہ بھی دیا۔

کمیٹی نے پاکستان کیساتھ سفارتی آپریشنز کیلئے 11 کروڑ 50 لاکھ سے 54 کروڑ 20 لاکھ مقرر کرنے کی تجویز بھی دی۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ کو کہا گیا تھا کہ اس بات کی تصدیق کی جائے کہ آیا پاکستان دہشتگردی کیخلاف اقدامات میں امریکہ کو حقانی نیٹ ورک، کوئٹہ شوریٰ طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، القاعدہ، دیگر مقامی اور غیر ملکی دہشتگرد تنظیموں کیخلاف تعاون فراہم تو نہیں کر رہا، جس میں ان تنظیموں کی مدد کو روکنے کیلئے موثر اقدامات اور انہیں پاکستان میں بیس کیمپ اور آپریٹ کرنے سے روکنے کے حوالے سے اقدامات کو یقینی بنانا بھی شامل ہے، تاکہ وہ ہمسایہ ممالک کیخلاف سرحد پار کارروائیاں نہ کرسکیں۔ ان فنڈز کے اجراء کیلئے سیکرٹری آف اسٹیٹ کو ایک تصدیق بھی چاہیے ہوگی کہ پاکستان، افغانستان میں اتحادی اور امریکی فورسز کیخلاف ہونیوالی دہشتگردانہ سرگرمیوں کی حمایت نہیں کر رہا اور پاکستان کی فوج قیادت اور خفیہ ایجنسیاں ملک کے سیاست اور عدالتی نظام میں ماورائے قانون مداخلت نہیں کر رہے۔ اس تصدیقی سرٹیفکیٹ میں اس بات کو بھی ضروری شامل کیا جائے گا کہ پاکستان، طالبان اور دیگر نامزد دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے یا ان کے حمایت یافتہ گروپوں کے ذریعے چلائے جانیوالے سکولوں کی حمایت یا مالی معاونت نہیں کر رہا اور اسلام آباد جوہری مواد اور اس حوالے سے مہارت کے پھیلاؤ میں ملوث تو نہیں۔

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فارن ملٹری فنانسنگ پروگرام کے تحت فراہم کئے جانیوالے فنڈز پاکستان میں صرف اور صرف انسداد دہشتگردی اور عسکریت پسندی کیخلاف استعمال کئے جائیں گے اور یہ فنڈز پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی خریداری کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، جیسا کہ وہ ماضی میں ایسا کرچکا ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات کے بعد ضروری ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی وزرات خارجہ اس کا موثر جواب دے۔ امریکہ کی جانب سے یہ کھلی بلیک میلنگ ہے۔ پاکستان نے امریکہ کیساتھ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں آنکھیں بند کرکے تعاون کیا۔ اس جنگ میں پاکستان کو لاکھوں کی تعداد میں قیمتیں جانوں کی بھی قربانی دینا پڑی، آج ہماری قربانیوں کے اعتراف کی بجائے امریکہ بھی مودی کی زبان بول رہا ہے، جو پاک امریکہ تعلقات کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ آخر ہم کب تک امریکہ کے جھانسوں میں آتے رہیں گے؟ کب تک امریکہ ہمیں بلیک میل کرتا رہے گا؟ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے دوست بدل لیں۔؟
خبر کا کوڈ : 653711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش