0
Thursday 20 Jul 2017 12:44

خیبر پی کے، پری مون سون بارشوں سے تباہی اور حکومت کی لاپرواہی

خیبر پی کے، پری مون سون بارشوں سے تباہی اور حکومت کی لاپرواہی
رپورٹ: ایس علی حیدر

موسمیاتی تبدیلیاں ایک واضح حقیقت ہیں، جن سے انکار ممکن نہیں، پوری دنیا میں ان تبدیلیوں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ کہیں برف باری میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو کہیں معمول سے ہٹ کر بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں سیلاب نے تباہی مچاہی ہے تو کہیں قحط کی صورت میں موت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھی ایک عرصے سے ان تغیرات کی زد میں ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ پاکستان ان تبدیلیوں سے متاثرہ سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ ہمارے ہاں جیسے تمام موسم دستیاب ہیں، اسی طرح ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونیوالے ہر قسم کے اثرات بھی دستیاب ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں سے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں شدید سیلاب ہمارے لئے معمول کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ شہری علاقوں میں پانی کی سطح میں ڈرامائی کمی اور پینے کے پانی کی پراگندگی ایک اور شدید مسئلے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ فضائی آلودگی کے حوالے سے ہمارے دو صوبائی دارالحکومت پشاور اور کوئٹہ دنیا بھر میں امتیازی حیثیت حاصل کرتے ہوئے ٹاپ ٹین میں شامل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے اور اس قدر تباہی سے نبرد آزما ہونے کیلئے اقدامات ہمارے قومی ایجنڈے پر کہیں دکھائی ہی نہیں دیتے۔ ہمارے وزراء بجلی کے مسئلے کا حل پیش کرتے ہیں کہ ’’دعا کریں کہ بارش ہو‘‘ انکے پاس شدید بلکہ یقیناً سیلاب سے بچائو کا حل بھی موجود ہوگا کہ ’’دعا کریں کہ بارش نہ ہو۔‘‘

پشاور اور دوسرے اضلاع میں انتظامیہ اور خدمات کے ادارے بارشوں سے ہونے والی تباہی اور شہریوں کو پیش آنے والی بڑی اذیتوں کے بعد مختلف اقدامات کے اعلانات کرنے لگے ہیں، مون سون اور پری مون سون کے درجنوں الرٹس کے باوجود موسلادھار بارشوں میں پشاور کے شاہی کٹھے سمیت درجنوں نالے ابل پڑے، بارشوں کا پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہوا اور مختلف حادثات میں قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ آندھی اور بارش کے دوران حسب سابق بجلی کا نظام درہم برہم ہوا اور لوگ بارش رک جانے کے بعد بھی گھنٹوں اندھیروں میں رہے۔ بجلی کی بندش کے باعث ریلیف کے لئے کام بھی انتہائی دشوار ہوا، سڑکوں پر پانی آنے کے باعث ٹریفک جام رہی، جس کے باعث زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا بھی مشکل تھا، اس ساری صورتحال کا پشاور کے ٹاؤن ون میں نوٹس لیا گیا اور شاہی کٹھہ پر تجاوزات کو بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا۔ ملازمین کی ہفتہ وار چھٹیاں منسوخ کرکے تجاوزات کے خاتمے کے لئے کام کا آغاز کیا گیا، جبکہ باقی ادارے ابھی تک خاموش ہی ہیں۔ مون سون اور پری مون سون اچانک نہیں آئے، بارشوں سے متعلق الرٹ پہلے سے جاری تھے، متعلقہ محکموں کو ضروری انتظامات کی ہدایات پہلے سے مل چکی تھیں، اس کے باوجود صورتحال ماضی سے بہتر کی بجائے بدتر ہی دکھائی دی۔ اب اگر بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام بہتر بنا بھی دیا جائے تو کیا لوگوں کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ ہوسکتا ہے؟ بجلی کی ترسیل کو فول پروف بنا بھی دیا جائے، جو سردست ممکن ہی نہیں دکھائی دیتا، تو کیا لوگوں نے جو پوری پوری رات اندھیروں میں گذاری اور چھوٹے بچے گرمی سے بدحال رہے تو اس کا ازالہ ممکن ہے۔؟

ضرورت بعد از خرابی جہاں بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے کی ہے تو وہیں اَب تک ان اقدامات سے متعلق لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی بھی ہے، بصورت دیگر اسی طرح آندھی طوفان اور بارشیں ہوتی رہیں گی اور لوگ مشکلات سے گزرتے رہیں گے۔ صوبے کی سطح پر وزیراعلٰی کو سروسز کی فراہمی کے ذمہ دار اداروں سے جواب طلب کرنا چاہیئے تو وفاق کی سطح پر وزیراعظم کو چاہیئے کہ وہ متعلقہ محکموں سے جواب طلبی کریں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے کام کا بھی ازسر نو جائزہ لینا ضروری ہے صرف محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کی روشنی میں الرٹ جاری کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں، الرٹ کیساتھ تمام سٹیک ہولڈر ڈیپارٹمنٹس کو ایک چھت تلے جمع کرکے ضروری اقدامات اور ان کیلئے متعلقہ محکموں کے درمیان قریبی رابطہ بنانا بھی ناگزیر ہے۔ سروسز کی فراہمی کے ذمہ داروں کو اضافی وسائل بھی دینا ہوں گے، آندھی طوفان میں صرف بجلی منقطع ہونے سے متعلق درجنوں اطلاعات اور شکایات نوٹ ہوتی ہیں، جن کے ازالے کیلئے مطلوبہ وسائل اور افرادی قوت قطعاً ناکافی ہے، اسی طرح نالوں کو فوری طور پر کھولنے کیلئے مشینری اور ورکرز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے، صورتحال کا اعلٰی سطح پر ادراک نہ کیا گیا تو ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی چند روز گرما گرم بیانات آئیں گے اور اس کے بعد اگلے طوفان اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا انتظار کیا جائے گا۔ عملی اقدامات اب بھی نہ اٹھائے گئے تو لوگوں کا اعلانات اور بیانات سے اعتماد اٹھ جائے گا، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ عوام کا اعتماد ان بیان بازیوں سے اٹھ چکا ہے تو زیادہ بہتر ہوگا، عوام اب عملی کام چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 654678
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش