0
Friday 21 Jul 2017 16:05

دہشتگرد اب بھی پاکستان میں فنڈز جمع کرنے میں مصروف ہیں

دہشتگرد اب بھی پاکستان میں فنڈز جمع کرنے میں مصروف ہیں
رپورٹ: ایس ایم عابدی

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پاکستان نے ملک میں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے فنڈز جمع کرنے کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کئے تو اسے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دہشت گردی پر ملکی رپورٹ برائے 2016ء کے عنوان سے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اہم اتحادی قرار دیا ہے جبکہ پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں بھی شمار کیا گیا، جہاں پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ رپورٹ 19 جولائی کو کانگریس میں پیش کی، جو اس محکمہ کی جانب سے دنیا بھر میں دہشت گردی اور اس کی روک تھام کے حوالے سے سالانہ جائزے کا حصہ ہے۔ کانگریس کو موصول ہونے والی اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی، جو مسلسل جاری ہے، جبکہ یہ بھی الزام لگایا کہ اسلام آباد سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے گروپوں کو روکنے میں ناکام رہا۔

دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے رپورٹ کے ایک علیحدہ باب میں بتایا گیا کہ پاکستان منی لانڈرنگ کے حوالے سے کام کرنے والے ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کا حصہ ہے، جو فائنینشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا ذیلی ادارہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے، جو 1989ء میں قائم ہوا، جس کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف لڑائی کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنا ہے، تاہم 2001ء میں اس ادارے کے دائرہ کار کو مزید بڑھاتے ہوئے اسے دہشت گردی کے لئے جمع کی جانے والی رقوم پر کارروائی کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔ امریکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے ذریعے ایک مجرمانہ فعل قرار دے دیا، لیکن پاکستان میں تحقیقات میں عدم وسائل اور کمزور عدالتی نظام کی وجہ سے اب تک بڑی تعداد میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ امریکی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2015ء میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے مناسب اقدامات نہ کرنے کی بناء پر اپنے نظرثانی کے عمل سے خارج کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ممبر ممالک کی جانب سے ایسا ملک جو اپنی حدود میں دہشت گردوں کی مالی معاونت سدباب کرکے ممبر ممالک کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اسے بھی دہشت گردی کا سہولت کار ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ سال اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کے ممبر ممالک کے درمیان پاکستان کے حوالے سے انتہاء پسند تنظیم داعش اور القاعدہ کے خلاف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کے اطلاق میں فرق کی وجہ سے تشویش پائی گئی تھی۔ امریکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف کارروائی کا قانون موجود ہونے کے باوجود لشکر جھنگوی اور اس کی ذیلی تنظیمیں گذشہ برس فنڈز جمع کرنے میں مصروف رہیں، جبکہ پاکستان کی جانب سے ان تنظیموں پر میڈیا کوریج کی پابندیاں بھی انہیں عطیات جمع کرنے سے نہیں روک سکیں۔ تاہم رپورٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ پاکستان نے مارچ 2015ء سے مارچ 2016ء تک ملک میں موجود دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے بینک اکاؤنٹس کو بڑی تعداد میں منجمد کیا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور ملک کے خفیہ اداروں کے زیر نگرانی چلائے جانے والے دہشت گردوں کی مالی امداد کی تحقیقات کرنے والے قومی ادارے نے دہشت گردوں کے ملکی اور بین الاقوامی بینک اکاؤنٹس کے درمیان رقوم کی لین دین کا پتہ لگایا۔ اس کے علاوہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے بھی تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لئے بھر پور تعاون کیا۔ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کی مدد سے پاکستان میں غیر لائسنس شدہ ہنڈی اور حوالہ کے نظام کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا گیا، لیکن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہنڈی اور حوالہ کے نظام کو غیر قانونی قرار دیئے جانے کے باوجود پاکستان میں رقوم کی منتقلی کا غیر لائسنس شدہ نظام رائج ہے۔ واضح رہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جس تکفیری سوچ کی بنیاد رکھی گئی، آج اس کی جڑیں ملک کے بعض اداروں اور سیاسی جماعتوں میں موجود تکفیری عناصر، بعض مدرسوں اور سعودی فنڈنگ کی بدولت مزید پروان چڑھتی ہیں، مسئلے کی جڑ کو ختم کئے بغیر دہشت گردی کے خاتمہ ایسا ہی عمل ہے کہ آپ ایک درخت کی مسلسل شاخیں کاٹتے رہیں، لیکن جڑ بدستور اپنی جگہ قائم رہے، نتیجہ یہ ہوگا کہ جڑ کی مضبوطی کی بدولت شاخیں دوبارہ باہر نکل آئیں گی۔ لہذا اگر پاکستان واقعی دہشت گردی کا خاتمہ چاہتاا ہے تو اسے امریکی اور سعودی بلاک سے باہر نکلنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 654920
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش