0
Sunday 23 Jul 2017 23:30

داعش نامہ، ابتداء سے انتہاء تک(3)

داعش نامہ، ابتداء سے انتہاء تک(3)
تحریر: سید اسد عباس

عراق اور شام میں داعش کی تشکیل کے حوالے سے ہم نے گذشتہ دو اقساط میں اجمالی تذکرہ کیا۔ روس کے شام کی جنگ میں ورود کے بعد داعش کو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا، داعش اور دہشت گردوں کی معیشت پر کاری ضربیں لگائی گئیں، ان کے مراکز پر حملے ہوئے۔ اگرچہ روس کی شام میں آمد سے قبل امریکہ بھی ظاہراً یہی کام کر رہا تھا، تاہم داعش اور دہشت گرد ختم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جا رہے تھے، جو فقط تین ماہ کے حملوں میں سکڑ کر رقہ اور دیر الزور تک محدود ہوگئے۔ عراق جہاں داعش کے حملے اور دو اہم صوبوں پر قبضوں کے بعد قومی فوج عملاً ختم ہوچکی تھی، میں بقیہ ریاست کے دفاع کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا گیا اور چند برسوں میں ایک ایسی دفاعی مشینری تشکیل دی گئی، جس نے نہ صرف داعش کا عراق سے خاتمہ کیا بلکہ ملک کا چپہ چپہ ان کے قبضے سے واگزار کروایا۔ مغربی میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے چینلز نے اس عظیم معرکے اور کامیابی پر بالکل چپ سادھ لی جبکہ یہی چینل چند برس قبل عراق کی تقسیم اور تین ریاستوں کے قیام کے حوالے سے مقام یقین پر فائز ہوچکے تھے۔

عراق میں چند برسوں کے اندر داعش کی حکومت کا خاتمہ اور داعشی عناصر کی سرکوبی جدید عسکری تاریخ کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ خام تیل، تزویراتی راہنمائی، مالی مدد اور عسکری تربیت کے حامل وحشی دہشت گردوں کو چند برسوں کے اندر ختم کرکے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے ملک سے نکال پھینکنا یقیناً کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے ممالک دہائیوں سے اس فکر کے حامل دہشتگردوں سے نبرد آزماہیں، تاہم حتمی فتح اور کامیابی اب تک کسی کا مقدر نہیں بن سکی۔ اس فتح میں یقیناً عراق کے عوام، وہاں کے علماء، سیاسی راہنماوں اور حامی ممالک کا اہم کردار ہے۔ داعش کے اہم مرکز موصل میں ناکامی کے بعد اب ان کے لئے جائے پناہ شام میں دیرالزور اور رقہ کے علاقے ہیں۔ حلب، حمص، دمشق اور دیگر اہم علاقوں سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ آخری معرکہ یقیناً دیرالزور اور رقہ میں ہی متوقع ہے۔ عراق کی رضاکار فورس حشد الشعبی جانتی ہے کہ اگرچہ موصل سے داعش کا صفایا ہوگیا ہے، تاہم جب تک ان کو دیرالزور اور رقہ میں بھی شکست نہیں دی جاتی، اس وقت تک خطہ میں امن و امان کو یقینی نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے موصل کی فتح کے بعد داعش کا شام میں بھی تعاقب جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

دولت اسلامیہ اور دیگر عسکری گروہوں کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کا اہم ترین اور حساس ترین پہلو اس کا مسلکی پہلو تھا۔ بہت سی قوتوں کی جانب سے کوشش کی گئی کہ اس جنگ کو دو مسالک کی جنگ بنا کر پیش کیا جائے، تاہم عراق اور شام کے سنی و شیعہ علماء اور عوام نے اس کوشش کو ناکام بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ داعش کی تشکیل کے حقائق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ جنگ مسالک کی نہیں بلکہ بعثی ٹولے، ان کے حامیوں اور عالمی جواریوں کی جانب سے مسلط کردہ جنگ تھی، جو انہوں نے عراق اور شام کے مسلمانوں پر مسلط کی، تاکہ ان ممالک کے وسائل پر قبضہ کیا جاسکے۔ اس جنگ کا ایک اور ہدف خطے میں موجود صہیونی ریاست کا دفاع اور اسے محفوظ بنانا تھا۔ بعثی ٹولہ، ان کے حامی اور عالمی جواری اس جنگ میں ناکام ہوئے اور عراق و شام کے عوام ہزاروں انسانوں کی قربانی، لاکھوں افراد کی مہاجرت، مال و اسباب کے چھن جانے کا غم جھیلنے کے بعد اس سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔

داعش کے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ ابھی مکمل نہیں ہوئی، صوبہ قفقاز، صوبہ یمن، افریقہ، لیبیا، صوبہ خراسان، انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائین اور دیگر ممالک میں اس گروہ سے متمسک افراد موجود ہیں، جنہوں نے القاعدہ کے بعد داعش نامی اس گروہ کی بیعت کی اور اپنے ملکوں میں نام نہاد خلافت کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ القاعدہ کی مانند ظاہراً تو یہ افراد مقامی سطح پر ایک نظم تشکیل دیتے ہیں، تاہم انہیں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ حقیقت میں ان کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں۔ داعش نامہ لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس گروہ کی تشکیل اور اس میں ملوث کرداروں کے چہروں پر سے نقاب پلٹا جاسکے، تاکہ امت مسلمہ کے نوجوان اس عالمی سازش کا شکار نہ ہوں۔ مرکز یعنی عراق کے شہر موصل میں ناکامی اگرچہ بہت بڑی شکست ہے، تاہم اس فکر کی گذشتہ تیس سالہ تاریخ کی روشنی میں یہ ضروری نہیں کہ یہ گروہ باقی مقامات پر بھی کمزور پڑے۔ میری نظر میں داعش یعنی داعش سازوں کا مرکز کے طور پر اگلا انتخاب صوبہ خراسان اور قفقاز ہے۔ یہ خطہ اس سے قبل بھی عالمی جواریوں کا میدان کارزار بن چکا ہے۔ خراسان کے چند علاقوں پر قبضے کے بعد بآسانی یہاں خلافت کے قیام کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ قفقاز، مشرق بعید، عرب دنیا اور یورپ نیز ہمسایہ ممالک سے افرادی قوت بآسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں داعش اور طالبان کے مابین جبہۃ النصرۃ، احرار الشام اور داعش کی طرح کی جنگ چھڑنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی۔ ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ جو خطے کی ترقی اور پیش رفت کا ضامن ہے کو تعطل میں ڈالنے اور اسے خطرات سے درپیش کرنے کے لئے بھی داعش ایک اہم اوزار کے طور پر کام کرسکتا ہے۔

داعش کی صوبہ خراسان میں بیخ کنی کے نام پر اس خطے میں ورود کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے۔ یہ اندازے نہیں بلکہ حقیقت ہے، جو بی بی سی کے نامہ نگاروں کے مطابق افغانستان میں تشکیل پا رہی ہے۔ بی بی سی کی ایک اہم رپورٹ کے مطابق داعش کے افغانستان میں قدم جمانے کا آغاز 2014ء کے آخر میں ہوا اور وہ زیادہ نمایاں طور پر جنوری 2015ء میں سامنے آئی، جب اس نے مشرقی صوبہ ننگر ہار میں میں ایک بڑے حصے پر کنٹرول کر لیا۔ 25 فروری 2017ء کو بی بی سی کے نامہ نگار داؤد عظمی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’یہ پہلا موقع تھا جب دولت اسلامیہ مشرق وسطٰی سے باہر باضابطہ طور پر نمودار ہوئی۔ اس نے چند ہی ہفتوں میں افغانستان کے پانچ صوبوں ہلمند، ذبول، فرح، لاگر اور ننگر ہار میں مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ بظاہر ننگر ہار غیر اعلانیہ طور پر افغانستان میں داعش کا دارالحکومت ہے، جو داعش کے تصور کے مطابق دولت اسلامیہ صوبہ خراسان کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ پس یہ جنگ خراسان میں آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے اور یہ جنگ بنیادی طور پر روس، چین، پاکستان، ایران نیز مشرقی ایشیاء کی ریاستوں کو ہی لڑنی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ، خطے کی ریاستوں کا داخلی امن اس جنگ میں کامیابی پر ہی منحصر ہے۔ دوسری جانب امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے روابط جہاں کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے تشویشناک ہیں، وہیں یہ خطے کے ممالک بالخصوص ون بیلٹ ون روڈ کے حامی ممالک کے لئے بھی فکر انگیز ہیں۔ پاکستان، روس اور چین خطے میں بدلتی صورتحال سے نابلد نہیں ہیں۔ تینوں ریاستیں اپنے تئیں اقدامات کر رہی ہیں۔ خیبر فور کا آغاز پاک فوج کی جانب سے اس بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے آمادگی اور تیاری کا عندیہ ہے۔
۔۔۔۔۔ تمام شد۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 655595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش