QR CodeQR Code

دہشتگرد چند ممالک نہیں چند افراد ہیں

24 Jul 2017 22:32

اسلام ٹائمز: عالمی جنگ یا بین الاقوامی دہشتگردی سارے انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ جسطرح یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دہشتگردوں کا کوئی مسلک نہیں ہوتا، اسی طرح اب اس دعوے کی بھی ضرورت ہے کہ دہشتگردوں کا کوئی ملک بھی نہیں ہوتا۔ دہشتگرد مسالک و ممالک کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح جیسے القاعدہ و داعش کی دہشتگردی زبان زدعام ہے، اسی طرح دوسرے ممالک کی سرحدوں پر کشیدگی پھیلانے اور فائرنگ کے واقعات کو بھی دہشتگردی کے زمرے میں لائے جانیکی ضرورت ہے اور اسطرح کے واقعات کے ذمہ دار افراد کو بھی انسانی جانوں کا دشمن قرار دے کر قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔


تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

غیر ملکی میڈیا کے مطابق گذشتہ روز عراق میں بعقوبہ کے شمال مغربی علاقے میں ایک  دھماکے میں 5 شہری ہلاک اور 9 زخمی ہوگئے۔ یہ بھی گذشتہ روز کی ہی خبر ہے کہ   افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغربی علاقے میں کار بم دھماکے کے نتیجے میں 36 افراد ہلاک جبکہ 42 زخمی ہوگئے۔ یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ کابل کے مغربی حصے میں ہزارہ برادری کے لوگ رہائش پذیر ہیں، جنہیں وقتاً فوقتا حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہزارہ کشی فقط پاکستان تک محدود نہیں بلکہ کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ دوسری طرف یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ گذشتہ روز ہی افغانستان میں طالبان نے دو مزید ضلعی ہیڈکواٹرز پر قبضہ کر لیا ہے۔ آج پاکستان میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں فیروز پور روڈ پر ارفع کریم سنٹر اور پرانی سبزی منڈی کے سامنے پولیس اہلکاروں کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس خودکش دھماکے میں 9 پولیس اہلکاروں سمیت 28 افراد شہید جبکہ 56 زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب انٹرپول نے مغربی ممالک کو مطلع کیا ہے کہ داعش کے انتہائی ماہر اور تجربہ کار ایک سو تہتر دہشتگرد یورپ میں خودکش حملے کرنے اور دہشتگردی کو رواج دینے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔

اگرچہ انٹرپول نے یورپی ممالک کو داعش کے دہشتگردوں کے ناموں کی فہرست بھی دی ہے۔ تاہم لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بنایا جانے والا سعودی اتحاد اس سلسلے میں بالکل خاموش ہے۔ عین اس وقت پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر کشیدگی کے ساتھ ساتھ چین اور بھارت کے درمیان بھی زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے۔ چینی وزارت دفاع کے ترجمان ووقیان نے پریس بریفنگ میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ملکی دفاع کے حوالے سے چینی فوج کی صلاحیتوں سے متعلق غلط فہمی میں نہ رہے، چین نے بھارت کو سرحد پار علاقے سے اپنی فوج فوری ہٹانے کو کہا ہے۔ اسی طرح ریاض کانفرنس کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے مسلسل ایران کے خلاف سفارتی محاذ گرم رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے چند روز پہلے ہی ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے تسلسل پر تہران پر اقتصادی پابندیاں عاید کی تھیں، لیکن ایران نے امریکی دباو اور پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے میزائل "شکار 3" کا بھی افتتاح کیا ہے۔ اس میزائل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ 27 کلو میٹر بلندی پر 120 کلو میٹر دور اپنے ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کے علاوہ جنگی طیاروں، ڈرون طیاروں، کروز میزائلوں اور جنگی ہیلی کاپٹروں کو بھی مار گرائے گا۔

امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ایران کے کے بگڑتے ہوئے حالات اپنی جگہ خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ انہی دنوں میں کویت نے بھی ایران کو کویت میں اپنا سفارتی عملہ کم کرنے اور دفاتر بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ موجودہ عالمی تناظر میں عالمی برادری اور خصوصاً دہشت گردی سے متاثر تمام ممالک کو پرانی رنجشوں کو بھلا کر ازسر نو پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے بیج بونے والے، دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کرنے والے، دہشت گردوں کو ٹریننگ اور گرین کارڈز فراہم کرنے والے، آج کے دور میں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اسی طرح ممالک کے درمیان جغرافیائی اور سرحدی کشیدگی پر بھی عالمی برادری کو منصفانہ اور دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس وقت صورتحال اس طرف جا رہی ہے کہ کسی بڑے انسانی سانحے سے بچنے کے لئے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کو مختلف ممالک اور اقوام کو دہشت گردی میں ملوث قرار دینے کے بجائے اُن ممالک میں موجود شخصیات کو نامزد کرکے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جائے۔ ایسے افراد جنہوں نے اپنا اسلحہ فروخت کرنے اور مختلف اقتصادی مفاد کے لئے ملکی و قومی عہدوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے، مختلف ممالک کے درمیان کشیدگی کی فضا قائم کر رکھی ہے اور یا پھر داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس قائم کئے ہیں، ان کو بلاتفریق ممالک نامزد کرکے ان کے خلاف عالمی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے۔

عالمی جنگ یا بین الاقوامی دہشت گردی سارے انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ جس طرح یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مسلک نہیں ہوتا، اسی طرح اب اس دعوے کی بھی ضرورت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی ملک بھی نہیں ہوتا۔ دہشت گرد مسالک و ممالک کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح جیسے القاعدہ  و داعش کی دہشت گردی زبان زدعام ہے، اسی طرح دوسرے ممالک کی سرحدوں پر کشیدگی پھیلانے اور فائرنگ کے واقعات کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں لائے جانے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار افراد کو بھی انسانی جانوں کا دشمن قرار دے کر قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل کو بطور عادی لینے کا وقت گزر چکا ہے، اس وقت دنیا تیزی سے آگ اور بارود کے ایک گولے میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر دنیا کے باشعور لوگوں نے اپنے اپنے ممالک میں موجود انسان دشمنوں اور دہشت گردی کے ذمہ داروں کو نامزد نہیں کیا تو اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔ عالمی برادری کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ دہشت گردی خواہ سرحدی ہو یا ملکی، دہشت گرد چند ممالک نہیں بلکہ مختلف ممالک کی پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے چند افراد ہیں۔ لہذا انہیں نامزد کیا جائے، ان کے جرائم بیان کئے جائیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ چند بیمار ذہن، حریص دماغ اور کم فکر لوگ پوری انسانی برادری کے امن سے کھیل رہے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 655882

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/655882/دہشتگرد-چند-ممالک-نہیں-افراد-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org