0
Monday 31 Jul 2017 23:12

نواز شریف کا بےنظیر بھٹو سے کیا تقابل!

نواز شریف کا بےنظیر بھٹو سے کیا تقابل!
تحریر: این اے بلوچ

پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد کئی احباب نواز شریف کو بھٹو اور ان کی بیٹی بےنظیر سے ملانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ ان احباب کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جس وقت ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے جسم کو تختہ دار پر کھینچا جا رہا تھا تو 26 سالہ بےنظیر دو برس سے جیل میں ہی قید تھیں اور یہ قید 1984ء تک الگ الگ نوعیت سے جاری رہی، 24 سال کی عمر میں بےنظیر اپنی پڑھائی مکمل کرکے پاکستان پہنچی کہ ٹھیک سولہ روز بعد والد کی حکومت کا تختہ الٹ جاتا ہے، پھر 1984ء تک قید و بند اور نظربندی جیسی آفتوں سے لڑتی رہی۔ رہائی ملی تو دو برس تک جلا وطنی کاٹنی پڑی، ظاہری مارشل لا ہٹا تو اپریل 1986ء میں وطن واپس آئیں اور پھر سے سیاسی جدوجہد شروع کر دی، لاہور ائیرپورٹ پر پہنچی تو ان کا فیقد المثال استقبال کیا گیا، ضیاءالحق 1988ء میں طیارے حادثے کا شکار ہوا تو ملک میں سیاسی تبدیلی کا آغاز ہوا، یوں 1988ء کے الیکشن میں عوام نے بھٹو کی بیٹی کو اکثریت سے نوازا، یوں 35 برس کی عمر میں محترمہ بےنظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ لیکن صرف 20 مہینوں بعد ہی صدر اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات لگا کر محترمہ کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

2 اکتوبر 1990ء کو انتخابات ہوئے اور اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر بےنظیر کا راستہ روکا گیا اور کرپشن کے گارڈ فادر میاں نواز شریف کو چور دروازے سے وزارت عظمٰی کے منصب پر بٹھا دیا گیا۔ یوں 1993ء میں نواز شریف کو بھی صدر اسحاق خان کے ساتھ استعفٰی دیکر گھر جانا پڑا۔ اکتوبر 1993ء میں الیکشن ہوئے اور محترمہ بےنطیر بھٹو ایک مرتبہ پھر اکثریت لیکر وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز ہوگئیں، لیکن اس بار کوئی اور نہیں بلکہ اپنی ہی پارٹی کے صدر فاروق خان لغاری نے کرپشن کے الزامات لگا کر محترمہ کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ محترمہ طویل عرصہ جلا وطن رہیں، تاہم اس دوران بھی وہ پارٹی کو چلاتی رہیں، 18 اکتوبر 2007ء کو دبئی سے کراچی پہنچی تو انسانوں کا سمندر اپنی لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کو بےتاب تھا۔ لیکن اس دوران محترمہ پر خودکش حملہ بھی کرایا گیا، جس کے نتیجے میں 150 سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ محترمہ کو فوجی صدر مشرف نے پیغام بھیجا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، اس لئے سیاسی جدوجہد نہ کریں۔ لیکن محترمہ بےنظیر بھٹو نے ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔

اس وقت تک ملک میں نگران حکومت بن چکی تھی اور مختلف پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے میں بٹی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے اور کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔ لیکن افسوس کہ 27 دسمبر 2007ء کو بےنظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہمیشہ کیلئے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ اس پورے خاندان کی تاریخ قربانیوں سے عبارت ہے، پاب سولی چڑھا، چھوٹے بھائی شاہ نواز کو زہر ملی، بڑے میر مرتضٰی کو بھی بھٹو کا بیٹا ہونے کی سزا دیدی گئی اور خود بےنظیر کو بھی اسی شہر میں شہید کر دیا گیا، جہاں اس کے باپ کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ قصور عوام کا بول بالا، عوام کی حاکمیت، جمہوریت کا راج تھا، بی بی نے شہادت کو تو گلے لگا لیا، لیکن اپنے اصولوں سے دستبردار نہ ہوئیں، بی بی کے خطابات سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک لیڈر کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں، لیکن محترمہ کے ساتھ نواز شریف کو ملانے والے یاد رکھیں کہ تین بار ملک کا وزیراعظم بننے کے باوجود بھی اگر نواز شریف پرچی کے بغیر خطاب نہ کرسکیں تو یقین مان لیں کہ ایک آمر کی گود میں پیدا ہونے والا شخص اچھا کاروباری تو بن سکتا ہے، لیکن ایک لیڈر نہیں۔ چور دروازے سے اقتدار کی سڑیاں عبور کرکے وزارت عظمٰی کے منصب پر تو فائز ہوسکتا لیکن تاریخ کو اندھا نہیں کرسکتا۔

آنے والی نسلیں نواز شریف کو چور ہی لکھیں گی اور یاد کریں گی، اب تو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے بھی اس خاندان پر مہر ثبت کر دی ہے۔ نواز شریف کا المیہ ہے کہ اس نے پہلے صدر اسحاق خان کے ساتھ ملکر محترمہ کی حکومت الٹی تو اسی صدر اسحاق خان نے اسی بھی چلتا کر دیا۔ فوج کے ساتھ ملکر کر بےنظیر کا مینڈیٹ چورایا تو اسی فوج نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ کر قید کر لیا، یہ الگ بات ہے کہ موصوف جیل میں ایک سال بھی بڑی مشکل سے نکال پائے اور دس سال سیاست میں نہ آنے کا این آر او کرکے جدہ روانہ ہوگئے۔ موصوف میثاق جمہوریت کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں کالا کوٹ پہن کر گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے، آج تاریخ نے دیکھا کہ اسی سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے متفقہ طور پر انہیں تاحیات نااہل کر دیا ہے۔ بےنظیر عورت ہوتے ہوئے بھی سات سال تک قید و بند کی صوبتوں سے نہ گھبرائی اور اپنے اصولوں پر کار بند رہی، لیکن یہ مرد ہوتے ہوئے بھی آل سعود کی ضمانت لیکر رہا ہوئے۔ اس لئے دونوں لیڈرز میں کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی۔
خبر کا کوڈ : 656070
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش