0
Wednesday 26 Jul 2017 01:10

دنیا کو درپیش خطرات اور بڑی طاقتوں کی سردمہری(2)

دنیا کو درپیش خطرات اور بڑی طاقتوں کی سردمہری(2)
تحریر: عمران خان

بڑی جوہری طاقتیں جو کہ خود کسی نہ کسی حوالے سے جوہری پھیلاؤ کی مرتکب ہیں اور ایٹمی توانائی کی باقاعدہ تجارت میں مصروف ہیں، آپسی اختلافات کے باوجود بھی ایران کو جوہری طاقت کے حصول سے روکنے کیلئے متحد تھیں۔ اپنے مقصد کے حصول کیلئے عالمی سطح پر باقاعدہ پروپگینڈہ کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ ایٹم سے زیادہ ایٹمی ایران خطرناک ہے۔ (دوغلی پالیسی ملاحظہ فرمائیں، وہ امریکہ کہ جو اس قوت کے بہیمانہ استعمال کا مرتکب ہے، وہ روس کہ جس کے ایٹمی وار ہیڈ چوری ہوچکے ہیں، ان کے پاس تو ایٹمی قوت محفوظ سمجھی جاتی ہے، جبکہ وہ ملک کہ جو کبھی بھی غیر روایتی ہتھیاروں کی تیاری یا استعمال کا مرتکب نہیں ہوا، اسے غیر ذمہ دار ڈکلیئر کیا گیا)۔ ایٹمی استعداد، عزائم اور دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے ایران سے کہیں زیادہ خطرناک ایٹمی اسرائیل ہے۔ جوہری توانائی کے ضمن میں وہ تمام اصول و قوانین جو کہ ترقی پذیر، پسماندہ یا بالخصوص اسلامی دنیا پر لاگو ہیں، ان تمام قواعد و ضوابط سے اسرائیل مکمل طور پر آزاد ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایران کی جوہری قوت صرف اور صرف اسرائیل کیلئے باعث تشویش تھی، تاہم اس تشویش کا اظہار ان ممالک کی جانب سے ہوا، جو کہ خود بھی ایٹمی قوت نہیں تھے اور ایران کے ساتھ باقاعدہ کوئی جنگی تاریخ بھی نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ سعودی عرب۔ یہ بعین وہی صورتحال تھی، جس کا سامنا ماضی قریب میں پاکستان کو کرنا پڑا تھا۔ انقلاب ایران کے بعد پاکستان میں جو انقلابی فکر پروان چڑھ رہی تھی، گرچہ وہ مکمل طور پر امریکی و برطانوی مفادات کے برخلاف تھی اور قطعی طور پر مسلکی نہیں تھی، تاہم امریکہ اور اس کے شراکت داروں نے اس پر ردعمل دینے کے بجائے سعودی عرب کو آگے کیا۔ جس کے بعد وہ فکری و نظریاتی تحریک جو امریکہ و اسرائیل کے خلاف تھی، اس تحریک کو مسلکی تفریق کے پنوں میں لپیٹ کر سعودی عرب نے سنی مفادات کے خلاف قرار دیا اور نتیجے میں نہ صرف مسلکی تفریق کی خلیج پیدا ہوکر بڑھتی گئی بلکہ خطے میں امریکی مفادات کو استحکام حاصل ہوا۔ (یہ ایک مثال تھی، جو بہت سے قابل بحث پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے)۔

القصہ کہ جس طرح ایران کو جوہری قوت کے حصول سے روکنے کیلئے غیر جوہری قوت سعودی عرب نے سب سے زیادہ شور مچایا اور تشویش کا اظہار کیا، اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص سعودی عرب نے امریکی مفادات کو کہیں سنی اور کہیں سعودی مفادات کا چوغہ پہنایا۔ سلامتی کونسل کے پانچوں ممبران اور اسرائیل، بھارت وغیرہ جو کہ ایٹمی ہتھیاروں کی بدولت پورے کرہ ارض کی تباہی اور اربوں انسانوں کی ہلاکت کا سامان لیئے بیٹھے ہیں، وہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پہ جوہری توانائی اور دفاعی استعداد میں اضافے پہ قدغن لگاتے ہیں۔ دوسری جانب یہی ممالک اعلٰی پیمانے پر مہلک ہتھیاروں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ وار انڈسٹری اعداد و شمار میں دنیا کا دوسرا جبکہ حقیقت میں دنیا میں سب سے بڑا کاروبار ہے۔ بڑی طاقتیں جن ہتھیاروں کی تجارت سے پسماندہ و ترقی پذیر دنیا کے وسائل اپنی تجوریوں میں منتقل کرتی ہیں، انہی ہتھیاروں کی تیاری، تجربات، یہاں تک ٹھوس اور قابل قبول وجہ کے بغیر ان کی خریداری کا حق تک پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک کو دینے پہ تیار نہیں۔ یعنی ہتھیاروں کا کاروبار کرنا بھی تو خریدار اور قیمت دونوں میں پسند ناپسند بھی ملحوظ خاطر رکھنا شامل ہے۔ مثلاً ایٹم کے بعد اب ایران کے میزائل پروگرام کیخلاف واویلا ہے، جبکہ ایرانی میزائل سے کہیں زیادہ مہلک میزائلز کا امریکہ، برطانیہ، روس، اسرائیل، جرمنی باقاعدہ کاروبار کرتے ہیں اور فروخت کرکے دنیا میں پھیلا رہے  ہیں، ان کی یہ خرید و فروخت تمام تر ضوابط سے آزاد ہے۔

وطن عزیز پاکستان جو کہ امریکہ کا نان نیٹو اور فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ اس نے امریکہ کے ساتھ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا اور ان طیاروں کی ادائیگی بھی کی۔ اس معاہدے کی مد میں پاکستان نے ابتدائی طور پر چند ایف سولہ امریکہ سے لئے، تاہم ان کے ماہرانہ استعمال کے بعد امریکہ نے ان طیاروں کی مزید فراہمی میں لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے ناقابل قبول شرائط عائد کیں۔ امریکی کانگریس میں بحث کے دوران ایک سینیٹر کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر رہا، لہذا ایف سولہ طیاروں کی ڈیل منسوخ کی جائے، جبکہ پاکستان نے طویل مار کرنے والے نئے میزائل شاہین ۱۱۱کا تجربہ کیا ہے، جس کی رینج زیادہ ہے۔‘‘ حالانکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کا معاہدہ نہ ہی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط تھا اور نہ ہی دور مار میزائل پروگرام پہ کام بند کرنے سے، علاوہ ازیں امریکہ نے ان طیاروں کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ کرکے مزید تمام رقم بھی پیشگی طلب کی۔ وہی امریکہ جس نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے نہیں دیئے، اس نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کیا کہ طیارہ ساز کمپنی لاک مارٹن ہیڈ مزید ایف سولہ طیارے بھارت میں ہی تیار کرے گی۔ یعنی جو چیز ادائیگی کے باوجود پاکستان کو نہیں دی گئی، وہی چیز پاکستان کے ہی پڑوسی یعنی بھارت کو تیار کرنے کی اجازت اور صلاحیت دی گئی، جس سے خطے میں ایک طرف طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوا اور دوسری طرف پاکستان کو متبادل کے طور پر کسی اور بڑی طاقت سے ہتھیاروں اور دفاعی ساز و سامان کی نئی ڈیل کرنا پڑی۔

ہتھیاورں کی بابت معاملہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کو ایف سولہ طیاروں سمیت دیگر کئی دفاعی آلات و ساز و سامان امریکہ نے پاکستان کی خواہش کے باوجود پاکستان کو نہیں بیچے۔ دوسری جانب سعودی عرب کہ جہاں کے حکومتی نظام (بادشاہت) پہ امریکی و مغربی سکالرز تحفظات و تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی سعودی عرب کے ساتھ امریکہ نے نہ صرف ہتھیاروں کی فروخت کی سب سے بڑی ڈیل کی۔ یہ حقیقت بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ امریکہ کو ادائیگی کے باوجود سعودی عرب میں یہ اسلحہ امریکی نگرانی میں ہی رہے گا۔ اپنے معاشی استحکام کیلئے وار انڈسٹری کو مزید فروغ دینے کی راہ نکالی اور سعودی عرب کی سربراہی میں کثیر ملکی فوجی اتحاد بھی بنوا ڈالا۔ اسی اتحاد کی پہلی نشست کی صدارت بھی امریکی صدر نے کی اور ہتھیاروں کی فروخت کے تاریخی معاہدے کا اعلان بھی اسی نشست کے دوران ہوا۔ فوجی اتحاد کی ضرورت بھی شائد اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ سعودی عرب تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود بھی ایک پیشہ وارانہ لڑاکا فوج کی تیاری میں اب تک ناکام رہا۔ چنانچہ وہ تمام ممالک جو عسکری میدان میں پہلے ہی امریکہ کیلئے خدمات انجام دے چکے ہیں، ان تمام کو اس اتحاد میں جمع کر لیا۔ اب تک اس اتحاد کا فائدہ امریکہ کو اور ان چند جرنیلوں کو حاصل ہوا ہے، جو پہلے مرحلے میں اس سے منسلک ہوئے جبکہ سعودی عرب کیلئے ’’کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ یعنی حاصل وصول کچھ نہیں ہوا اور ہتھیاروں کی ادائیگی و دیگر اخراجات ادا کرنے پہ مجبور ہے۔ یہ چند مثالیں شاہد ہیں کہ امریکہ سمیت بڑی طاقتیں جوہری و دفاعی تناظر میں پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک پہ جو قدغن لگاتی ہیں، ان کی بنیاد انسانی ہمدردی نہیں بلکہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔

دوغلی پالیسی کے ذریعے دوسری و تیسری دنیا کو اپنا محکوم رکھنے کیلئے یہ بڑی طاقتیں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتی۔ اب بھی دنیا کو جوہری ہتھیاروں کے خطرے سے آشنا کرنے کے باوجود اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کے بجائے ان کو مزید خوفناک بنانے پر کمربستہ ہیں۔ ایک طرف اپنے تصرف میں کرہ ارض کی مکمل تباہی کا سامان تیار کئے بیٹھی ہیں اور دوسری جانب اپنے ہتھیاروں کے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کی زمین کو جنگی زون میں تبدیل کئے ہوئے ہیں۔ پھر ان جنگوں میں ان متحارب گروہوں کی سرپرستی بھی کر رہی ہیں، جو کہ مصروف جنگ ہیں۔ جیسے شام جہاں کئی ممالک کے حمایت یافتہ گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں بھی چومکھی لڑائی جاری ہے۔ اسی طرح نائیجیریا، اردن، لیبیا، یوکرائن، سوڈان وغیرہ وغیرہ۔ مفادات کی یہ لڑائی جب نقطہ عروج پر ہوتی ہے تو یہ بڑی طاقتیں ایک دوسرے کیخلاف براہ راست سرگرم ہوتی ہیں۔ جیسے شام کے مسئلہ پر امریکہ و روس ایکد وسرے کے سامنے آئے۔ یوکرائن کے مسئلہ پر یورپ اور روس، محفوظ آبی گزر گاہوں کے معاملے پر چین اور امریکہ، اس دوران کئی ایسی رپورٹس جاری ہوئیں، جن میں تیسری عالمی جنگ (جوہری جنگ) کے سوفیصد خطرات ظاہر کئے گئے۔ ظاہر ہے کہ ایسی جنگ کی صورت میں دنیا کس تباہی سے دوچار ہوگی، یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ ایسے میں دوسری و تیسری دنیا کے انسان ان بڑی طاقتوں سے اتنا مطالبہ کرنے کے حق دار تو ہیں کہ زمین کی تباہی کا یہ ساز و سامان وہ خود تلف کریں اور دنیا میں پائیدار قیام امن کیلئے سب سے پہلے ہتھیاروں کے بین الاقوامی کاروبار پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ بنی نوع انسان کو خوراک و پانی کی ضرورت ہے، ہتھیاروں یا ایٹم کی نہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 656193
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش