1
0
Saturday 29 Jul 2017 17:38

امریکہ کی حزب اللہ مخالف پالیسی ناکام ہو رہی ہے

امریکہ کی حزب اللہ مخالف پالیسی ناکام ہو رہی ہے
تحریر: عرفان علی

امریکی حکومت اور اس کے قانون ساز اداروں کی لبنان سے متعلق پالیسی کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ اگر حزب اللہ کو براہ راست ختم نہیں کیا جاسکتا تو اسے غیر مسلح کر دیا جائے اور اس کا طریقہ کار یہ طے کیا ہے کہ اس کام کے لئے امریکہ کو خود میدان میں آنا نہ پڑے، بلکہ لبنان میں حزب اللہ کے مخالفین کو امریکی امداد کے ذریعے مضبوط کیا جائے۔ باراک اوبامہ نے بھی اسی پالیسی پر عمل کیا اور صدر ٹرمپ بھی اسی ایجنڈا کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ کی اس یک نکاتی منصوبہ بندی کے اس طریقہ کار میں امریکہ نے یہ بھی طے کیا ہے کہ لبنان کی حکومت اور افواج کو بھی اپنا ہمنوا بنایا جائے۔ یعنی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ لبنان کی حکومت، فوج اور سیاستدان سبھی امریکہ کے اس ہدف کے حصول کو یقینی بنائیں۔ اس نیت سے امریکی حکومت نے لبنان کو فوجی و اقتصادی امداد دینا شروع کی تھی۔ 2016ء میں لبنان کی فوجی و سلامتی شعبے کی امریکی امداد 103 ملین ڈالر یعنی دس کروڑ تیس لاکھ ڈالر تھی، لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکی حکومت نے اس میں 82% کمی کرکے اسے 19 ملین ڈالر یعنی ایک کروڑ نوے لاکھ ڈالر تک گھٹا دیا ہے۔ اقتصادی امداد 110 ملین ڈالر سے گھٹا کر 85 ملین ڈالر کر دی گئی ہے، لیکن یہ کمی محض 23فیصد ہے۔ گذشتہ سال باراک اوبامہ نے لبنان کی فوجی امداد کی مد میں ساڑھے دس کروڑ ڈالر کی درخواست کی تھی۔ امریکی حکومت کے ان فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان فیصلوں پر نظرثانی کی درخواست کرنے کے لئے لبنان کے وزیراعظم سعد حریری نے امریکہ کا دورہ کیا، جو جمعہ 28 جولائی کو اختتام کو پہنچا۔ اس سے قبل منگل کے روز امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات اور مشترکہ پریس کانفرنس بڑی دلچسپ رہی۔

ٹرمپ جوش خطابت میں سعد حریری کی تعریف کرنے لگے کہ انکا ملک دہشتگرد گروہوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور اس دوران انہوں نے دہشت گرد گروہوں داعش، القاعدہ کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کا نام بھی لیا، جس پر نہ صرف امریکہ اور لبنان بلکہ پورے مشرق وسطٰی حتٰی کہ جعلی ریاست اسرائیل کے ذرائع ابلاغ میں بھی خوب مذاق اڑایا گیا، کیونکہ حزب اللہ اس وقت بھی لبنان کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے اور سعد حریری جس حکومت کے وزیراعظم ہیں، اس میں حزب اللہ کی شراکت داری ہے کہ اس کے دو وزیر بھی اسی حکومت میں شامل ہیں۔ یعنی حزب اللہ حکومت میں شراکت دار ہے نہ کہ دہشت گرد گروہ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جس وقت حریری دورہ امریکہ پر تھے اور ٹرمپ یہ احمقانہ بات کر رہے تھے، تب بھی حزب اللہ کے جوان، لبنان کی مسلح افواج کی مدد و معاونت کرتے ہوئے عرسال کے مضافات کو جبھۃ النصرہ اور دیگر تکفیری دہشت گردوں سے آزاد کرانے کی جنگ میں مصروف تھے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ امریکی حکومت نے لبنان کی امداد میں کٹوتی کر دی ہے اور ایک ایسے وقت کی ہے کہ جب لبنان کی مسلح افواج تکفیری دہشت گرد گروہوں سے جنگ میں مصروف ہے اور حزب اللہ اس کی مدد کر رہی ہے۔ اس وقت فوجی و سکیورٹی امداد میں کمی کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ یہ کٹوتی تکفیری دہشت گردوں کو تقویت پہنچانے کے لئے تجویز کی گئی ہے۔ صرف یہی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی امریکی کانگریس حزب اللہ کے خلاف پابندیوں میں توسیع کے لئے نئے اور زیادہ سخت اقدامات کے لئے پر تول رہی ہے۔ حزب اللہ پر پابندی کے قانون پر سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے 18 دسمبر 2016ء کو دستخط کئے تھے اور حزب اللہ انٹرنیشنل فائنانسنگ ایکٹ 2015ء (H.R.2297/S.1617) کو امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی ری پبلکن و ڈیموکریٹ کے اراکین نے مشترکہ طور پر منظور کیا تھا۔

اب اسی قانون میں ترمیم کا بل 20 جولائی 2017ء کو ری پبلکن نمائندہ در ایوان نمائندگان ایڈورڈ رائس نے متعارف کروایا ہے۔ یہ قانونی بل ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ، مالیاتی خدمات اور عدلیہ کو بھی بھیجا گیا ہے۔ اس کے تحت کوئی بھی فرد یا ادارہ جو حزب اللہ اور اس سے منسلک دیگر اداروں یا شخصیات کی سپورٹ کرے، اس کے اثاثے منجمد کر دیئے جائیں۔ امریکی حکومت کو پابند بنایا جائے کہ وہ سال میں دو مرتبہ رپورٹ دے کہ ایسے غیر ملکی مالیاتی ادارے جو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے گئے گروہوں کی سپورٹ کرتے ہیں، حتٰی کہ وہ بھی جو لبنان سے باہر ہیں، ان پر بھی یہ لاگو کیا جائے اور اس پابندی کی زد پر حزب اللہ کو بھی لایا جائے۔ یاد رہے کہ سعد حریری کے ساتھ کھڑے ہوکر بھی ٹرمپ حزب اللہ اور لبنان پر تنقید سے باز نہ آئے۔ امریکی دفتر خارجہ نے جو بجٹ تجاویز دی ہیں، اس کے مطابق صرف جعلی ریاست اسرائیل، مصر، اردن اور پاکستان کے لئے غیر ملکی فوجی امداد کا تذکرہ ہے اور باقی سب کی امداد کے بارے میں ہے کہ گرانٹ کی صورت میں دی جانے والی امداد کو قرضوں میں تبدیل کر دیا جائے، لیکن حریری کی موجودگی میں ٹرمپ نے لبنان کی فوجی معاونت جاری رکھنے کا کہا ہے اور اس کا مقصد بھی بیان کر دیا کہ یہ امریکی امداد اس امر کو یقینی بناسکتی ہے کہ لبنان کی واحد دفاعی طاقت ہو، جس کی لبنان کو ضرورت ہے، حالانکہ اس لبنانی فوج کو آج تک مضبوط نہ کرنے کی واحد وجہ امریکہ کی لاڈلی جعلی ریاست اسرائیل ہے، کیونکہ خطے کے کسی بھی عرب مسلمان ملک کی فوج کی مضبوطی اسرائیل کے لئے خطرہ ہے۔ سعودی عرب نے بھی لبنان کی امداد روک رکھی ہے، لیکن سعودی عرب کے اس فیصلے پر امریکہ کو اس لئے اعتراض ہے کہ تین تا چار بلین ڈالر کی اس مجوزہ سعودی امداد میں سے ایک بلین ڈالر سے لبنان کی فوج کے لئے امریکہ سے اسلحہ خریدا جانا تھا۔

امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہالے نے اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل سے کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کو ایک تباہ کن دہشت گرد قوت اور امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھے (حالانکہ یہ صریحاً غلط بیانی ہے)۔ اس خاتون سفارتکار نے مزید کہا کہ حزب اللہ اسرائیل کی تباہی کا عہد کئے ہوئے ہے، اس لئے اس کو غیر مسلح کیا جائے اور اس کے اور اس کے پشت پناہ ایران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ امریکہ کا یہ موقف یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ حزب اللہ سے خطرہ اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں اور اتحادیوں کو ہے۔ لبنان کی سیاست میں ایک خائن گروپ القوات اللبنانیہ بھی ہے، جس کا ماضی یہ ہے کہ وہ کھلے عام اسرائیل کی نیابتی جنگ لڑتا رہا ہے۔ لبنان میں تفرقہ پھیلاتا رہا ہے۔ اس گروہ کا سربراہ سمیر جعجع ہے اور ایک اور رہنما انطون زھرا ہے۔ ان دونوں نے 28 جولائی کو حزب اللہ پر تنقید کی ہے، کیونکہ حزب اللہ عرسال کو دہشت گردوں سے آزاد کروا رہی ہے۔ دوسری جانب لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری نے واضح طور پر حزب اللہ کی مقاومت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مقاومت کے فائٹرز لبنان اور لبنانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے انہی کی طرف سے یہ مقاومت کر رہے ہیں۔ سعد حریری کی پارٹی نے الزام لگایا کہ عرسال کی جنگ ایران کے کہنے پر شروع کی گئی۔ بدھ کے روز حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ نے خطاب کرتے ہوئے اس کی تردید کی اور کہا کہ یہ انکا اپنا فیصلہ ہے اور لبنان کی فوج جب کہے گی یہ آزاد شدہ علاقے ان کے کنٹرول میں دے دیئے جائیں گے۔

حزب اللہ نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ لبنان کے غیرت مند بیٹے ہیں، جو مادر وطن کے دفاع کی جنگ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے جنوبی لبنان کے متعدد علاقوں کو غاصب اسرائیل سے آزاد کروایا اور اب تکفیری دہشت گردوں سے لبنان کی آزادی کی جنگ میں لبنان کی فوج کی مدد کر رہے ہیں، جبکہ لبنان کی فوج بھی حزب اللہ کے اس تعاون کو قبول کرتی ہے اور سراہتی بھی ہے۔ اس پورے خطے میں حزب اللہ کے خلاف پروپیگنڈا کی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے، جبکہ دیگر ملکوں میں تکفیری نواز صہیونی آلہ کار حزب اللہ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال کویت کے ایک رکن اسمبلی ولید الطبطبائی ہے، جس نے حزب اللہ کے حامیوں کو پانچ سال تا بیس سال قید کی سزا کا قانون تجویز کیا ہے۔ حزب اللہ لبنان کسی بھی مسلمان ملک کی دشمن نہیں ہے اور اگر سعودی عرب سمیت کوئی بھی حکومت حزب اللہ سے نالاں ہے تو اس کی وجہ امریکہ و اسرائیل ہیں، جنہیں حزب اللہ کی دفاعی طاقت کھٹکتی ہے، ورنہ حزب اللہ لبنان نے آج تک سعودی عرب میں کوئی کارروائی نہیں کی، نہ کویت میں اور نہ ہی کسی اور ملک میں۔ شام کی مدد کے لئے بھی شام کی حکومت کی درخواست پر گئی ہے اور وہاں بھی صرف تکفیری دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے، کیونکہ یہی تکفیری دہشت گرد جو شام میں ہیں، انہی کی شاخیں لبنان میں بھی ہیں اور یہ جنگ شام کی ہی نہیں لبنان کی بھی ہے۔ البتہ اب تک کی صورتحال میں یہ تو ماننا پڑے گا کہ لبنان کی داخلی سیاست میں حزب اللہ کو کئی مسائل و مشکلات درپیش ہیں۔ خاص طور پر منافقین اور امریکہ، اسرائیل، فرانس، سعودی مفادات کی نیابتی جنگ لڑنے والے لبنانی گروہ اور شخصیات حزب اللہ کے خلاف بیرونی آقاؤں کی جنگ میں مصروف ہیں، جس سے لبنان اور لبنانیوں کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوسکا اور نہ ہی ہوسکے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ معروضی حقیقت بھی اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ حزب اللہ کے خلاف امریکہ اور جعلی ریاست اسرائیل کی اب تک کی ساری سازشیں ناکام رہی ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی حزب اللہ کا عملی کردار ان سازشوں کی موت ثابت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 657186
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشآاللہ جناب
ہماری پیشکش