0
Saturday 29 Jul 2017 15:43

پدر رئوف امام رضا علیہ السلام

پدر رئوف امام رضا علیہ السلام
تحریر: عالیہ شمسی

حضرت امام رضا علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ایک نہایت شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، نہایت پاکیزہ اور با فضیلیت تھیں، عقل و دین کے لحاظ سے اپنے زمانے میں مشہور تھیں، فرائض کی پابند اور مستحبات پر عمل پیرا تھیں اور ہر وقت ذکر و تسبیح میں مصروف رہا کرتی تھیں۔ آپ (س) خود فرماتی ہیں کہ جب حجت الٰہی حضرت رضا (ع) میرے رحم میں منتقل ہوئے تو میرے وجود میں معنویت اور عشق الٰہی کا جذبہ روز بروز بڑھتا گیا اور مجھے کبھی بھی بھاری پن یا تکلیف اور دشواری کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ میرے فرزند تنہائیوں میں میرے مونس و انیس تھے۔ جب میں سونے لگتی تو پیوستہ تسبیح و حمد و تہلیل اپنے جسم کے اندر سے سن لیا کرتی تھی اور میں سمجھ جاتی تھی کہ یہ میرے فرزند ہیں، جو اللہ کے ذکر و تسبیح میں مصروف ہیں اور جب یہ نور الٰہی طلوع ہوا اور امام (ع) اس عالَم میں وارد ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے بل بیٹھ گئے اور سر آسمان کی جانب اٹھایا اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دینے لگے اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں راز و نیاز اور مناجات میں مصروف ہوئے اور شہادتین زبان مبارک پر جاری کیں۔ جب میرے شریک حیات حضرت موسٰی بن جعفر علیہ السلام داخل ہوئے تو آپ (ع) نے مجھے مبارکباد دی اور میں نے بیٹا آپ (ع) کے حوالے کیا اور امام (ع) نے امام رضا علیہ السلام کے دائیں کان میں اذان کہی اور بائیں کان میں اقامہ پڑھی اور پھر آب فرات میں سے تھوڑا سا پانی امام علیہ السلام کو پلایا۔ (عيون أخبارالرّضا عليه السلام: ج 1، ص 20، ح 2، ينابيع المودّة: ج 3، ص 166، حلية الابرار: ج 4، ص 339، ح 5)

تمام زبانوں پر عبور
ابوصلت کہتے ہیں: ایک روز میں نے امام علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپ اتنی زبانوں پر کیونکر عبور رکھتے ہیں اور اتنی آسانی سے مکالمہ کرتے ہیں، یہ سب آپ نے کیسے سیکھا؟ امام (ع) نے فرمایا: اے ابا صلت! میں حجت اللہ اور خلیفةاللہ ہوں اور اللہ جس کو اپنے بندوں پر اپنا خلیفہ و جانشین و راہنما قرار دیتا ہے، اسے تمام زبانوں اور اصطلاحات سے آگہی بخشتا ہے، تاکہ وہ عام لوگوں کی زبان سمجھے اور ان کے ساتھ انہی کی زبان میں بات چیت کرے اور بندگان خدا بھی اپنے امام کے ساتھ اپنی زبان میں بات کرسکیں۔
لوگوں کیساتھ طرز سلوک
مرحوم شيخ طوسى رضوان اللّہ تعالٰى عليہ اپنی کتاب “الرجال” لکھتے ہیں: ایک روز امام رضا علیہ السلام کے اصحاب کا ایک گروہ آپ (ع) کے گھر میں اکٹھا ہوا اور یونس بن عبدالرحمن بھی حاضر تھے، جو امام (ع) کے معتمد اور اہم و بلندمرتبہ انسان تھے۔ وہ آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ اتنے میں اہل بصرہ میں سے ایک گروہ نے داخلے کی اجازت مانگی۔ امام علیہ السلام نے یونس سے فرمایا: فلان کمرے میں جاو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی ردعمل ظاہر نہ کرنا؛ مگر یہ کہ آپ کو اجازت ملے۔ اس کے بعد امام (ع) نے بصریوں کو داخل ہونے کی اجازت دی، وہ داخل ہوئے تو یونس بن عبدالرحمن کے خلاف چغل خوری میں لگ گئے اور ان کی بدگوئی کرتے ہوئے انہیں برا بھلا کہنے لگے۔ امام (ع) اپنا سر مبارک جھکا کر بیٹھے اور بالکل خاموش تھے، حتٰی کہ بصری اٹھ کر چلے گئے اور اس کے بعد آپ (ع) نے یونس بن عبدالرحمن کو باہر آنے کی اجازت دی۔ یونس غم و حزن اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ امام علیہ السلام پر وارد ہوئے اور عرض کیا: یابن رسول اللہ (ص)! میں آپ پر فدا ہوجاؤں، ان لوگوں کے ساتھ میری معاشرت ہے جبکہ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کریں گے اور مجھ پر اس طرح کے الزامات لگائیں گے۔

امام علیہ السلام نے لطف بھرے لب و لہجے میں یونس بن عبدالرحمن سے فرمایا: اے یونس! غمگین نہ ہو۔ لوگوں کو یہ سب کہنے دیں اور جان لیں کہ ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جب آپ کا امام آپ سے راضی و خوشنود ہے تو فکرمندی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اے يونس! ہمیشہ لوگوں کے ساتھ ان کی معرفت و دانائی کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بات کرنے اور ان کے لئے ان کی معرفت و دانائی کی حدود میں معارف الٰہی بیان کرنے کی کوشش کریں اور ایسی باتیں بیان کرنے سے پرہیز کریں، جو ان کے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں۔ اے یونس! جب آپ کے ہاتھ میں ایک نہایت قیمتی گوہر ہو اور لوگ کہہ دیں کہ یہ پتھر یا ڈھیلا ہے تو اس طرح کی باتیں آپ کے اعتقادات اور افکار میں کتنی حد تک مؤثر ہونگی؟ اور کیا لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے آپ کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچتا ہے۔؟ یونس کو امام (ع) کے کلام سے سکون ملا اور عرض کیا: نہیں ان کی باتیں میرے لئے ہرگز اہمیت نہیں رکھتیں۔ امام علیہ السلام نے ایک بار پھر یونس بن عبدالرحمن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اسی طرح جب آپ نے اپنے امام کی معرفت حاصل کی ہو اور جب آپ نے حقیقت کا ادراک کیا ہو تو لوگوں کے افکار اور ان کی باتیں آپ کے اوپر ہرگز اثرانداز نہیں ہونی چاہئیں، لوگ جو بھی چاہیں بولیں۔ (بحارالا نوار: ج 2، ص 65، ح 5، به نقل از كتاب رجال كشّى)
خبر کا کوڈ : 657190
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش