2
1
Monday 31 Jul 2017 03:36

حزب اللہ نے تزویراتی گہرائی حاصل کرلی

حزب اللہ نے تزویراتی گہرائی حاصل کرلی
تحریر: عرفان علی

لبنان کے غیرت مند فرزندوں کی قائم کردہ مقاومتی تحریک حزب اللہ چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرکے جو کامیابیاں حاصل کر رہی ہے، اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں شاید ہی مل سکے۔ سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو بھی حزب اللہ کی عظمت اور اہمیت کا اعتراف کرنا پڑا تھا۔ اب دنیا کی ایک اور بڑی مادی طاقت روس نے شام میں جب حزب اللہ کو دہشت گردوں کے خلاف شام کا دفاع اور مسلح کارروائیاں کرتے دیکھا ہے، تو وہ بھی اس کے گرویدہ ہوچکے ہیں۔ پچھلے سال نومبر میں پہلی مرتبہ روس کے اعلٰی سطحی افسران اور حزب اللہ کمانڈرز کا براہ راست رابطہ ایک مشترکہ اجلاس میں ہوا تھا، جس میں حلب کی آزادی کی حکمت عملی پر بات ہوئی تھی۔ شام کی جنگ میں ایک طرف حزب اللہ کو مسلح نیابتی دہشت گردوں سے دوبدو اور گوریلا جنگ لڑنے کا تجربہ ہوا، وہیں اسے روس کی فوج کے ساتھ ہم آہنگی کرتے ہوئے مسلح کارروائیوں کا بھی تجربہ ہوا۔ روس کو بھی اندازہ ہوگیا کہ یہ حزب اللہ ہے، کوئی القاعدہ، داعش کی نوعیت کا گروہ نہیں ہے۔ یہ دونوں تجربات بھی حزب اللہ کی کامیاب حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے روایتی دشمن جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف اپنی سرزمین پر جنگ لڑنے کا تجربہ تو پہلے ہی حاصل کر لیا تھا، لیکن اپنے محسن دوست اور اتحادی ملک شام پر جب جنگ مسلط کی گئی تو شام نے اپنے دفاع کی جنگ میں انہیں اس قابل سمجھا کہ ان سے مدد کی درخواست کی۔

مخالفین کا الزام ہے کہ حزب اللہ ایران کی جنگ لڑتی ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ تھے، جنہوں نے ایرانی قیادت کو شام کے دفاع کی جنگ میں مدد کرنے پر آمادہ کیا۔ اس زاویے سے ایران کی انقلابی قیادت کو حزب اللہ کے کہنے پر اس قضیے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے لئے میدان میں اترنا پڑا۔ حزب اللہ کے سیاسی شعبے کے سابق مسئول ڈاکٹر احمد ملی نے مجھے بتایا تھا کہ اگر امام خامنہ ای شام کے مسئلے پر ایک واضح اور ٹھوس موقف نہ اپناتے تو روس اور چین بھی شام کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شام دشمن قراردادوں کو ویٹو نہ کرتے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو رزمندگان اسلام ناب محمدی کی جانب سے شام جنگ کی سالاری حاج قاسم سلیمانی سے بھی پہلے سید حسن نصر اللہ کے حصے میں آئی تھی۔ کینیڈا کے دی سیک ڈیو گروپ کے نامور تجزیہ نگار الیگزینڈر کوربیل، جنہوں نے حزب اللہ کے ایک کمانڈر سے کئی انٹرویوز کئے، وہ حزب اللہ کے روس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کہتے ہیں کہ شام میں حزب اللہ روسی افواج کے لئے ایک کارآمد غیر ریاستی شراکت دار بن چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اسکے چھ تا آٹھ ہزار فائٹرز شام میں موجود ہیں جبکہ ایک اور اندازے کے مطابق دس ہزار فائٹرز ہیں۔ ان میں سے دو ہزار سے کچھ زائد شہید کئے جاچکے ہیں جبکہ پانچ ہزار رخمی ہوئے ہیں۔

حزب اللہ بشار الاسد حکومت کی ایسی اتحادی ہے، جو دیر الزور تک دشمنوں سے لڑ رہی ہے۔ ستمبر 2015ء سے روس بھی مسئلہ شام کے حل کا حصہ بنا ہے، تب سے حزب اللہ اور روس کے مابین بھی قریبی تعلق قائم ہوچکا ہے۔ حزب اللہ کی شام میں کامیابی کو روس نے بھی نوٹ کیا ہے اور وہ حزب اللہ کو باصلاحیت اتحادی سمجھتا ہے۔ حتٰی کہ یو ٹیوب پر ایک وڈیو میں ایک روسی فوجی کو حزب اللہ کا نشان لگائے ہوئے حلب میں دکھایا گیا ہے۔ حزب اللہ کمانڈر نے اعتراف کیا کہ حلب میں انکا روسی افواج کے ساتھ قریبی تعاون ہے، جو بہترین سے زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے طنز کیا کہ عرب نیابتی مسلح گروہ امریکہ کے طرز عمل پر نگاہ لگائے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ روسی حزب اللہ کے لڑنے اور دفاع کرنے کے انداز کو دیکھتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ روس نے حزب اللہ کو حلب میں لڑتے دیکھا ہے، جسے دہشت گرد معرکہ ابو عمر سراقب کہتے ہیں۔ اس معرکے میں شام کے حامیوں کی کل شہادتیں 143 تھیں، جن میں حزب اللہ کے 35 شہید بھی شامل تھے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ روس شام میں حزب اللہ کے مستقل کردار کی حمایت کرتا ہے۔ روس صرف شام کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی اور استحکام تک ہی حزب اللہ کا قدردان ہے۔

حزب اللہ کی کامیابیوں میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے، ایک یہ کہ میدان جنگ میں دہشت گردوں سے مقابلہ کرنا، جس کا نتیجہ یہ کہ حلب سے اللاذقیہ تک کے علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کروانے میں حزب اللہ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ دوسرا روس سے اپنی مقاومت کی عظمت کو منوانا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حزب اللہ نے حقیقی معنوں میں اپنے لئے تزویراتی گہرائی بھی حاصل کر لی ہے۔ لبنان سے شام تک کے علاقوں کو دہشت گردوں اور صہیونی آلہ کار تکفیریوں سے آزاد کروانا، اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو لبنان کے شمال مشرقی سرحدی شہر عرسال کے مضافات کو جبھۃ النصرہ کے دہشت گردوں سے آزاد کروایا ہے۔ ابھی جبھۃ النصرہ کے بقیہ دہشت گردوں سے یہ معاہدہ کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے پانچ شہداء کے جسد خاکی حزب اللہ کے حوالے کریں اور اس کے بدلے میں تکفیری گروہ جبھۃ النصرہ کے نو دہشت گردوں کی لاشیں انکے حوالے کی جائیں گی۔ اگلے مرحلے میں معاہدہ کرنے والوں کو شامی پناہ گزینوں کے ساتھ ادلب منتقل کیا جائے گا۔ لبنان میں ان دنوں ایک تصویر بہت مشہور و مقبول ہوئی ہے، جس میں ایک حزب اللہی جوان ایک پلے کارڈ لے کر کھڑا ہے اور اس پر لکھا ہے کہ جبھۃ النصرہ سے عرسال اور قلمون میں تو محض پریکٹس کی ہے، اصل میں تو جعلی ریاست اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے الجلیل میں جنگ ہوگی، عرسال اور قلمون تو محض پریکٹس ہے۔ اس پوسٹر میں مخاطب صہیونی میجر ادرعی کو کیا گیا ہے، جو صہیونی فوج کے ترجمان یونٹ میں عربی میڈیا ڈیسک کا انچارج ہے۔ یہ حزب اللہ کے جوانوں کے حوصلے کی ایک ادنٰی سی جھلک ہے۔

دوسری جانب حزب اللہ کے معروف رہنما شیخ نبیل قاووق نے واضح کیا ہے کہ عرسال کی فتح کو حزب اللہ لبنان کی داخلی سیاست میں اپنے دیگر مفاد کے حصول کے لئے توازن بدلنے میں استعمال نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کی یہ فتح سبھی کی فتح ہے اور حزب اللہ اس سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھائے گی۔ انکا کہنا ہے کہ عرسال کی فتح نے لبنان کو یہ غیر معمولی موقع فراہم کر دیا ہے کہ راس بعلبک اور القاع کے علاقوں کو داعش سے آزاد کروانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور عرسال کی فتح سے لبنان کی افواج کو سارے مقبوضہ علاقے آزاد کرنے میں مدد ملی ہے۔ جعلی ریاست اسرائیل کی بھی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح حزب اللہ کو ناکام کیا جائے۔ شام کا محاذ بھی لبنان اور فلسطین کی مقاومتی تحریکوں کو مٹانے کے لئے کھولا گیا تھا۔ لیکن اب حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ الجلیل پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور موڈ یہ ہے کہ اس مرتبہ دفاعی جنگ کو مقبوضہ فلسطین (یعنی جعلی ریاست اسرائیل) کے اندر تک لے جایا جائے اور وہاں غاصب حملہ آور کو شکست سے دوچار کیا جائے۔ جعلی ریاست، فلسطین یا لبنان کی مقاومتی تحریکوں کے خلاف جنگ لڑنا تو چاہتی ہے، لیکن امریکہ اور عرب ممالک کا مشورہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرے، کیونکہ اس طرح دنیا کے تمام مسلمان حزب اللہ، شام اور ایران کے بلاک کو حق بجانب سمجھیں گے اور انکی حقانیت کا ثبوت اسرائیلی جنگ ہوگا۔ اس لئے جعلی ریاست چھپ کر یا نیابتی گروہوں کے ذریعے وار کر رہی ہے۔ البتہ حزب اللہ کا شام کے اندر تک پہنچ جانا اور علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کروانے کا مطلب یہ ہے کہ حزب اللہ نے تزویراتی گہرائی یعنیstrategic depth حاصل کرلی ہے اور اسی کے خلاف امریکہ، اسرائیل اور اس کے عرب ترک اتحادیوں نے شام کے خلاف پراکسی وار شروع کی تھی، لیکن نتیجہ برعکس نکلا ہے۔

ریفرنس:
مندرجہ ذیل ذرائع سے بھی استفادہ کیا گیا ہے
http://al-akhbar.com/node/268547
؂In Syria146s Aleppo, Shiite militias point to Iran146s unparalleled influence November 20, 2016 Wshington Post
Hezbollah, Nusra Front Implement First Stage of Arsal Outskirts AgreementJuly 30, 2017 Al Manar TV
Hezbollah Fighter Defies Israeli Officer July 30, 2017 Al Manar TV
Qaouq: Arsal Win Won146t be Used to Change Internal Equation
خبر کا کوڈ : 657426
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Roozi
ماشاءااللہ
جزب اللہ مسلسل آگے کیطرف بڑھ رہا ہے۔
Pakistan
جی بالکل. ایک رول ماڈل مقاومت
ہماری پیشکش