0
Monday 7 Aug 2017 18:05

سنگھ پریوار کو روکنا بھارت کی ضرورت

سنگھ پریوار کو روکنا بھارت کی ضرورت
رپورٹ: جے اے رضوی

1925ء سے قائم شدہ سنگھ پریوار اپنی لگاتار کوشش کے بعد آج بھارت میں پاور اور نشے میں ہے۔ اس میں اس کی تین یا چار پیڑھیوں نے لگاتار قربانیاں دیں ہیں۔ ان کے پاور میں آنے کے بعد تو ایسا لگ رہا ہے، جیسے پورے بھارت میں کٹر پنتھی ہندو طاقتیں چھا گئی ہیں۔ جہاں جس کو موقع مل رہا ہے ایسے بیانات اور حرکتیں کرنے پر آمادہ ہے جس سے مسلمان پست ہوتا چلا جائے۔ مسلمانوں کو زیر کرنے اور اس سماج کے خلاف ہندوؤں کو یکمشت کرنے کی ان کی حکمت شروعاتی دور سے ہی جاری رہی ہے، جس کے لئے انہوں نے ایودھیا، پرسنل لاء اور بھارت و پاکستان جیسے تنازعوں کو ہمیشہ ہندوتوا کی تحریک کے مرکز میں رکھنے کا کام کیا جبکہ بغل سے گاؤ ماتا، بھارت ماتا، گنگا ماتا اور وندے ماترم جیسے نعروں کا استعمال اپنے من مطابق ماحول کو سازگار بنانے میں کیا۔ یہ تو ان کی اپنی حکمت اور اپنی پلاننگ رہی تاکہ وہ ہندی، ہندو اور ہندوستان کے فائنل ٹارگٹ پر پہنچ سکیں۔ یہاں پر اس بات پر زیادہ غور کرنے اور کرانے کی ضرورت ہے کہ سیکولر کہلانے والی جماعتوں، جس کی سرداری کانگریس نے اب تک کی ہے، اس نے اس عرصے میں کس طرح کا رول ادا کیا ہے کہ خود کمزور ہوتے چلے گئے اور سنگھ پریوار کا قد اونچا ہوتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا احتساب بھی ضروری ہے کہ مسلم نمائندوں نے اس بیچ کس طرح کی حکمت عملی اپنائی کہ خود تو اونچا عہدہ پایا لیکن مسلم سماج تو دلتوں سے بھی پیچھے رہ گیا۔

بات دراصل یہ ہے کہ آزادی کی لڑائی میں جن ایشوز کو لے کر کانگریس کھڑی ہوئی امید تھی کہ مہنگائی، بے روزگاری، شراب خوری، بدعنوانی جیسی بنیادی مسائل کے خلاف یہ آزاد بھارت میں بھی لڑے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے سیکولرزم کی لاٹھی تھام کر اس نے صرف وہی مندر، مسجد، پرسنل لاء اور سرحدی تنازع کی لڑائی لڑی جو دراصل سنگھ پریوار کا مسئلہ رہا ہے۔ پچاس سالوں تک کے اپنے راج میں اگر یہ گاندھی جی یا لوہیا جی کے سوشلزم پر چلی ہوتی تو سنگھ پریوار اب تک صفحہ ہستی سے یقیناً مٹ گیا ہوتا۔ غور کیجئے تو ایودھیا کی بابری مسجد میں تالا کس نے لگوایا اور کھلوایا اور کس پارٹی کے راج میں اسے شہید کی گئی۔ پرسنل لاء ہو یا اقلیتی ادارے ہوں اس پر تنازعہ کس پارٹی کے راج میں پنپا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان غیر ترجیحی ایشوز پر ہی بھارتیہ سماج میں مذہب کی بنیاد پر ہوئے لگاتار عروج نے سنگھ پریوار کو نہ صرف گرم کرنے کا کام کیا بلکہ اسی آڑ میں ہندو ووٹ کو مسلمانوں کے خلاف اپنی طرف متحد کرنے میں اسے مدد بھی ملتی چلی گئی۔

ہم اگر آزادی کے بعد سے لگاتار چلی آرہی اس کھیل پر غور کریں گے تو ایسا لگے گا جیسے کہ سنگھ پریوار اور کانگریس پریوار دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں اور شدت پسندانہ سیاست میں ہی دونوں یقین رکھتے۔ اس میں ایک پریوار، مسلمانوں پر سیدھے وار کرتا ہے اور دوسرا اس قوم کی تحفظ کی گارنٹی کا ڈھونگ رچاتے ہوئے سنگھیوں کو ان پر حملہ کرنے کا نہ صرف لقمہ دیتا ہے بلکہ انہیں اندرونی طور سے اُکسانے کا بھی کام کرتا رہا ہے۔ حالات حاضرہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دونوں ہی ہندتوا، ہندو مملکت اور اکھنڈ بھارت کا ٹارگیٹ پورا کرنے میں شروع سے لگے ہوئے رہے ہیں۔ اپنے ٹارگیٹ میں کامیابی پانے کے لئے ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف اس طرح سے بانہہ چڑھانے کا کام کیا تاکہ مسلمان ہندو گرم ہوکر ایک دوسرے کے سامنے مقابلے میں آکر کھڑے ہوجائیں۔ ان کی اس چال کو شروع میں شوسلشٹوں نے سمجھا اور ان دونوں کی ملی جُلی چال کے خلاف ملک کے بنیادی مسائل کو سامنے رکھ کر تحریک چلائی۔ یہ حماعت سیکولرزم و نیشنلزم کے بجائے شوسلزم پر زیادہ توجہ دیتی تھی۔ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن ان ہی کے درمیان پیدا ہوئے مفاد پرست لیڈروں کی بد نیتی کی وجہ سے آخرکار سیکولرزم کے نام پر کانگریس کی طرح یہ بھی سنگھ پریوار کے سامنے لاٹھی لے کر کھڑے ہوگئے۔ آج سنگھ پریوار نیشنلزم (راشٹریتہ) کو اور کانگریس پریوار (بشمول سوشلسٹ) سیکولرزم کو لے کر کھڑا ہے۔ آپسی لاٹھی لٹھول میں ایک پریوار مسلمان کی طرف دیکھتا ہے تو دوسرا ہندوؤں کی طرف۔ مذہب کے نام پر جذباتی دونوں سماج اپنی ہمدرد جماعتوں کو پلکوں پر بیٹھانے کو تیار بھی رہتا ہے، لیکن اس لاٹھی لٹھول میں بھارتیوں کے بنیادی مسائل ان دیکھی کے شکار ہوتے چلے گئے اور آج ملک کے سامنے پہاڑ کی شکل میں کھڑا ہے، جو ایک بڑا چیلنج ہے۔

اب ملک و ملت کے لئے عام بھارتیوں کے ذہن کو راہ راست پر لانا مسلمانوں کے لئے زیادہ ضروری ہے کیونکہ ایسی سیاست کا سب سے برا اثر مسلمانوں پر پڑا ہے اور جہاں ایک طرف تعلیمی، اقتصادی، سماجی و سیاسی طور پر مسلمان حاشیے پر چلے گئے ہیں، ایسی صورتحال میں بھی کانگریس پریوار (بشمول سوشلشٹوں) سیکولرزم کے نام پر ابھی بھی سنگھ پریوار کو گرم کرنے میں ہی لگا ہوا ہے جو ٹھیک نہیں کیونکہ اسی طر ح کی گرما گرمی نے سنگھ پریوار کو حاشیے سے لال قلعہ پر اور مسلمانوں کو لال قلعہ سے حاشیے پر لا دیا ہے۔ اس موڑ پر آنے کے بعد اور مستقبل کے خطرات کو بھانپتے ہوئے بھی اگر بھارتی مسلمانوں نے اپنے کان نہیں کھڑے کئے تو پھر تباہی سے بھارت کو روکنا ناممکن سا ہوجائے گا۔ آج ضرورت ہے کہ بھارت کے دانشور حضرات اٹھ کھڑے ہوں اور سب سے پہلے اس کا راستہ نکالیں کہ سنگھ پریوار کو مزید متحرک ہونے سے کیسے روکا جائے۔
خبر کا کوڈ : 658978
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش