QR CodeQR Code

کراچی میں پولیس پر دہشتگرد حملے جاری، رواں سال ابتک 16 پولیس افسران و اہلکار شکار ہو چکے

12 Aug 2017 19:42

ہر واقعہ کے بعد سندھ حکومت کیجانب سے پولیس حکام سے رپورٹ طلب کرنے، پولیس حکام کیجانب سے کالعدم دہشتگرد تنظیموں کو ملوث قرار دینے پر اکتفا کرنے کے بجائے کراچی سمیت سندھ بھر میں تکفیری دہشتگرد عناصر اور کالعدم دہشتگرد تنظیموں کیخلاف بھرپور آپریشن کیا جائے، جو آخری دہشتگرد اور انکے ٹھکانے کے خاتمے تک جاری رہے۔


رپورٹ: ایس جعفری

شہر قائد کے مختلف علاقوں میں رواں سال کے دوران اب تک پولیس پر کئے جانیوالے حملوں میں 16 پولیس افسران و اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی آپریشن کی کامیابی کے دعوؤں کے باوجود شہر میں دہشتگردوں کی جانب سے پولیس پر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، رواں سال کے دوران 4 جنوری کو راشد منہاس روڈ پر گلستان جوہر کے علاقے میں فائرنگ کرکے سب انسپکٹر اقبال محمود کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، اقبال محمود فیروز آباد تھانے کے شعبہ انویسٹی گیشن میں تعینات تھے اور ٹارگٹ کلنگ کے چند کیسز کی تحقیقات کر رہے تھے۔ 10 جنوری کو سولجر بازار تھانے کی حدود نشتر روڈ پر موٹر سائیکل سوار نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکار خالد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 21 فروری کو گلشن اقبال میں پولیس فاؤنڈیشن کے اہلکار علی نواز کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 11 اپریل کو منگھوپیر کے علاقے سلطان آباد میں انٹیلیجنس افسر ہیڈکانسٹیبل فرید کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 20 مئی کو نیو ٹاؤن تھانے کی پولیس موبائل نمبر SPD-349 پر بہادرآباد کے علاقے دھوراجی میں موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں اے ایس آئی افتخار اور ہیڈ کانسٹیبل راجہ یونس جاں بحق، جبکہ کانسٹیبل شہنشاہ شدید زخمی ہوگیا۔

23 جون کو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے سائٹ اے کے تھانے کے پولیس اہلکاروں کو اس وقت اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنایا، جب وہ ایک ہوٹل کے باہر تخت پر بیٹھ کر افطاری کر رہے تھے اور اس واقعے میں 4 پولیس اہلکار جس میں اے ایس آئی یوسف اور 3 کانسٹیبلز راجہ شبیر، خالد اور اسرار زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ دہشتگردوں نے سیمنس چورنگی کے قریب ہوٹل میں بیٹھے سپاہیوں کے سروں پر گولیاں ماریں، دہشتگرد فرار ہونے کے بعد بلاخوف و خطر دوبارہ جائے وقوعہ پر آئے اور کالعدم تنظیم کا پمفلٹ پھینک کر چلے گئے، جس میںواقعہ کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ دہشتگردوں نے فرار ہوتے ہوئے پولیس موبائل کے اندر کالعدم تنظیم کے خط بھی پھینک گئے۔ انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کے مطابق سائٹ ایریا میں پولیس اہلکاروں پر فائرنگ میں نئی دہشتگرد تنظیم انصار الشریعہ ملوث ہے، سائٹ ایریا میں پولیس اہلکاروں پر حملہ اس کی تیسری یا چوتھی کارروائی تھی، اس سے قبل سابق کرنل طاہر کے قتل میں بھی اس تنظیم کے ملوث ہونے کا امکان ہے، اس نئی تنظیم میں کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم القاعدہ اور دیگر کالعدم تنظیموں کے دہشتگرد بھی شامل ہیں، یہ نئی تنظیم مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

21 جولائی کو تین موٹر سائیکلوں پر سوار چھ دہشتگردوں نے کورنگی دارلعلوم سے متصل اولڈ برمی کالونی کے قریب اسنیپ چیکنگ پر مامور عوامی کالونی تھانے کی پولیس موبائل نمبر SP-534-A پر اندھا دھند فائرنگ کرکے 45 سالہ اے ایس آئی قمر الدین ولد غلام قادر، ہیڈ کانسٹیبل 36 سالہ امجد اور 35 سالہ پولیس اہلکار بابر کو شہید کر دیا اور اس دوران فائرنگ کی زد میں آکر راہ گیر لڑکا بھی زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔ دہشتگردوں نے پولیس اہلکاروں کو سروں میں گولیاں مار کا شہید کیا۔ اس واقعہ کے حوالے سے راجہ عمر خطاب کے مطابق اس کارروائی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، جبکہ دہشتگردی میں استعمال ہونے والا اسلحہ پہلے کسی واردات میں استعمال نہیں ہوا تھا، دہشتگردوں نے حملے میں نیا اسلحہ استعمال کیا تھا۔ 24 جولائی کی شب سچل تھانے کی حدود ابوالحسن اصفہانی روڈ ڈسکو بیکری کے قریب سگنل پر تعینات دو ٹریفک پولیس اہلکار ڈیوٹی انجام دے رہے تھے کہ موٹر سائیکل سوار دو دہشتگردوں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ہیڈ کانسٹیبل 45 سالہ محمد خان ولد نیک محمد خان جاں بحق، جبکہ 35 سالہ اہلکار کامران زخمی ہو گیا، دہشتگرد فرار ہوتے ہوئے اہلکار کی ایم پی فائیو رائفل بھی ساتھ لے گئے۔

دونوں اہلکار گلزار ہجری ٹریفک سیکشن میں تعینات تھے، واقعہ کے حوالے سے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ پولیس کو نشانہ بنانے والا 12 سے 14 لڑکوں کا گروپ ہے، جو ریکی کرکے ٹارگٹ کلنگ کر رہا ہے اور واردات کے بعد یہ روپوش ہو جاتے ہیں۔ 11 اگست جمعہ کی صبح کو عزیزآباد کے قریب مکا چوک پر دو موٹر سائیکلوں پر سوار تین دہشتگردوں نے ڈی ایس پی ٹریفک کریم آباد حنیف خان کی گاڑی نمبر SP-189-A پرفائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی ٹریفک موقع پرہی جاں بحق، جبکہ ڈرائیور کانسٹیبل سلطان زخمی ہوگیا۔ واقعے کے فوری بعد امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پہنچیں اور زخمی ڈرائیور سلطان کو اسپتال منتقل کیا، جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈرائیور بھی جان کی بازی ہار گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی جانب سے پولیس وین پر دو طرف سے فائرنگ کی گئی، جائے وقوعہ سے ملنے والے خول فارنزک لیب بھیج دیئے گئے ہیں، جبکہ کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق دہشتگردوں کی جانب سے نائن ایم ایم پستول سے پندرہ سے بیس فائر کئے گئے۔

ڈی ایس پی حنیف خان کوایک گولی سر اور چار سینے پر لگیں، جبکہ ڈرائیور کانسٹیبل سلطان کے سر میں دو اور سینے پر پانچ گولیاں لگیں۔ دہشتگردوں نے ریلی کرکے ڈی ایس پی ٹریفک پولیس کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ گھر سے دفتر جا رہے تھے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے کراچی میں ٹریفک پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ پر نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے واقعے کی فوری رپورٹ طلب کرتے ہوئے سیکیورٹی ہائی الرٹ رکھنے اور دہشتگردوں کی فوری گرفتاری کا حکم بھی دے دیا۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کاکہنا ہے کہ سائٹ، نیو ٹاؤن اور عزیزآباد پولیس حملے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ہر واقعہ کے بعد سندھ حکومت کیجانب سے پولیس حکام سے رپورٹ طلب کرنے، پولیس حکام کیجانب سے کالعدم دہشتگرد تنظیموں کو ملوث قرار دینے پر اکتفا کرنے کے بجائے کراچی سمیت سندھ بھر میں تکفیری دہشتگرد عناصر اور کالعدم دہشتگرد تنظیموں کیخلاف بھرپور آپریشن کیا جائے، جو آخری دہشتگرد اور انکے ٹھکانے کے خاتمے تک جاری رہے۔


خبر کا کوڈ: 660592

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/660592/کراچی-میں-پولیس-پر-دہشتگرد-حملے-جاری-رواں-سال-ابتک-16-افسران-اہلکار-شکار-ہو-چکے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org