0
Saturday 12 Aug 2017 00:50

سفر عشق

سفر عشق
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں، جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ ہر انسان فطرتاً نیک اور خدا جو ہوتا ہے، زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں، لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آجاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔ انسان کی شروع سے ہی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اور اعمال و عبادات کے ذریعے اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔ اللہ تعالٰی نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعے بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔ کچھ عبادات یومیہ ہیں اور کچھ عبادات ایسی ہیں، جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہیں۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے۔ حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں  جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اور اسے خالی نہ چھوڑو، کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔ حج اصل میں تمام پابندیوں، مصروفیات اور وابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اور بازگشت کا نام ہے۔ لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات، جھوٹی سچی ضرورتیں، طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورت حال اس کے بنیادی مقصد اور الٰہی وظائف سے روکتی ہیں اور اسے اس کے اصل اور اس کے سچے وطن سے دور کر دیتی ہیں۔

حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اور ان لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے، جو ایک دین کو مانتے ہیں اور خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں۔ میقات میں حاضر ہونا، لبیک کا ورد کرنا، طواف، نماز، سعی، تقصیر اور ساتھ ہی عرفات، مشعر اور منٰی میں قیام اور قربانی پیش کرنا، یہ سب ایسی منزلیں ہیں، جن میں ہزارہا رموز پوشیدہ ہیں۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اور عالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور ان کی جگہ عمومی اور وسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اور اپنی تاریخ، حیثیت و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔ لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔ انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی، خود نمائی، دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اور اطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستایش اور نعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اور اس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹھرنا اور چل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آرزو کے گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اور دوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔ رمی، جمرات یعنی منٰی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اور شیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار، قربانی، محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام جیسی عظیم ہستیوں کے خلوص و عزیمیت کی بے مثال داستان ہے۔

حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جو کوئی خالصتاً اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور دوران حج فسق و فجور سے باز رہتا ہے، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے، گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعے قرب الٰہی میسر آتا ہے۔ حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔ نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اور دنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر ان سلے کپڑوں کو اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ میدان عرفات کے قیام میں اسے وہ بشارت یاد آتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کیں ہیں۔ مقام منٰی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارتا ہے کہ اب اگر یہ میرے اور میرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔ جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں، دل مضطرب تھا، وہ آخر نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اور روح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔

حج خداوند عالم کا حکم، حضرت آدم کی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔ حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔ حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ، شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے، حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اور عظیم امت اسلامی کے درمیاں ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی، آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔ حج قیام قیامت کا نمونہ، انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ مرکز، دعا، عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ ایام حج کوتاہ بینی اور خود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔ اعمال حج کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میں سے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اور عمیق آگہی اور شناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اور جوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا و ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سرزمینوں سے نکل جانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کا جو مناظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں، وہی دیگر مقامات پر بھی ہو۔ اسلام اور مسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اور حج اس کا بہتری نمونہ عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے۔ اسلامی اور توحیدی حج، {أَشِدّاءُ عَلَى الْكُفّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ} کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔

متعصب آل سعود کی نالائقی سے پیش آنے والے منٰی کے ہولناک سانحے کو تقریباً دو سال کا عرصہ ہو رہا ہے، جس میں کئی ہزار افراد عید قربان کے دن، احرام کے لباس میں، شدید دھوپ میں، تشنہ لب اور مظلومیت کے عالم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ مسجد الحرام میں بھی کچھ لوگ عبادت، طواف اور نماز کے عالم میں خاک و خوں میں غلطاں ہوگئے۔ متعصب سعودی حکام دونوں سانحوں میں قصوروار ہیں۔ زخمی حجاج کو، جن کے مشتاق قلوب اور فریفتہ وجود عید قربان کے دن ذکر اللہ اور آیات الہیہ کے ترنم میں ڈوبے ہوئے تھے، بچانے میں کوتاہی کی گئی۔ قسی القلب اور مجرم سعودی افراد نے زخمی حجاج کو شہید حجاج کے ساتھ بند کنٹینروں میں محبوس کیا، یہاں تک کہ ان کے سوکھے ہونٹوں تک پانی کے چند قطرے پہنچانے کے بجائے انہیں موت کے منہ میں پہنچا دیا۔ آل سعود کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے مختلف اسلامی ممالک کے بہترین افراد، نخبگان، ڈاکٹرز، وکلاء، دانشمند، قاری قرآن، علماء اور پروفیسرز نے سرزمین منٰی میں تڑپتے ہوئے جان دے دی۔ فتنہ انگیز آل سعود نے اسلام سے خیانت کرتے ہوئے شیطان صفت تکفیری داعشی گروہ تشکیل دے کر اور اسے وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ یمن، عراق، شام، لیبیا اور دیگر ممالک کے مظلوم مسلمانوں کو خون سے نہلا دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین تک پھیلا دیا ہے۔ یمن کے مظلوم مسلمانوں کو حج جیسی عظیم اجتماعی عبادت سے محروم کر دیا ہے۔ حجاج کرام پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لئے دعا کریں، کیونکہ مسلمان ایک خدا، ایک رسول اور ایک قرآن کے ماننے والے ہیں اور ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے بھی دعا کریں۔
خبر کا کوڈ : 660991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش