0
Tuesday 15 Aug 2017 15:53

مہنگائی کے اس دور میں غریب عوام بیچاری کیا کھائے؟

مہنگائی کے اس دور میں غریب عوام بیچاری کیا کھائے؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

جب سے پاکستان بنا ہے، اسکے غریب عوام مسلسل بحرانوں، آزمائشوں اور حکمرانوں کی زد میں رہے ہیں، ہر لمحہ کوئی نہ کوئی بحران انکا مقدر بنا رہا ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں، وعدے بھی ہوتے رہے، لیکن آج تک خوشحالی، روزگار، صحت و تعلیم، معاشیات، انصاف جیسے بنیادی مسائل حل نہیں ہوسکے اور لگتا ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا، کیونکہ موجودہ صورتحال میں بھی فی الحال ملک کی بڑی تمام سیاسی پارٹیوں کی سوئی اپنے اپنے مفادات اور انتخابی کامیابیوں پر اٹکی ہوئی ہے، وہ غریب عوام کی کسی بھی قسم کی بھلائی کے کسی بھی ایک موقف پر یکجا و یکسو نہیں ہو پا رہیں، جسکے نتیجے میں مسلسل جان لیوا مہنگائی، پانی و بجلی کے بحران اور انصاف تک نارسائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور یہ سب کچھ اتنا ہے کہ بیس کروڑ عوام اب ایک لمحہ کیلئے بھی مزید اسے برداشت نہیں کرسکتے، وہ ہمیشہ سے آمریت نما جمہوریت اور غربت و مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پستے رہے بلکہ ابھی تک پس رہے ہیں، ان کا پلھیتن نکالا جا رہا ہے۔ آخر عوام دو سو روپے کلو سبزی، ڈیڑھ سو روپے کلو ٹماٹر، آٹھ سو روپے کلو بکرے کا گوشت، چار سو روپے کلو مرغی کا گوشت اور ایک سو روپے لٹر دودھ نما پانی کیسے خرید سکتے ہیں؟ وہ غربت سے فاقوں اور فاقوں سے موت تک آگئے ہیں، بلکہ اسی غربت اور فاقہ کشی کی وجہ سے تمام تر معاشرتی خرابیاں نقطہ عروج کو چھو رہی ہیں۔ پورے پاکستان کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا بھی اس تمام صورحال سے مستثنٰی نہیں، پشاور میں نانبائیوں کے مطالبے کی وجہ سے روٹی مہنگی ہوگئی، تکنیکی بنیادوں پر اس مہنگا ہونے کو اس طرح کور کیا گیا کہ روٹی کا نرخ تو 10 روپے ہی رہا، لیکن وزن کم ہوگیا، روٹی کے بعد مارکیٹ میں چینی کے نرخ بڑھے اور اب غریب عوام کیلئے آٹا بھی مہنگا ہوگیا۔

رپورٹ کے مطابق ہول سیل مارکیٹ میں آٹے کی 85 کلوگرام بوری کی قیمت 3500 سے بڑھ کر 3750 ہوگئی ہے، جبکہ 20 کلو کا تھیلہ 100 روپے مہنگا کر دیا گیا ہے، ہول سیل مارکیٹ میں بڑھنے والا یہ نرخ  پرچون میں جا کر اور زیادہ ہو جاتا ہے، مہنگائی کا یہ تازہ ریلہ غریب اور متوسط طبقے کی زندگی مزید اجیرن کر دے گا، یہ طبقہ اس سے قبل گوشت، پھل، انڈے اور مرغیوں کی خریداری خود بخود تقریباً ترک کرچکا ہے، دوسری جانب سیاسی گرما گرمی میں عوام کو درپیش مہنگائی کے اس اہم ترین مسئلے پر توجہ مبذول ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی، پشاور میں ضلعی حکومت نے گذشتہ دنوں انفورسمنٹ افسروں کو اختیارات اور وسائل دینے کا فیصلہ کیا تو ضرور ہے، تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آرہا، ایک جانب وطن عزیز کی اقتصادی صورتحال بہتر ہونے کی خوشخبریاں اور عالمی اداروں کا ان پر بڑھتا ہوا اعتماد بتایا جا رہا ہے تو دوسری جانب بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کا چیلنج بھی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ تو یوٹیلٹی بلوں میں اضافے اور مختلف ٹیکسوں کی صورت میں غریب اور متوسط طبقے کے بجٹ کو تہس نہس کر دیتا ہے، جبکہ اقتصادی اعشاریوں میں بہتری پر اسی شہری کو کوئی ریلیف نہیں ملتا، عوام کو انتہائی گرانی میں خریداری پر ملاوٹ شدہ اشیاء ملتی ہیں، جو اس کی زندگی اور صحت دونوں کیلئے خطرہ ہیں، اس سب کے باوجود مسئلے کے پائیدار حل یعنی مجسٹریسی نظام کی بحالی کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے، سیاسی گرما گرمی کے اس ماحول میں ضرورت عوامی مسائل پر توجہ مبذول کرنے کی بھی ہے، ضرورت اہم قومی معاملات کو سلجھانے اور ترقیاتی منصوبوں خصوصاً بجلی کے پیداواری پراجیکٹس کی بروقت تکمیل کی بھی ہے، بصورت دیگر لوگوں میں حکومتی کارکردگی کے حوالے سے مایوسی پیدا ہوگی۔

ہر حکمران نے غربت کے ازالے کو ایک خیراتی کام کی حیثیت دی ہے، جس میں جتنا چندہ آسانی سے ہوسکے، دے دیا جاتا ہے۔ عوام کو خیرات کی نہیں، صحیح پروگرام کی ضرورت ہے۔ ہماری آمدن کا خطیر حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یہاں اس وقت 5 کروڑ 87 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق جس شخص کی یومیہ آمدن 2 ڈالر (تقریباً 2 سو روپے یعنی 6 ہزار روپے ماہانہ) سے زیادہ نہ ہو، وہ غریب شمار کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کے تمام تر خوش کرنے والے وعدوں اور دعووں کے باوجود پاکستان کی ایک تہائی آبادی اس معیار سے نیچے حد درجے افلاس اور بیکسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ غربت صرف دیہاتوں تک محدود نہیں، بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اکثریت انہی غریبوں کی ہے، جو دو تین عشرے پہلے متوسط درجے کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ غربت کی سطح پر آگئے۔ غربت کے ساتھ مہنگائی کا جن ہمارے سروں پر کچھ اس طرح مسلط ہے کہ جان چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ایک غیر ملکی سروے رپورٹ کے مطابق اکثر پاکستانیوں کی آمدن کا تقریباً 50 فیصد حصہ فقط خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے، جبکہ دیکھا جائے تو یہ رپورٹ بھی حقیقت کی پوری عکاسی نہیں کرتی، اس وقت ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچہ 15 سے 20 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ 4 آدمیوں پر مشتمل گھرانے کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی اور بالکل سادہ کھانے کا حساب لگائیں تو بڑے آرام سے چار پانچ سو روپے بنے گا۔ جن لوگوں کی آمدن 30 سے 40 ہزار ماہانہ ہے، ان کے بارے میں تو یہ کہنا درست ہے کہ ان کی آمدن کا نصف خوراک پر خرچ ہوتا ہے، مگر جن کی آمدن ہے ہی 6 سے 12 ہزار روپے تک ہے، وہ لوگ کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 661470
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش