0
Thursday 17 Aug 2017 20:19

شام سے متعلق سعودی موقف میں تبدیلی کے پس پردہ عوامل

شام سے متعلق سعودی موقف میں تبدیلی کے پس پردہ عوامل
تحریر: یوسف شفیعی

شام میں حکومت مخالف دھڑوں سے وابستہ الجسر نیوز چینل نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ریاض میں مقیم شام کے حکومت مخالف گروہوں کی اعلی سطحی مذاکراتی ٹیم کو ایک خط لکھا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ شام کے زمینی حقائق کی روشنی میں فی الحال صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانا ممکن نہیں لہذا ہمیں ان کی مدت صدارت پر بات کرنا ہو گی۔ اسی طرح نیوز ویب سائٹ العہد نے بھی شام کے حکومت مخالف گروہوں کے بقول لکھا ہے اگلے ماہ ریاض میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شام کے حکومت مخالف گروہوں کے سربراہان اس خط پر غور کریں گے۔ سعودی عرب کی کوشش ہے کہ اس اجلاس میں قاہرہ اور ماسکو میں مقیم شام کے حکومت مخالف لیڈران کو بھی شرکت کی دعوت دے۔ شام کے حکومت مخالف ذرائع کے بقول شام کی حکومت مخالف اعلی سطحی مذاکراتی ٹیم کے اراکین نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر سے حالیہ ملاقات میں درج ذیل نکات پر اتفاق رائے کیا ہے:

1)۔ عبوری سیٹ اپ کے دوران اگلے 18 ماہ تک صدر بشار اسد کے برسراقتدار رہنے اور آئندہ صدارتی انتخابات میں ان کی شرکت کرنے پر کوئی اعتراض نہیں،
2)۔ شام آرمی اور سیکورٹی اداروں کی بقاء اور انہیں ٹوٹنے سے بچانے کی ضمانت فراہم کرنا تاکہ حکومتی ادارے بھی ختم ہونے سے محفوظ رہ سکیں،
3)۔ شام کی آئندہ حکومت میں اقلیتوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے،
4)۔ ملک خاص طور پر ادلب میں مسلحانہ اقدامات اور بھاری اسلحہ کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے گا اور اس اقدام کے مخالف عناصر سے مقابلہ کیا جائے گا،
5)۔ مستقبل میں شام آرمی اور فری سیرین آرمی مل کر دہشت گرد عناصر کے خلاف جنگ میں حصہ لیں گے۔

سعودی عرب کی جانب سے شام کے بارے میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جانے کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے شام سے متعلق اپنے موقف میں تبدیلی لائی ہے۔ اسپوتنیک نیوز ایجنسی کے مطابق متحدہ عرب امارات نے امریکہ اور مغربی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ صدر بشار اسد اقتدار پر باقی رہیں اور ان سے تعاون کیا جائے۔ البتہ سعودی عرب نے ڈھکے چھپے الفاظ میں شام سے متعلق اپنے موقف میں تبدیلی کی تکذیب کی ہے لیکن واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس بارے میں سعودی پالیسیاں تبدیل ہوئی ہیں۔ گذشتہ 6 برس کے دوران سعودی حکومت نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ صدر بشار اسد اقتدار سے علیحدگی اختیار کریں۔ سعودی عرب نے اس مقصد کے حصول کیلئے عملی میدان میں بھی شام میں سرگرم داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مالی و فوجی امداد بھی کی ہے۔ ان 6 سالوں میں وہابیت کے تکفیریت پر مبنی اعتقادات اور سعودی عرب کے خام تیل سے حاصل ہونے والے ڈالرز نے تکفیری دہشت گروہ داعش کے پھلنے پھولنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

دوسری طرف داعش کے پھیلاو میں سعودی عرب کے کردار کا اعتراف بعض سعودی شہزادوں نے بھی کیا ہے۔ ولید بن طلال، سعودی عرب کا ارب پتی شہزادہ امریکی نیوز چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتا ہے کہ داعش کی بنیاد ریاض میں رکھی گئی ہے جبکہ سعودی حکومت اس گروہ کی حمایت اور تمام عرب ممالک میں اس کی سرگرمیوں اور اقدامات کیلئے مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح المیادین نیوز چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ قطر کی جانب سے فاش کی گئی بعض اہم دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن میں سرگرم القاعدہ اور داعش کے دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ لہذا سعودی عرب کو داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کا اصل سرچشمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں سعودی عرب کی جانب سے شام سے متعلق موقف میں تبدیلی کے گہرے اور دوررس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:

1)۔ زوال کا شکار معیشت
سعودی عرب مختلف وجوہات کی بنا پر اس وقت شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ یمن کی جنگ میں سعودی عرب کو سینکڑوں ارب ڈالر کے اخراجات برداشت کرنا پڑے ہیں۔ اسی طرح دہشت گرد عناصر کی حمایت اور دیگر ممالک میں مداخلانہ اقدامات بھی سعودی عرب کا خزانہ خالی ہونے کا باعث بنے ہیں۔ مزید برآں، امریکہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے معاہدوں نے بھی سعودی عرب کی بحران زدہ معیشت کو مزید بحرانی کر دیا ہے۔ حال ہی میں سعودی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 110 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ انجام دیا ہے۔ یہ تمام اقدامات سعودی عرب کی معیشت کے کمزور ہونے کا باعث بنے ہیں۔ امریکی روزنامے وال اسٹریٹ جرنل نے سعودی معیشت کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب کی معیشت کا مستقبل، جو شدت سے خام تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی پر منحصر ہے، خطرناک حد تک زوال کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ یہی امر باعث بنا ہے کہ نئے ولیعہد محمد بن سلمان کے دور میں سعودی حکومت خطے کی سطح پر ہونے والے اخراجات میں کمی کیلئے سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ریاض اقتصادی اعتبار سے دہشت گردوں کی مزید حمایت کرنے اور شام میں مداخلت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا جس کے نتیجے میں شام سے متعلق اپنے 6 سالہ موقف سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔

2)۔ شام میں داعش کے مکمل خاتمے کا قریب ہونا
شام کے علاقے حلب کی دہشت گرد عناصر سے آزادی نے اس ملک میں جاری جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ حلب کا علاقہ شام کے حکومت مخالف گروہوں کیلئے دارالحکومت کی حیثیت کا حامل تھا لہذا اس کی آزادی نے شام میں نئی گروہ بندیوں کی بنیاد ڈال دی۔ حلب کی آزادی کے بعد شام آرمی اور اس کی حامی قوتوں نے مزید کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں جس کی تازہ ترین مثال لبنان اور شام کے سرحدی علاقے عرسال میں حزب اللہ لبنان کی عظیم فتح ہے۔ اسی طرح شام کے شمالی اور شمال مشرقی حصوں میں بھی داعش اپنے اصلی مراکز سے محروم ہو چکی ہے اور اب شام داعش کے مکمل خاتمے کے بعد والے مراحل میں داخل ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ سعودی حکومت اس اہم حقیقت سے بخوبی واقف ہے لہذا اپنے گذشتہ 6 سالہ موقف سے پیچھے ہٹ کر خود کو داعش کے بعد والے سیاسی مرحلے کیلئے تیار کر رہی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جب دیگر بین الاقوامی کھلاڑی اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ شام کے مسئلے کا کوئی فوجی راہ حل نہیں اور صدر بشار اسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں تو سعودی حکومت اکیلے اس موج کا مقابلہ کرنے پر قادر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب ٹیکٹیکل پسماندگی کے ذریعے سیاسی مرحلے پر بھی اثرانداز ہونے کا خواہاں ہے۔

3)۔ صدر بشار اسد کے بارے میں امریکی پالیسیوں میں تبدیلی
اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے سے متعلق ریاض کی پالیسیاں مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے تابع ہیں۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران امریکی حکام سعودی شہزادوں کو اپنا فرمانبردار اور مطیع بنانے میں کامیاب رہے ہیں جس کی تازہ ترین واضح مثال محمد بن نایف کے خلاف محمد بن سلمان کی بغاوت ہے۔ لہذا امریکہ کی گرینڈ پالیسی میں تبدیلی کے نتیجے میں سعودی پالیسیوں کا تبدیل ہونا ایک واضح امر ہے۔ فارین پالیسی میگزین نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کے دوران اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ حکومت اس بات پر مصر نہیں کہ شام کے صدر اقتدار سے علیحدگی اختیار کریں۔ اسی طرح نیوز ویب سائٹ نیشنل انٹریسٹ نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ یہ اقدام ریاض اور سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی جانب سے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جانے کا باعث بنا ہے۔ یاد رہے سعودی حکام گذشتہ 6 برس سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ شام کے صدر بشار اسد اقتدار چھوڑ دیں۔

مختصر یہ کہ سعودی عرب، عرب دنیا کا ایک موثر ملک ہے اور بعض عرب ممالک اپنی پالیسیاں ریاض کی مرضی کے مطابق بناتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی حکومت کی جانب سے شام کے صدر بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی پر مبنی اپنی شرط سے پیچھے ہٹ جانے کا اثر بعض دیگر عرب ممالک پر بھی پڑے گا۔ لہذا سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات وہ پہلا عرب ملک تھا جس نے اس موقف سے پسماندگی اختیار کی۔ دوسری طرف دہشت گرد عناصر ان دنوں روز بروز شکست کا شکار ہو رہے ہیں لہذا وہ سعودی حمایت کھوتے جائیں گے جس کے نتیجے میں ان کی شکست کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔

نتیجہ گیری
سعودی عرب نے گذشتہ 6 سال کے دوران دوسرے ممالک میں مداخلت اور دہشت گرد عناصر کی حمایت کے ذریعے خطے میں اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب تک اس کے تمام اقدامات اور منصوبے شکست کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ اب شام کے بارے میں بھی سعودی حکومت اپنے دیرینہ مطالبے یعنی صدر بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی، سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاض ہر شعبے میں ناکامی کا شکار ہو رہا ہے اور اب اس کے پاس کھیل کو جاری رکھنے کیلئے صرف سیاست کا میدان باقی بچا ہے۔ لہذا سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ اپنے گذشتہ مطالبات اور موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے شام میں عنقریب شروع ہونے والے سیاسی مرحلے میں موثر واقع ہونے کی کوشش کرے۔ سعودی عرب کی یہ نئی حکمت عملی عراق میں بھی لاگو کی جا رہی ہے جس کی بنیاد پر سعودی عرب عراق کی معروف شیعہ سیاسی شخصیات سے تعلقات بڑھا کر اس ملک کی سیاسی شطرنج پر اثرانداز ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 662056
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش