0
Sunday 20 Aug 2017 15:50

جنرل (ر) راحیل کی سربراہی میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت سے متعلق متضاد خبریں

جنرل (ر) راحیل کی سربراہی میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت سے متعلق متضاد خبریں
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پانامہ کیس میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ نون کی جانب سے عدلیہ اور فوج کیخلاف پروپیگنڈہ مہم کی وجہ سے موجودہ حکومت کے خاتمے کا آغاز ہونیوالا ہے۔ اس دوران شریف برادران ملک سے باہر چلے جائیں گے اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت آئیگی۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جب جے آئی ٹی بنی تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہیں چاہتے تھے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران اس کا حصہ بنیں، ڈان لیکس میں آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے معاملے پر آرمی چیف نے ہی آگے بڑھ کر معاملہ سلجھایا اور اپنے اوپر ہونیوالی تنقید کو برداشت کیا، ماضی کے آرمی چیفس کے مقابلے میں نواز شریف کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے زیادہ کسی کے ساتھ اتنی بہترین کوآرڈینیشن نہیں پیدا ہوسکی۔ جیسا کہ سینیئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف صرف 7 ماہ اکٹھے کام کرسکے ہیں اور میں یہ دعویٰ کرتا ہوں، جس کی نواز شریف کبھی بھی تردید نہیں کرینگے بلکہ وہ میری بات کی تصدیق کرینگے کہ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور انہوں نے کئی آرمی چیفس کے ساتھ کام کیا اور جتنا اچھا ان کا کوآرڈینیشن جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ تھا، اس طرح کا کبھی ماضی میں ان کا کسی آرمی چیف کے ساتھ نہیں بن سکا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ ان سات ماہ کے دوران صرف ایک بار نواز شریف کو شکایت کا موقع ملا اور وہ معاملہ ڈان لیکس سکینڈل میں آئی ایس پی آر کی ٹویٹ تھی، جو کہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ تھا، جبکہ اس معاملہ کو ختم کرنے میں آرمی چیف نے اقدام اٹھایا اور اس ٹویٹ کو واپس لیا، جس کی وجہ سے ان پر شدید تنقید بھی کی گئی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ان سات ماہ کے دور کو اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک جمہوریت پسند شخص ہیں اور انہوں نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا ہوا ہے، سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جب پانامہ جے آئی ٹی بنی تو اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس معاملے پر بہت ڈسٹرب تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران اس پانامہ جے آئی ٹی کا حصہ بنیں اور وہ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو اس معاملے میں ایک خط لکھنا چاہتے تھے کہ ہمیں اس سیاسی معاملے میں شامل نہ کیا جائے اور جب انہوں نے اس حوالے سے قانونی رائے حاصل کی تو انہیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 190 کیخلاف ورزی ہوگی، اگر پانامہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران کی شمولیت سے انکار کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس حوالے سے نواز شریف پر واضح کر دیا تھا کہ سپریم کورٹ، جو بھی فیصلہ کرے گی، اس پر آپ نے بھی عمل کرنا ہے اور ہمیں بھی اور انہوں نے اس حوالے سے کسی کی سائیڈ بھی نہیں لی۔

لیکن اس کے باوجود نواز شریف اب کھل کر سپریم کورٹ پر حملہ کر رہے ہیں، مگر انہوں نے فوج پر کھل کر اس طرح بات نہیں کی، جس طرح ماضی میں بینظیر بھٹو کرتی رہی ہیں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کافی صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں، مگر اس تمام صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون کے کئی رہنما بالواسطہ یا بلاواسطہ سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو کہ ان کے صبر کا امتحان لینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح آئین کے جس آرٹیکل کو تبدیل کروانے کی بات کی جا رہی ہے، اس کے تحت کئی اراکین اسمبلی کو دوہری شہریت اور جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر نا اہل کیا جا چکا ہے، ان کی رکنیت منسوخ کی گئی۔ آئین کے 62،63 کے تحت صرف نواز شریف کو ہی ڈس کوالیفائی نہیں کیا گیا، بلکہ انہی دفعات کے تحت درجنوں اراکین پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے، اثاثے چھپانے والوں سمیت کئی اہم شخصیات نا اہل ہوگئی ہیں۔ ان ارکان کا تعلق پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی سمیت کئی پارٹیوں سے ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس دوڑ میں کوئی سیاسی جماعت پیچھے نہیں رہی، سیاسی جماعتوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر صحیح چھان بین نہیں کی اور نا اہل لوگوں کو ٹکٹ دے کر الیکشن لڑایا، ان کی کامیابی کے بعد عدالتوں نے ان کی اسمبلی کی رکنیت منسوخ کر دی۔ موجودہ اسمبلی کے راولپنڈی سے تحریک انصاف کے ایم این اے غلام سرور نا اہل ہوئے، بعد میں اپیل پر انہیں بحال کر دیا گیا۔

نواز شریف کے علاوہ اسی اسمبلی میں سے خوشاب سے مسلم لیگ نون کی سمیرا ملک، گوجرانوالہ سے مدثر قیوم ناہرہ، سندھ سے پیپلز پارٹی کے شبیر علی بجارانی، جھنگ سے (ن) لیگ کے ایم پی اے سردار افتخار احمد خاں، بوریوالہ سے تحریک انصاف کے ایم این اے نذیر جٹ، مانسہرہ سے ضیاء الرحمن، خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے صوبائی وزیر اکرام اللہ گنڈا پور، فیصل آباد کے (ن) لیگ کے ایم پی اے خواجہ اسلام، بلوچستان سے (ن) لیگ کے ایم پی اے عبدالغفور لہری، سوات سے کیموس خاں، منڈی بہاؤالدین سے ایم این اے اعجاز چودھری، ساہیوال سے تحریک انصاف کے ایم این اے حسن نواز، جھنگ سے (ن) لیگ کے شیخ وقاص اکرم، لودھرں سے (ن) لیگ کے صدیق بلوچ، جھنگ سے (ن) لیگ کی ایم پی اے راشدہ یعقوب، راولپنڈی سے (ن) لیگ کے ایم پی اے شوکت بھٹی، جسٹس افتخار چیمہ شامل ہیں۔ 2008ء سے 2013ء کی اسمبلی میں رکن قومی اسمبلی محمد جمیل ملک، زاہد اقبال، فرحت محمود خاں، جمشید دستی، سردار یعقوب خاں، محمد اسرار ترین اور فرح ناز اصفہانی کی سپریم کورٹ نے رکنیت منسوخ کی تھی، اس طرح 20 اراکین کو دوہری شہریت رکھنے پر رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے، ان میں ڈاکٹر عاصم حسین، مس سبین رضوی، ڈاکٹر آئرش کمار، سید طیب حسین، ڈاکٹر ندیم احسان، سید حیدر عباس رضوی، مس فوزیہ اعجاز، ڈاکٹر طاہر علی جاوید، جمیل اشرف، مراد علی شاہ، صادق علی میمن، ڈاکٹر سید محمد علی شاہد، عسکری نقوی، محمد رضا ہارون، انجینئر جاوید اقبال ترکش، مس فوزیہ اصغر، مس دوینا عزیز، عارف عزیز شیخ، محمد جمیل ملک شامل ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بظاہر اختلافات کے باوجود بیک چینل رابطے جاری ہیں، کسی بڑے بریک تھرو میں بلاول بھٹو زرداری رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مائنس الطاف حسین ایم کیو ایم کی طرح پی پی پی اور پی ایم ایل این کے متعلق پالیسی پر بھی عمل درآمد جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف موجودہ سیاسی صورتحال میں پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، وہ مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں، وہ پارٹی میں ان لوگوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں، جو ان کے ہم خیال ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو ٹکراؤ کی سیاست سے بچتے ہوئے پارٹی کو بچانا چاہیے، انہیں مشاورت کے لئے بھی نہیں بلایا جا رہا۔ ذرائع کے مطابق زرداری کے بیانات کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رابطے جاری ہیں اور (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری ہے اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیا تو پھر زرداری کو بھی نا اہل کر دیا جائے گا، اس حوالے سے (ن) لیگ کی طرف سے مختلف آپشنز دیئے جا رہے ہیں، جن میں صدر بنانے کا بھی آپشن موجود ہے، کیونکہ اس طرح سے زرداری کو استثنٰی حاصل ہو جائے گا، اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوجائیں گی لیکن وہ اگلے پانچ سال تک صدر رہیں گے اور آئندہ کے انتخابات میں جس پارٹی کی اکثریت ہوگی، وہ حکومت بنا لے گی اور ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ بلاول اور کچھ سینیئر پارٹی رہنماء ہیں، تاہم اگر بلاول بھٹو مان گئے، تو معاملات طے پانے کے قوی امکانات ہیں۔ سیاسی ماحول گرم ہوچکا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو اس وقت سیاست کی بساط پر سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، اگر وہ مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیتے ہیں تو انہیں کافی ریلیف مل سکتا ہے اور وہ جو ترامیم لانا چاہتے ہیں، ان میں کامیاب ہو جائیں گے، کیونکہ پہلے ہی اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور شیر پاؤ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں، جبکہ ایم کیو ایم سے معاملات کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خود کراچی گئے اور 25 ارب روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا۔ ایسے میں پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے، جس کی مسلم لیگ (ن) کو ضرورت ہے اور اگر ایسے وقت میں انہوں نے نواز شریف کی مدد نہ کی تو امکان ہے کہ مستقبل میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کے قابل نہ رہیں۔ جب بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اب پانی سر سے گذر چکا ہے اور شریف خاندان سیاست میں نہیں رہے گا، کیونکہ نیب کیسز سے بچنے کیلئے نواز شریف اور مریم نواز کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، دوسری طرف اڈیالہ جیل میں 13 ایئر کنڈیشنڈ کمرے تیار کر لئے گئے ہیں، لیکن حسن نواز لندن بھاگ گئے ہیں، حسین نواز اور کلثوم نواز بھی باہر ہیں، جبکہ طارق شفیع بھی لندن میں ہیں، یہاں صرف مریم اور نواز شریف رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند روز قبل جاتی امرا میں مسلم لیگ (ن) کی میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے کہ چونکہ نواز شریف کی دل کی سرجری ہوئی تھی اور اب وہ مسئلہ کر رہی ہے، اس لئے انہیں علاج کی سخت ضرورت ہے، کچھ دنوں میں ایک ایئر ایمبولینس آئے گی اور مریم نواز اس میں اپنے والد نواز شریف کو لے کر لندن چلی جائیں گی۔

ذرائع کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں تین سال کے لئے پرانے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور ریٹائرڈ جنرلز پر مشتمل قومی نگران حکومت بنا کر سب کا احتساب کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئندہ سال نہ ہی الیکشن ہونگے اور نہ ہی پارلیمانی نظام کے تحت کوئی حکومت ہوگی، کیونکہ اب تمام قومی ادارے پاکستان کو کرپشن سے پاک پاکستان بنانے کے لئے سرتوڑ کوشش میں مصروف عمل ہوچکے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ایسا پاکستان ہوگا جو کرپشن، بدعنوانی، سیاسی نابالغی، لوٹ مار اور اقتدار کے لئے باریاں جیسی مہلک بیماریوں کا خاتمہ ہوگا اور ایسی شفاف حکومت بنائی جائیں گی، جن کی بدولت پاکستان اور پاکستانی قوم کو دنیا میں ایسا مقام ملے، جہاں دنیا کے فیصلے پاکستان میں ہوں۔ مضبوط پاکستان کے قیام کے لئے پاور شیئرنگ کے لئے موجودہ پارلیمانی نظام ختم اور نئے صدارتی نظام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، جس کے لئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں کے علاوہ نیا سیٹ اپ قائم ہونے جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ٹیکنوکریٹ، سابق جرنیل اور معتبر سیاسی شخصیات جن میں عطاء الرحمن، نثار میمن اور اس طرح کے دیگر صاف شفاف کردار کے مالک افراد کو پارلیمنٹ میں لانے کی تیاریاں کی جاری ہیں، جو ملک میں بے لاگ احتساب تک اپنے فرائض سرانجام دینگے۔

جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو بچانے اور اپنے دفاع میں لگی ہوئی ہیں، جو کہ اب کسی صورت اس پارلیمانی نظام کو نہیں بچا سکتیں۔ مقتدر قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ملک اب اس نظام کا کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا، آنے والے وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام کے لئے راہ ہموار کی جائے اور پاکستان میں اب صرف شفاف لوگوں پر مشتمل مقننہ (سینیٹ) اور صدر جو پاکستان کو آگے لے چلے، ذاتی مفادات کو نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے ان تمام سیاستدانوں نے جو ملک میں کرپشن، لوٹ مار اور بدعنوانی کا گند ڈالا ہے، ایسا نظام بدبودار ہوچکا ہے، اس بدبودار نظام کو دفن کرنے کیلئے بڑے بڑے بتوں کو گرایا جائے گا، جس کے بعد پاکستان میں سسٹم تبدیل ہوگا، چہروں کے بدلنے سے سسٹم نہیں بدلتا، بلکہ نظام بدلنے سے چہرے بھی بدلیں گے اور پاکستان میں ترقی کی حقیقی تبدیلی بھی آئے گی۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ یہ صرف افواہیں ہیں، جو گردش کر رہی ہیں، راحیل شریف کچھ عرصے بعد اپنے گھر آتے ہیں اور ان کے ساتھ دو سعودی ہوتے ہیں، انکا قومی نگران حکومت بنانے سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے پاس پانچ سال کا کنٹریکٹ ہے، جس کے دوران وہ ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے، اگر سسٹم کو لپیٹنا ہوتا تو نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نا اہل کروانے کی کیا ضرورت تھی، اس لئے نظام چلتا رہے گا، جب تک سیاستدان خود نہ چاہیں کہ نظام کو لپیٹ دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 662591
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش