QR CodeQR Code

امریکہ میں نسل پرستی اور غلامی کی تاریخ(1)

25 Aug 2017 22:30

اسلام ٹائمز: یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ استعماری اقوام نے بہت سے ممالک پر قبضہ کرنے کیساتھ ساتھ لاکھوں افریقیوں کو غلام بنایا، انیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں، جنہوں نے افریقی غلاموں کو آزادی دینے کی بات کی۔ ابتدا میں انکا کہنا تھا کہ ان غلاموں کو کسی ایسے علاقے میں منتقل کیا جائے، جہاں وہ زیادہ آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ اسی غرض سے 1821ء میں لائبیریا میں افریقیوں کی کالونی قائم کی گئی۔ اگرچہ 1820ء تک غلاموں کی خرید و فروخت کے عمل کو ایک قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا تھا، تاہم یہ کاروبار 1860ء تک چوری چھپے جاری رہا۔


تحریر: سید اسد عباس

12 اگست کو امریکہ کے ایک شہر میں نسلی برتری کے حامیوں ku klux klan اور neo-nazis کی ایک ریلی منعقد ہوئی۔ اسی وقت اور عین اسی مقام پر نسل پرستی کے مخالفین alt-left کی جانب سے بھی ایک ریلی منعقد کی گئی۔ دونوں ریلیوں کے شرکاء کے مابین ٹکراو بھی ہوا، اسی دوران ایک نسل پرست نوجوان نے مخالفین کی ریلی پر کار چڑھا دی، جس کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ امریکہ میں نسل پرستی کا یہ واقعہ ایک اچھنبے کی بات لگتی ہے۔ وہ معاشرہ جس کے سربراہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اور نسل پرستی کے خلاف تقریریں کرتے نہیں تھکتے نیز جس معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہاں ہر نسل، قوم، قبیلے، ذات کا انسان برابری کی بنیاد پر زندگی گزار رہا ہے، اس ملک میں بھلا کوئی نسل پرست کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ پر ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان داغا جس میں دونوں گروہوں کے مظاہرین کو اس واقعہ کا ذمہ دار اور ان کے اقدام کو شدت پسندی پر محمول کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان نے امریکہ میں بے چینی کی ایک لہر پیدا کر دی۔ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نسلی امتیاز پر یقین رکھنے والے اور اس کے حق میں شعار بلند کرنے والے اور نسلی امتیاز کے خلاف قیام کرنے والے لوگ برابر ہوگئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازعہ بیان کے بعد امریکہ کی مسلح افواج کے تمام سربراہان نے نسلی امتیاز کے خلاف ٹویٹس کیں۔ ان سب کا تقریباً یہی کہنا تھا کہ ہم تمام امریکی شہریوں کو برابر سمجھتے ہیں اور ہماری افواج میں ان کو برابر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کی کئی ایک دیگر شخصیات نے بھی اس موضوع پر بیانات دیئے۔

اعلٰی ترین امریکی قیادت کی جانب سے بیانات کے سبب دنیا اس جانب متوجہ ہوئی کہ امریکہ جو انسانی آزادیوں کا سب سے بڑا دعویدار ہے، میں اندرونی طور پر کیا پک رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بیان پر آنے والی تنقید کے سبب فوراً ہی وضاحتیں دینے پر اتر آئے، تاہم ان کی پہلی گفتگو نے ان کی اصل فکر کو واضح کر دیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں استعماری دور سے ہی نسل پرستی کا رجحان تھا۔ گوروں کو کالوں، افریقی باشندوں، ہسپانوی باشندوں اور مقامی امریکیوں پر سیاسی، قانون اور سماجی فوقیت حاصل تھی۔ نسل کی بنیاد پر حقوق منجملہ تعلیم، ووٹ کا حق، شہریت، زمین کا حصول یا قبضہ نیز جرائم پر سزاؤں کا عمل اٹھارویں صدی سے 1960ء تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ بعد میں مشرق وسطٰی اور مغربی ایشیا سے آنے والے مہاجرین بھی نسلی تعصب کا نشانہ بنے کیونکہ عربوں، یہودیوں اور ہندوستان سے آنے والی اعلٰی نسلوں کو بھی امریکہ کی عدلیہ نے گورے شمار نہ کیا اور انہیں امتیازی قوانین کا سامنا کرنا پڑا۔ بیسویں صدی کے وسط میں امریکہ میں نسلی تعصب کو مذموم قرار دیا گیا، تاہم سیاست میں نسلی تعصب اور معاشرتی ناہمواری اب بھی امریکی معاشرے میں عام ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ استعماری اقوام نے بہت سے ممالک پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں افریقیوں کو غلام بنایا، انیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں، جنہوں نے افریقی غلاموں کو آزادی دینے کی بات کی۔ ابتدا میں ان کا کہنا تھا کہ ان غلاموں کو کسی ایسے علاقے میں منتقل کیا جائے، جہاں وہ زیادہ آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ اسی غرض سے 1821ء میں لائبیریا میں افریقیوں کی کالونی قائم کی گئی۔ اگرچہ 1820ء تک غلاموں کی خرید و فروخت کے عمل کو ایک قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا تھا، تاہم یہ کاروبار 1860ء تک چوری چھپے جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق پابندی کے باوجود 1830ء سے 1850ء تک لاکھوں غلام امریکہ لائے گئے۔ 1865ء میں تیرھویں ترمیم کے تحت امریکہ سے غلامی کے مکمل خاتمے کا قانون پاس ہوا۔ اس سے قبل 1863ء میں ابراھیم لنکن نے وفاق کے زیر کنڑول علاقوں میں غلامی کے خاتمے کا قانون پیش کیا تھا، تاہم تیرھویں ترمیم کے ذریعے یہ قانون مرحلہ وار پوری ریاست ہائے امریکہ پر نافذ ہوتا گیا۔ ایک امریکی لکھاری نے 1935ء میں لکھا کہ تیرھویں ترمیم کے باوجود غلامی کا خاتمہ نہ ہوا۔ اس ترمیم کے بعد ملک میں چالیس لاکھ انسان آزاد تو ہوئے، تاہم یہ آزادی فقط نام کی آزادی تھی۔ غلاموں کے رہن سہن، کام پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، ہاں کوڈ کی جگہ نام نے لے لی۔ نہ ان آزاد انسانوں کے پاس کوئی رقم تھی، نہ زمین، نہ قانونی حقوق اور نہ ہی کسی قسم کا تحفظ۔

امریکہ میں جاری خانہ جنگی کے بعد 1866ء میں امریکہ میں شہری حقوق کا قانون پاس ہوا، تاہم اس کے ساتھ بلیک کوڈ کے نام سے پابندیاں بھی متعارف کروائی گئیں، جس کے سبب سیاہ فام اپنے وعدہ کردہ انسانی حقوق سے بہرہ مند نہ ہوئے۔ چودھویں ترمیم کے ذریعے سیاہ فام باشندوں کو بھی امریکی شہریت دے دی گئی، جو اس سے قبل فقط گوروں کا حق تھی۔ حقوق کی فراہمی یا حصول کا یہ سلسلہ 1870ء میں اس وقت ختم ہوا، جب ایک مرتبہ پھر ریڈ شرٹس اور وائٹ لیگ کے نام سے نسل پرست پارلیمانی گروہ اقتدار میں آئے اور انہوں نے جم کرو کا قانون اور علیحدگی کے قوانین پیش کئے۔ ان قوانین کے تحت سیاہ فام باشندوں کو اشارات کے ذریعے بتایا جاتا تھا کہ وہ قانونی طور کہاں بول سکتے ہیں، کہاں انہیں بیٹھنے کی اجازت ہے، کہاں وہ کھا پی سکتے ہیں۔ اس علیحدگی کے قانون نے ایک مرتبہ پھر امریکی معاشرے میں سیاہ و سفید کی ایک لکیر کھینچ دی، حتٰی کہ سکول اور قبرستان بھی جدا جدا کر دیئے گئے۔ جم کرو کا قانون جو 1876ء سے 1965ء تک امریکہ کی مختلف ریاستوں میں نافذ رہا بنیادی طور پر تو مساوی حقوق کا قانون تھا مگر اس قانون کے تحت گوروں اور کالوں کو جدا جدا کر دیا گیا۔ سکول، ٹرانسپورٹ، پبلک مقامات پر دونوں نسلوں کے افراد کے لئے الگ الگ سہولیات مہیا کی گئیں۔
۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 664205

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/664205/امریکہ-میں-نسل-پرستی-اور-غلامی-کی-تاریخ-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org