0
Saturday 26 Aug 2017 17:51

امریکہ، دہشتگردی اور پاکستان(1)

امریکہ، دہشتگردی اور پاکستان(1)
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


حالیہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء اور بالخصوص افغانستان و پاکستان سے متعلق اور خطے میں دہشت گردی کے تناظر میں اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ 21 اگست بروز پیر کو امریکی صدر نے ورجینیا میں واقع آرلنگٹن نیشنل سیمیٹری کے قریب منعقدہ ایک تقریب میں جہاں ایک طرف افغانستان کے لئے نئی پالیسی کا اعلان کیا، وہاں ساتھ ہی ساتھ پاکستان اور ہندوستان سے متعلق بھی اپنی پالیسی کو بیان کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی انتھک محنت اور جدوجہد کو اپنے ایک جملے کی ادائیگی میں پاش پاش کر دیا اور کہہ دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دے رہا ہے۔(جو کہ حقیقت سے بالکل برعکس بات ہے) سیاسی ماہرین نے امریکہ کی تازہ ترین پالیسی کے بارے میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل یہ امریکہ کی پرانی پالیسی ہے، جسے نئی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ نے اسی سال میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف ہندوستان کی حمایت میں بیان دیا ہے اور افغانستان میں ہندوستانی کی مداخلت کے باعث دہشت گردی کے مسئلہ کو صرف نظر کرتے ہوئے امریکی صدر نے الٹا یہ کہا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ مل کر افغانستان کے مسائل کو حل کرنے کے خواہاں ہیں، حالانکہ کسی بھی دستور سے دیکھا جائے تو افغانستان کے مسائل کو حل کرنے میں پاکستان کا کردار ہونا چاہئیے، کیونکہ پڑوسی ممالک ہیں، جبکہ ہندوستان کی کوئی سرحد بھی افغانستان کے ساتھ نہیں ملتی۔

البتہ یہاں پر ایک اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ماضی میں اسی امریکہ نے ہی افغانستان میں مسائل پیدا کئے تھے۔ روس کے خلاف مسلح گروہوں کی مدد کرنے والا امریکہ ہی تھا اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ناعاقبت اندیش لوگوں نے امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہو کر روس کو شکست دینے کی ٹھال لی اور اسے مقدس جہاد کا نام دے کر اٹھ کھڑے ہوئے، بہرحال اگر دیکھا جائے تو افغانستان کے اس امریکی سرپرستی میں شروع ہونے والے جہاد سے پاکستان کے گلی کوچوں میں بہنے والا معصوم انسانوں کا لہو اور دہشت گردی کا مسئلہ دراصل امریکہ کے ہاتھوں ہی تیار کردہ شدہ ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کے قیام کے بارے میں کہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے موازنہ کریں تو یہ تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ایک اور مرتبہ پاکستان پر الزام لگایا کہ افراتفری، تشدد اور دہشت گردی کرنے والوں کو پاکستان اکثر محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے، یہ خطرہ بدتر ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت نیوکلیئر اسلحے سے لیس دو ممالک ہیں اور ان کے کشیدہ تعلقات کسی بھی وقت شدت اختیار کرکے لڑائی میں تبدیل ہوسکتے ہیں، یہ خطرہ رہتا ہے۔ انہوں نے بارسلونا میں دہشت گردی کے تازہ واقعہ کی مثال دی اور یاد دلایا کہ سعودی عرب میں تین ماہ قبل بھی وہ تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو انکے علاقوں اور مالی ذرائع سے محروم کر دیں گے اور انکے جھوٹے نظریئے کو بے نقاب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان و پاکستان میں امریکی مفادات واضح ہیں کہ وہ یہاں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے دوبارہ قیام کو ہر صورت روکیں گے، کیونکہ یہ امریکہ کے لئے خطرہ ہیں اور اس کو بھی روکیں کہ نیوکلیئر اسلحہ یا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائیں، جو وہ امریکہ کے خلاف بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

دراصل امریکی صدر یہاں اپنی تقریر میں یہ بات بتانا بھول گئے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو ہمیشہ مالی و مسلح مدد فراہم کرنے والا امریکہ ہی تھا اور ہے کہ جس نے نہ صرف ان دہشت گرد گروہوں کو پیدا کرنے میں کردار ادا کیا بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں بھی امریکہ کا ہی بے مثال کردار رہا ہے۔ امریکی صدر نے یہ بھی نہیں بتایا کہ شام و عراق اور لبنان سمیت لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں داعش اور النصرۃ نامی دہشت گرد گروہوں کو امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر کس حد تک مدد فراہم کر رہا ہے۔؟ اس کے ساتھ امریکی صدر کو شاید یہ جان کر بہت زیادہ تکلیف ہوئی ہوگی کہ ایک روز قبل ہی افواج پاکستان کے ترجمان آئی ایس پی آر نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں داعش اور دیگر تمام ان دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورک کو خیبر فور آپریشن میں توڑنے اور ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، دراصل امریکی صدر کو اس بات پر شدید دکھ ہوا ہوگا کہ ان کے پالتو دہشت گردوں کے خلاف افواج پاکستان کی پرعزم جدوجہد مثالی ہے اور یہی بات شاید پاکستان کے دشمن ممالک بالخصوص ہندوستان کو بھی ناگوار گذری ہوگی، جس پر امریکی صدر نے ہندوستان کی تعریف اور پاکستان کیخلاف بیان دے کر ثابت کر دیا کہ دہشت گردوں کا اصل بانی اور موجد اور ان کی مدد کرنے والا بالآخر امریکہ، اسرائیل اور جنوبی ایشیاء میں ہندوستان ان کا غلام ہے۔

ٹرمپ نے اپنی نئی پالیسی میں پاکستان کے بارے میں کہا ہے کہ پاکستان میں طالبان اور دیگر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر کہ جو خطے اور خطے سے باہر کے ممالک کے لئے خطرہ ہیں، ان پر امریکی حکومت خاموش نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی کوششوں میں شریک ہوکر پاکستان بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے جبکہ کریمنلز اور دہشت گردوں کو پناہ دے کر انکی حفاظت کرکے بہت کچھ گنوا بھی سکتا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ماضی میں پاکستان ایک قابل قدر شراکت دار تھا اور مشترکہ دشمنوں کے خلاف امریکہ اور پاکستانی افواج نے مل کر لڑائی بھی کی ہے۔ پاکستانی عوام دہشت گردی و انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ امریکہ انکے تعاون اور قربانیوں کو تسلیم کرتا ہے، لیکن پاکستان ان تنظیموں کو پناہ بھی دیتا ہے، جو ہر روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق پاکستان ایسے وقت میں ان دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے کہ جب امریکہ پاکستان کو اربوں پہ اربوں ڈالر دیئے جا رہا ہے۔ لیکن اب اسے تبدیل ہونا چاہیے اور یہ فوری طور تبدیل ہو۔ ٹرمپ مزید کہتے ہیں کہ کوئی شراکت داری اس طرح نہیں چل سکتی کہ وہ ہمارے فوجیوں یا دیگر سرکاری حکام کو مارنے والے دہشت گردوں کو پناہ دیں۔ اب وقت ہے کہ پاکستان مہذب پن، نظم اور امن کا مظاہرہ کرے۔

امریکی سدر ٹرمپ یہاں ایک مرتبہ پھر ایسی بڑکیں مار گئے ہیں کہ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، جہاں تک دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں کا معاملہ ہے تو افواج پاکستان نے مسلسل ضرب عضب اور ردالفساد سمیت خیبر فور آپریشن انجام دیئے ہیں کہ جس کے باعث دہشت گردوں کا بڑی تعداد میں خاتمہ یقینی ہوا ہے، دراصل ٹرمپ کی اصل تکلیف یہ ہے کہ شام و عراق اور دیگر عرب ممالک سے داعش کی شکست کے بعد داعش کو افغانستان اور پاکستان میں پہنچانا ہے، جس کو افواج پاکستان نے پہلے ہی بھانپ کر ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف خواہ ان کا تعلق داعش کے ساتھ ہو یا طالبان دہشت گردوں کے ساتھ، سب کے خلاف بلا تفریق کامیاب آپریشن کئے جا رہے ہیں، جس کے باعث ان دہشت گردوں کا قلع قمع ہو رہا ہے۔ اسی طر ح امریکی صدر نے اربوں ڈالرز امداد دینے کی بات کی ہے تو امریکی صدر کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ ان کی اس معمولی نوعیت کی امداد کے عوض پاکستان کو کھربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے، جبکہ ایک لاکھ سے زائد پاکستانی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا ہے، جو امریکی حمایت یافتہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ اگر پوری امریکی قوم بھی مل کر ان ایک لاکھ معصوم جانوں کا ازالہ کرنا چاہے تو ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

اگر ڈونالڈ ٹرمپ یہ کہتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالرز دیئے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کو اس جنگ میں مزید کھربوں ڈالرز کا سالانہ خسارہ ہوا ہے، کیونکہ ایک طرف دہشت گردی کے باعث انفراسٹرکچر کی تباہی، جانی نقصان اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے سبب پاکستان سے بڑے کاروبار دوسرے ممالک میں شفٹ ہوئے ہیں، تاہم اگر دیکھا جائے تو امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر چند ارب ڈالرز دیئے گئے، لیکن دوسری طرف پاکستان کو کئی کھرب ڈالرز کا سنگین نقصان اٹھانا پڑا ہے، جبکہ لاکھوں قیمتی جانوں کی قربانیوں کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جا سکتی۔ یہاں پر ایک نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی پالیسی میں امریکہ نوازی کو ختم کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ غلط پالیسی لیاقت علی خان کے دور میں شروع کی گئی تھی، جس کے باعث پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک لاکھ سے زائد قربانیاں پیش کی ہیں، پاکستان کو امریکہ کی اس جنگ میں انتہائی طور پر بدامنی کا شکار ہونا پڑا، لیکن اس کے باوجود بھی امریکی آج بھی پاکستان پر الزام عائد کر رہے ہیں اور کشمیریوں کے قاتل بھارت کی تعریف اور اس کی مدد کی بات کرتے ہیں جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ پاکستان کو آج نہیں تو کل اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہوگی، ورنہ امریکہ سے جس جس نے دوستی کی اسے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 664514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش