0
Sunday 27 Aug 2017 20:36

امریکہ میں نسل پرستی اور غلامی کی تاریخ(2)

امریکہ میں نسل پرستی اور غلامی کی تاریخ(2)
تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ تحریر میں ہم نے اٹھارویں صدی سے بیسویں صدی کے وسط تک امریکہ میں نسل پرستی اور غلامی کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا۔ زیر نظر عبارت اسی تحریر کا تسلسل ہے۔ جم کرو کا قانون جو 1876ء سے 1965ء تک امریکہ کی مختلف ریاستوں میں نافذ رہا، بنیادی طور پر تو مساوی حقوق کا قانون تھا مگر اس قانون کے تحت سفید فام اور سیاہ فام امریکیوں کو معاشرے میں جدا کر دیا گیا۔ اس تقسیم کی ایک مثال ہمیں ہندو معاشرے میں بھی نظر آتی ہے، جہاں اونچی اور نچلی ذات کا تصور معاشرے میں راسخ ہے اور جس کے کچھ اثرات پاکستانی معاشرے میں بھی موجود ہیں۔ سکول، ٹرانسپورٹ، پبلک مقامات پر دونوں نسلوں کے افراد کے لئے الگ الگ سہولیات مہیا کی گئیں۔ سیاہ فام امریکی، سفید فام افراد کے لئے مختص میزوں پر نہ بیٹھ سکتے تھے۔ ایک ہی مقام پر داخلے کے لئے سیاہ و سفید افراد کے لئے الگ الگ دروازے، سفید فام اور سیاہ فام افراد کے لئے الگ الگ پبلک مقامات اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں جس میں عموماً سفید فام افراد کو بہتر سہولیات دی جاتی تھیں اور ترجیح بھی دی جاتی تھی۔ اس منظم نسلی تعصب جسے حقوق کے قانون کا نام دیا گیا تھا، کے خلاف سیاہ فام آبادی کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں مارٹن لوتھر کنگ کے ملازمت اور آزادی کے حصول کے لئے مارچ کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں 1964ء میں شہری حقوق کا قانون پاس ہوا۔ اس قانون کے تحت پبلک مقامات، ملازمت اور لیبر یونین میں تعصب کو بین کیا گیا۔ اس کے باجود گورے اور کالے کی علیحدگی کا عمل جاری رہا، علیحدگی کے اس قانون کو سیاہ فام افراد کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا، جس میں قیمتوں میں اضافہ، بینک کے قرضوں کے حصول میں مشکلات، انشورنس کے حصول میں مشکلات، ملازمتوں کے حصول میں مشکلات وغیرہ شامل ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق 1981ء سے 1997ء تک ریاست ہائے متحدہ کے شعبہ زراعت نے ہزاروں سیاہ فام کسانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ روا رکھا اور انہیں زرعی قرضے نہ دیئے گئے جبکہ اس کے برعکس سفید فام افراد کو انہی حالات کے تحت قرضے دیئے جاتے رہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں نسلی تعصب کی بنیاد پر پولیس اور سیاہ فام باشندوں کے مابین متعدد فسادات ہوئے۔ ایک امریکی محقق خلیل جبران کے مطابق 1935ء سے اب تک امریکہ میں قریباً سو سے زیادہ ایسے فسادات ہوچکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ پولیس کا سیاہ فام باشندوں کے ساتھ نسلی تعصب ہے۔ سیاسی نظام کو دیکھا جائے تو وہاں بھی امریکہ کی پچاس میں سے اڑتالیس ریاستوں میں سیاہ فام باشندے اقلیت ہیں۔ الیکٹورل کالج میں گوروں کو برتری حاصل ہے، جس کے سبب اکثر سیاہ فام اور دیگر مہاجر اپنے آپ کو سیاسی طور پر تنہا یا الگ تصور کرتے ہیں۔ 2016ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 8.7فیصد سیاہ فام کانگریس کا حصہ بن سکے ہیں جبکہ پیو ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ان کی آبادی قریباً 36فیصد ہے۔ سیاہ فام افراد کے علاوہ امریکہ میں بسنے والی دیگر نسلوں کے ساتھ بھی نسلی تعصب روا رکھا جاتا ہے۔ ایشیائی، یورپی، لاطینی امریکی، مشرق وسطٰی کے باشندوں، ایرانی اور مقامی امریکی باشندوں کے ساتھ بھی نسلی تعصب کے بہت سے واقعات امریکی تاریخ کا حصہ ہیں۔ 1923ء میں امریکی سپریم کورٹ نے بھگت سنگھ تھند کے کیس میں فیصلہ دیا کہ چونکہ اونچی نسل کے ہندو سفید فام نہیں لہذا وہ اٹھارویں صدی کے نیوٹرالائزیشن قانون کے تحت امریکی شہریت کے اہل نہیں ہیں۔ سنہ 2000ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 1218 ایشائی امریکیوں میں سے بانوے فیصد ایسے تھے، جنھوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ قومیت کی بنیاد پر ان کے ساتھ تعصبانہ رویہ روا رکھا گیا ہے۔ چینی، جاپانی باشندوں کے ساتھ بھی امریکہ میں ایسا ہی برتاؤ کیا گیا۔

اسی طرح ستمبر 2001ء کے واقعے کے بعد عرب مسلمانوں کے خلاف نسلی تعصب میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعصب مذہب کی وجہ سے ہے، تاہم ایسے بھی بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے، جہاں عیسائی عربوں کے خلاف بھی متشددانہ اقدامات کئے گئے، جس کی وجہ ان کی شکل و صورت اور عرب ہیئت تھی۔ اس کے علاوہ آرمینی، ایرانی، یہودی، ترک، یزدی بھی عربوں جیسی شباہت کے باعث اس تعصب کا شکار ہوئے۔ حتٰی کہ سکھوں کو عربوں جیسی شباہت کے سبب قتل کیا گیا۔ اس سلسلے میں بلبیر سنگھ سودھی کے قتل کا واقعہ قابل ذکر ہے، جسے ایک سفید فام نے عرب شباہت کے سبب سودھی کو قتل کیا۔ ایک انگریز لکھاری پیٹر کوفمین امریکہ میں جاری منظم نسلی تعصب کے بارے لکھتا ہے کہ آج بھی امریکہ میں بہت سے ایسے سکول اور ادارے موجود ہیں، جہاں لوگوں کو نسل اور معاشرتی مقام کے اعتبار سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہ سیاہ اور سفید فام افراد کے الگ الگ اداروں کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ چونکہ معاشرہ، شہر اور قصبے اس قدر تقسیم کا شکار ہیں کہ وہاں موجود سکول بھی بدیہی طور پر منقسم ہیں۔ قانون کے امریکی استاد تھامس کہتے ہیں کہ نسلی امتیاز اور تعصب کا معاشرتی خلیج پر بھی گہرا اثر ہے، یہ خلیج فقط صلاحیت کے سبب نہیں۔ صحت کے شعبے میں بھی ناہمواری عیاں ہے۔ امریکی جرنل فار پبلک ہیلتھ کے مطابق اگر افریقی امریکیوں کو سفید فام امریکیوں جیسی سہولیات مہیا کی جاتیں تو 1991ء سے 2000ء تک آٹھ لاکھ چھیاسی ہزار زندگیوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ بنیادی فرق جو صحت کے شعبے کے حوالے سے سفید فام اور سیاہ فام امریکیوں میں پایا جاتا ہے، میں انشورنس کا نہ ہونا، مناسب انشورنس کا نہ ہونا، بری سروسز یا سہولیات سے استفادہ نہ کرنا شامل ہیں۔ عدالتی نظام میں بھی نسلی تعصب کا پایا جانا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ 2009ء میں ایک اعترافی بیان میں مارک مور نے کہا کہ سیاہ فام امریکی، امریکہ کی آبادی کا 13فیصد ہیں جبکہ ان کی آبادی کا 14 فیصد ماہانہ بنیاد پر منشیات استعمال کرتا ہے۔ 2010ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سیاہ فام امریکیوں کو سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ سزائیں سنائی جاتی ہیں۔

ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ میں فعال نسل پرست تنظیموں کی تعداد تقریباً 900 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جس کے سبب نسل پرستی کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ 12 اگست 2017ء کو ہونیوالے نسل پرستانہ واقعہ کے حوالے سے اظہار رائے کرتے ہوئے ایک امریکی نفسیات دان کا کہنا ہے کہ نسلی تفاخر اور تعصب ہمارے معاشرے کی بنیادوں میں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنا کہ یہ نسلی تفاخر مستقبل میں کم ہوگا، ایک بھول ہے۔ امریکی ماہر نفسیات کے مطابق حال میں ہونیوالے واقعے میں اکثریت نوجوانوں اور کم عمر افراد کی تھی۔ حتٰی کہ مظاہرین پر کار چڑھانے والا شخص فقط بیس برس کا تھا۔ بہرحال ایک کثیر النسل معاشرے میں اونچ نیچ کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ کہنا کہ امریکہ نے نسلی تعصب کے خاتمے کے لئے کچھ نہیں کیا، یہ بھی غلط ہوگا، تاہم سیاہ فام امریکیوں کی سفید فام امریکیوں کی نسبت غربت، تعلیم تک نارسائی، ملازمتوں سے دوری، سیاست میں ان کا کم ترین کردار، انتظامیہ کی جانب سے سیاہ فام افراد کے ساتھ تعصبانہ رویہ، عدالتی نظام میں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اور نسلی برتری پر یقین رکھنے والے گروہوں کی ایک کثیر تعداد اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہنوز دلی دور است۔ نسل پرستی اور نسلی تعصب کے خاتمے میں اس سست رفتاری کی ایک بڑی وجہ امریکی معاشرے کے پاس ان فکری، نظریاتی اور روحانی بنیادوں کا نہ ہونا ہے، جو انسانوں کو برابری کی سطح پر دیکھ سکیں۔ ایک دین بیزار یا سیکولر معاشرہ کیسے فقط قانون کے سہارے تمام انسانوں کی برابری کا قائل ہوسکتا ہے۔ یہی وہ خلا ہے جسے کوئی بھی روحانی نظام جو انسانوں کی برابری پر یقین رکھتا ہو، پر کرسکتا ہے۔ امریکی اور مغربی معاشرے میں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے کا ایک ہدف و مقصد یہ بھی ہے کہ روحانی اقدار کے تشنہ معاشرے کو اسلام کی حقیقی اور انسان دوست تعلیمات سے دور رکھا جاسکے۔ واللہ اعلم
خبر کا کوڈ : 664762
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش