1
0
Wednesday 20 Apr 2011 11:54

آنے والی نسلیں اقبال کو انگریزی میں پڑھیں گی؟

آنے والی نسلیں اقبال کو انگریزی میں پڑھیں گی؟
تحریر:ثاقب اکبر
ستمبر 1994ء کی بات ہے، میں استنبول میں تھا۔ میزبانِ مہربان علامہ حمید توران نے انجینئرنگ کے ایک طالب علم یوسف ایکسل کو میرے ساتھ کر دیا تھا۔ وہ کسی قدر انگریزی بول سکتا تھا۔ اس کے ساتھ میں استنبول کے معروف عجائب گھر توپ کاپی میں پہنچا۔ میری اہلیہ اور دو بچیاں ساتھ تھیں۔ عظیم الشان عجائب گھر میں قدیم نوادرات، تحریریں اور کتبے موجود تھے۔ ترکی کا قدیمی رسم الخط عربی و فارسی کے حروف ابجد سے عبارت تھا۔ عربی و فارسی قطعے اور کتبے تو میں پڑھ ہی رہا تھا، ترکی زبان کی قدیم تحریریں بھی کسی حد تک سمجھ میں آ رہی تھیں۔ وہ نوجوان ان تحریروں کو بٹ بٹ اور مجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ میں اُسے اُس کی تاریخ کی یاد گاروں کا پتہ دے رہا تھا۔ وہ اپنی ہی زبان سمجھنے سے محروم تھا۔ میرے بدن میں اچانک بجلی سی کوند گئی۔ اس نوجوان کو ”جدید ترکی“ کے بانی نے اس کی تاریخ اور میراث سے کاٹ دیا تھا۔ جدید ترکی کے ”معمار“ نے ترکی زبان کو یورپ کے مستعار حروف ابجد کا لباس پہنا دیا تھا۔ رفتہ رفتہ آنے والے نسل اپنی اصلی قدیم ترکی تحریروں سے بیگانہ ہو گئی۔ اب وہ بولتی ترکی زبان ہے لیکن اپنے آباء کی تاریخ اور تحریریں نہیں پڑھ سکتی۔اب ترک اپنے سرمایہ افتخار جلال الدین رومی کو پڑھنے کے لیے غیروں کا سہارا لینے کے احتیاج مند ہیں۔ جدید ترکی کے بانی کا خیال تھا کہ اس طرح وہ ترکی کا پس ماندہ عرب وعجم سے رشتہ کاٹ کر ترقی یافتہ یورپ سے جوڑ دے گا۔
نئی ترکی زبان سیکھنے سے ترک قوم کسی یورپی زبان کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو جاتی بلکہ اسے ہر یورپی زبان سیکھنے کے لیے کم وبیش نئے حرف ابجد بھی سیکھنا پڑتے ہیں اور ترکی کی بگڑی یا بدلی ہوئی شکل اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ ترکی کو طویل جدوجہد کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت بھی نہیں حاصل ہو سکی۔ یورپ کی خوشنودی کے لیے اس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہی نہیں بلکہ عسکری روابط بھی استوار کیے ہیں لیکن یورپی یونین کے سابق صدر نے برسر عام کہہ دیا کہ ہم ایک مسیحی پلیٹ فارم پر ایک مسلمان ملک کو شامل نہیں کرسکتے۔
ترکی کا نوحہ پڑھتے پڑھتے ہم اپنا مرثیہ نہ بھول جائیں۔ ہمیں بھی رفتہ رفتہ ”جدید“بنایا جا رہا ہے۔ ہمارا آئین تو کہتا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اسے ہی ہماری دفتری اور تعلیمی زبان ہونا چاہیے بلکہ 1973ء کے آئین کا تقاضا تھا کہ پندرہ برس کے اندر اندر اردو کو دفتری زبان بنایا جاتا۔ دفتری اصطلاحات کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اور آئینی تقاضے پورے کرنے کے لیے ہی”مقتدرہ قومی زبان“ کا وجود عمل میں لایا گیا تھا۔ اس ادارے کی ذمہ داری تھی کہ مذکورہ مدت میں اس ضرورت کو پورا کرے۔ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی لیکن آئین کے محافظوں نے ابھی تک اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا۔
انگریزی کو اس طرح سے ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے کہ اب ہمارے بچے روزمرہ الفاظ کا تلفظ بھی صحیح بولنے کے قابل نہیں۔ ٹی وی کے اردو پروگراموں کے میزبان اور مہمان یوں اردو انگریزی کا آمیزہ بول رہے ہوتے ہیں کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہو  جاتا ہے۔ اردو یا مقامی زبان میں سوچنا اور غیر زبان میں مافی الضمیر کے اظہار کا فیشن اعتماد اور عزت نفس کے احساس سے عاری ایک ڈب کھڑبی قوم ہی کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے۔ میر نے پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی :
اُس کا خرام دیکھ کر جایا نہ جائے گا
اے کبک! پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا
دنیا یہ تجربہ کر چکی ہے کہ کوئی قوم اپنی زبان ہی کو اختیار کر کے ترقی کر سکتی ہے اور یہی راستہ قومی تفاخر اور خوداعتمادی کو باقی رکھ سکتا ہے اور آزادی و خودمختاری کی حفاظت کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔
موبائل فون جس طرح سے ہمارے بچوں کی زندگی میں داخل ہو گیا ہے اُس کے سماجی اور نفسیاتی اثرات کا ابھی سنجیدگی سے جائز نہیں لیا گیا۔ موبائل فون، ای میل اور چیٹ کا طریق کار ہمیں رفتہ رفتہ ”جدید ترکی“ کی طرح ”جدید پاکستان“ کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہماری موجودہ نسل اردو میں سوچتی ہے اور اسے انگریزی رسم الخط میں بیان کرنے لگی ہے۔ عجیب بات ہے اس کے لیے ہمیں ”اتاترک“ کی ضرورت نہیں پڑی۔ سابقہ فوجی حکومت کے ”اتاترک“نما سربراہ نے اپنا آئیڈیل ہی اتاترک کو بیان نہیں کیا بلکہ انگریزی کو ہماری نسلوں پر مزید مسلط کرنے کے لیے بھی تدابیر اختیار کیں اور موجودہ عوامی حکومت اس غیر عوامی روش کو آگے بڑھا رہی ہے اس لیے کہ برطانیہ نے 63 کروڑ پونڈ انگریزی کے فروغ کے لیے بخشے ہیں۔ اس طرح کے مہربان جب ایسی سخاوتوں کا اعلان کرتے ہیں تو کوئی ”رجل رشید“ یہ کہنے کے لیے موجود نہیں ہوتا کہ
ہم تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
عدلیہ نے بھی اس مسئلے کو اس قوم کا ایک بنیادی مسئلہ نہیں سمجھا۔ موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری خود اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کے آغاز میں وہ انگریزی زبان میں تقریریں کیا کرتے تھے۔ اس کا عوام پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا تھا۔ پھر انھوں نے اردو میں تقریریں شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ آخر اب وہ عوام کے اس بنیادی انسانی، آئینی اور قانونی حق کی طرف کیوں متوجہ نہیں کہ انھیں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنی زبان میں ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ وہ اس آئین کی پاسداری کا عہد کیے ہوئے ہیں جس کے مطابق اب سے بہت پہلے کاروبار سرکار اردو میں ہو جانا چاہیے تھا۔
ہمارے صدر محترم آصف علی زرداری نے اب گویا یہ روایت بنا لی ہے کہ وہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے انگریزی میں خطاب کریں۔ اُن کے تمام سامعین اردود بہتر سمجھ پا رہے ہوتے ہیں اور وہ خود بھی انگریزی کی نسبت اردو بہتر بول سکتے ہیں لیکن خدا جانے وہ کس کے لیے انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔ ہم ان سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہماری طرف منہ کر کے آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں۔
ایسے میں جب ہم اقبال کا دن مناتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ یہی روش رہی تو ہماری آنے والی نسلوں کا رابطہ حکیم الامت علامہ اقبال سے منقطع ہو جائے گا۔ یہی نہیں اردو ہمیں ایک وسیع تر اسلامی ثقافت اور عالمی اسلامی خاندان کا حصہ بناتی ہے، اگر ہم نے اسے اس کا جائز مقام نہ دیا تو ”جدید ترکی“ کی طرح عرب وعجم سے منقطع ہو جائیں گے، ہم قرآن کی زبان سے دور ہوتے جائیں گے اور ہم رومی و سعدی و حافظ کی زبان سے ناآشنا ہوتے جائیں گے۔
اصل سوال یہ ہے کہ ایسا ہم کس کے لیے کر رہے ہیں۔ کیا اُن کے لیے جنھوں نے ترکی کو مسلمان ہونے کے ”جرم“ میں یورپی یونین کا حصہ نہیں بنایا جبکہ اسے ناٹو کا حصہ بنا رکھا ہے تاکہ حسب ضرورت اس کی عسکری قوت کو تو استعمال میں لایا جاسکے لیکن اُسے دیگر اقتصادی اور سماجی فوائد سے محروم رکھا جائے۔
خدا را رک کر یہ سوچنے میں کیا ہرج ہے کہ کیا ہم اپنے ساتھ اور اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ خوداعتمادی سے محروم اور اپنی شناخت سے عاری قوم عزت وافتخار سے قوموں کی صف میں کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیے کہ زبان کا مسئلہ صرف مافی الضمیر کے اظہار کا مسئلہ نہیں، یہ تہذیب و تمدن، ثقافت و تاریخ اور قومی افتخار سے جڑا ہوا ایک ہمہ گیر انسانی اور عوامی مسئلہ ہے۔


خبر کا کوڈ : 66482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Netherlands
It was dark when I woke. This is a ray of sunshnie.
ہماری پیشکش