0
Monday 28 Aug 2017 15:41

افغان جنگ کے بارے میں آرمی چیف کا دو ٹوک موقف

افغان جنگ کے بارے میں آرمی چیف کا دو ٹوک موقف
تحریر: طاہر یاسین طاہر

کہیں نہ کہیں کوتاہی تو ضرور ہوئی ہے، ورنہ دنیا ہم سے اس قدر بدظن کیوں ہوتی؟ ہماری قربانیاں بے مثال ہیں، ہماری جدوجہد لازوال اور انتھک۔ اس کے باوجود دشنام اور الزام بھی ہمارا ہی مقدر کیوں؟ جنگیں تباہی اور بدظنی کے سوا کچھ بھی نہیں لاتیں۔ ان کا رزق انسانی بدن ہوا کرتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔ افسوس کالم کا دامن تنگ اور قاری بھی الجھن میں ہے۔ ورنہ چار چھ اقساط  میں جنگوں کے اسباب، ان کے نتائج اور انسانی نفسیات پہ ان کے اثرات لکھوں۔ جو، بدن جنگ کا رزق ہو جاتے ہیں، وہ شہید یا ہلاک کہلاتے ہیں۔ یہاں عقیدہ کی نسبت سے ان کی درجہ بندی کر دی جاتی ہے۔ البتہ جو بچ جاتے ہیں، ان کی کئی نسلیں ہیجان اور عدم تحفظ کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈ اندھی طاقت کے اظہار کا تحریری و فکری نتیجہ ہے۔ غالب آنے کی خواہش انسان کو چین سے نہیں رہنے دیتی، جبکہ ڈائیلاگ کے ذریعے غالب آنے سے تو کوئی ریاست یا ملک عاجز ہے۔ اس کے لئے گولہ بارود، جنگی حکمت ِ عملی اور اقتصادی شکنجے تیار کئے جاتے ہیں۔ امریکہ شاید پاکستان سے ویسی کارکردگی کا خواہاں ہے، جو روس کے خلاف امریکی ڈالروں کے زور پر، افغان مجاہدین کے ذریعے دکھائی گئی تھی۔ وہ دو نظریات کی جنگ تھی، سوشلزم اور کیپٹلزم۔ پاکستان نے اپنا وزن کیپٹلزم کے پلڑے میں ڈالا اور وہاں سے اسلحہ و ڈالر جنگی حکمت عملی کو مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے ملتا رہا۔ اب مگر افغانستان کا مسئلہ ایک اور طرح کی جنگ ہے۔ اس وقت یہی طالبان جنگجو امریکہ کے نزدیک بڑے مجاہد اور توحیدی تھے، آج یہ بوجہ دہشت گرد ہیں۔

روس کی واپسی کے بعد امریکہ نے افغان کمانڈروں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا اور اپنے قبائلی مزاج کے مطابق یہ سارے جنگجو ایک دوسرے کے قاتل بن گئے۔ نظریہ کوئی نہ تھا۔ بس جس کے پاس بڑا جتھہ، زیادہ لڑاکے اور اسلحہ تھا، وہ دوسرے گروہ پہ چڑھ دوڑا۔ یہاں تک کہ ایک کمانڈر کو کابل کا قصائی بھی کہا گیا۔ دنیا دو بلاک کے بجائے امریکی طاقت کے زیر اثر آئی تو امریکہ نے نئے زاویے تراشے، خطے میں اپنے مفادات کے لئے طاقت اور اقتصادیات کے ذریعے ان کی تکمیل چاہی۔ نائن الیون کے بعد دنیا ایک نئے رحجان کی زد میں ہے۔ یورپ میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، کبھی کوئی نسل پرست اپنی تیز رفتار گاڑی کسی ہجوم پر چڑھا دیتا ہے تو کبھی کوئی چاقو بردار راہ چلتے لوگوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ انتہا پسندانہ رویوں نے تیزی سے رحجان پایا۔ اس سب میں امریکہ و یورپ کی متعصبانہ پالیسیوں اور مسلم دنیا کے یک رخے فکری بونوں کی تلوار کے ذریعے دنیا پہ غالب آنے کی خواہش نے بھی فکری توازن کو بری طرح متاثر کیا۔ القاعدہ کے فکری رویوں نے دنیا کے امن پسندوں کو مشکل میں ڈالا۔ کئی نام نہاد جہادی گروہ مذہب کے نام پر بنے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔ اسامہ بن لادن افغانستان میں چھپا بیٹھا تھا، نائن الیون حملے کے بعد القاعدہ گروپ نے جشن منایا۔ سعودی عرب اور پاکستان میں بھی طالبان نواز گروہوں نے جشن منایا، یہ مگر پاکستان کا ریاستی موقف نہ تھا بلکہ اس نام نہاد افغان جہاد کی باقیات کا جشن تھا، جو روس کے خلاف نام نہاد افغان جہاد میں امریکہ کے فرنٹ لائن تھے۔

پاکستان کا ریاستی موقف وہی تھا، جو جنرل ریٹائرڈ مشرف نے اپنایا تھا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔ پاکستان اگر اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی نہ بنتا تو بھی اس جنگ کے اثرات پاکستانی معاشرے پر پڑنے تھے۔ فرنٹ لائن اتحادی بننے کے بعد پاکستان کے اندر سے ہی ملا فضل اللہ، مولوی صوفی محمد کی اور غازی فورس جیسی انتہا پسند تنظیموں نے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ یوں پاکستان اس جنگ میں اندرونی و بیرونی محاذوں پر مصروف ہوگیا اور اس کی قیمت پاکستان نے بہت بھاری چکائی ہے۔ یہ پاکستان ہی ہے، جس نے القاعدہ کی ٹاپ لیڈر شپ پکڑ کر یا تو امریکہ کے حوالے کی یا پھر کسی نہ کسی مقابلے میں مار ڈالی۔ کالعدم تحریک طالبان، کالعدم جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی سمیت کئی گروپ یکا یک ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے لگے اور آئے دن خودکش حملے ہونے لگے۔ دنیا کے عدل پسند یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد اپنی معیشت کا نقصان کیا اور ایک لاکھ سے زائد عام شہری قربان کئے، جن میں سے پانچ سے سات ہزار سکیورٹی فورسز کے جوان اور افسران بھی شامل ہیں۔ دراصل افغانستان میں امریکہ کی اس جنگی ناکامی اور اس کی طوالت کی کئی وجوہات ہیں، جنھیں صرف طالبان کی گوریلا مہارت کا شاخسانہ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ امریکہ دانستہ طور پر اس خطے میں طویل قیام کا خواہشمند ہے۔ وہ ایران کو بھی قریب سے دیکھنا چاہتا ہے اور چین و روس کی خبر گیری بھی چاہتا ہے۔

ٹرمپ کی پورے جنوبی ایشیا کے لئے نئی پالیسی، امریکہ کی ہیجانی کیفیت کا  بھی مظہر ہے۔ دہشت گرد قوتوں میں سے داعش سب سے خطرناک اور خونخوار قوت ہے۔ امریکہ اسے افغانستان کے مشرقی بارڈر تک لا رہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں سے اسے پاکستان داخل کرسکے یا پھر داعش کے خلاف فضائی کارروائی کے بہانے پاکستانی سرحد کے اندر بھی گاہے گاہے گولہ باری کرسکے۔ انڈیا کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کا کہہ کر ٹرمپ شاید یہ جنگ انڈیا کو بیچنا چاہتا ہے۔ ملکوں کی پالیسیاں وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل بھی ہوتی ہیں۔ امریکہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو یوں قرار دیتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ ایسا قطعی ثابت شدہ تو نہیں۔ پاکستان ہمیشہ کہتا آ رہا ہے کہ افغانستان میں امن خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ہم افغانستان میں امن ضرور چاہتے ہیں اور اس کے لئے کردار بھی ادا کرتے رہیں گے، مگر افغان جنگ کو پاکستان کے اندر نہیں لا سکتے۔ یہ پاکستان کی اس جنگ کے حوالے سے ایک مکمل پالیسی ہے۔ میرا خیال ہے کہ امریکہ اس جنگ کو مزید طوالت دے گا۔ اس جنگ میں اب روس، چین اور ایران کا کردار بھی بڑھتا جائے گا۔

داعش امریکہ کا خطرناک ہتھیار ہے، اسے پروموٹ بھی کرے گا اور دنیا کو اس سے ڈرائے گا بھی۔ پاکستانی معاشرہ قبائلی معاشرہ نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پوری پاکستانی قوم یکجان ہے۔ امریکہ مگر پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا، کبھی یہ کہہ کر کہ افغان طالبان کی کوئٹہ شوریٰ اور پشاور شوریٰ پاکستان میں موجود ہے، تو کبھی حقانی نیٹ ورک کی پشت بانی کا الزام بھی لگاتا رہے گا۔ کبھی یہ کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان اپنی پالیسی میں واضح ہے۔ پاکستان کابل میں امن کے لئے مذاکراتی کردار تو ضرور ادا کرسکتا ہے مگر امریکی خواہش یا کسی اور جنگی حکمت عملی کے تحت افغان جنگ کو کبھی بھی اپنی سرحدوں کے اندر نہیں آنے دے گا۔ خطے میں سیاسی، عسکری اور سفارتی حوالے سے نئے روابط تشکیل پا چکے ہیں۔ یہ روابط سی پیک اور خطے کی عسکری انگڑائیوں  میں ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کی فیصلہ سازی میں بھی اب اہم کردار ادا کریں گے اور بالخصوص خطے میں امریکی مفادات کو زد پہ رکھیں گے۔ امریکہ اس نئی سفارتی تشکیل سے بھی پریشان ہے۔ جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتیں۔ افغانوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے۔ چالیس سالہ طویل جنگوں نے افغانوں کو سوائے در بدری اور نفسیاتی ہیجان کے اور کیا دیا ہے؟ امریکہ پاکستان کو دھمکانے کے بجائے افغان جنگ میں البتہ اپنی غلطیاں دیکھے اور اس جنگ سے چھٹکارے کی کوئی پالیسی تشکیل دے کہ یہی انسانیت اور دنیا کے مفاد میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 664982
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش