0
Monday 28 Aug 2017 20:34

تلعفر کی آزادی، امریکہ اور دہشت گردوں کی بڑی شکست

تلعفر کی آزادی، امریکہ اور دہشت گردوں کی بڑی شکست
تحریر: حسن رشوند

عراق آرمی اور رضاکار فورس الحشد الشعبی نے ایک ہفتے کے اندر اندر تلعفر سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا مکمل خاتمہ کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ تلعفر رقبے کے اعتبار سے بغداد کے بعد ملک کا دوسرا بڑا شہر یا بعض دیگر محققین کی نظر میں بغداد اور موصل کے بعد ملک کا تیسرا بڑا شہر شمار ہوتا ہے۔ گذشتہ ہفتے اتوار کے دن جب عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے تلعفر کی آزادی کیلئے بھرپور آپریشن کے آغاز کا حکم جاری کیا تو بعض حلقے اس بارے میں شک و تردید کا اظہار کر رہے تھے کہ اتنی کم مدت میں یہ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ ان کی نظر میں تلعفر شہر کی مکمل آزادی کیلئے کم از کم دو ماہ کا وقت درکار تھا۔ وہ کئی وجوہات کی بنا پر تلعفر آپریشن کو موصل آپریشن سے ملتا جلتا قرار دے رہے تھے۔

مزید دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عراقی فورسز نے دشمن کو غافل کر کے اچانک حملہ ور ہونے کی پالیسی بھی اختیار نہ کی بلکہ آپریشن سے پہلے ہوائی جہاز کے ذریعے تلعفر شہر پر پرچیاں پھینکی گئیں جن میں مقامی شہریوں اور اسی طرح دہشت گرد عناصر کو خبردار کیا گیا۔ ان پرچیوں پر لکھا تھا: "تلعفر میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف آپریشن فیصلہ کن ہو گا لہذا ضروری ہے مقامی افراد اس کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔" یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ عراق آرمی اور حشد الشعبی نے آپس میں مکمل تعاون اور ہم آہنگی کے ذریعے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس آپریشن کا آغاز کیا اور ان کا مقصد موصل آپریشن کے برعکس کم از کم مدت میں قوم کو حتمی فتح کی مبارکباد پیش کرنا تھا۔

لیکن بعض حلقوں کی پیشگوئی کے برعکس تلعفر شہر کی آزادی کیلئے شروع کیا گیا آپریشن اتنی کم مدت میں کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوا؟ اس عظیم کامیابی کی اصل وجوہات گذشتہ چند ماہ کے دوران تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ عناصر کی مسلسل شدید ناکامیاں، عراق آرمی اور عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی میں بے مثال تعاون اور اتحاد اور عراقی حکومت کی جانب سے حشد الشعبی کو اس آپریشن میں شامل نہ کرنے پر مبنی امریکی احکامات پر توجہ نہ دینے پر مشتمل ہیں۔ درحقیقت عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کا حالات کو صحیح انداز میں درک کرنے اور امریکہ، جو عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے شدید مخالفین میں سے، کے رعب میں نہ آنے کے باعث ہی یہ عظیم کامیابی ممکن ہوئی ہے۔ لہذا دہشت گرد عناصر کے پست حوصلے، عراق آرمی کے اعلی سطحی کمانڈرز کی جانب سے آپریشن کے بھرپور اور فیصلہ کن ہونے پر تاکید اور امریکہ کی جانب سے داعش کی بقا سے مایوسی کے سبب تلعفر شہر کی اتنی مختصر مدت میں کامیابی ممکن ہوئی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ عنقریب اپنے ہونے والے بڑے نقصان سے آگاہ ہو چکا تھا لہذا اس نے آخری کوشش کے طور پر عراقی رضاکار فورس حشد الشعبی کو ہوائی حملے کا نشانہ بنایا تاکہ اس طرح تلعفر سے تکفیری دہشت گرد عناصر کے فرار کا راستہ مہیا کر کے انہیں حتمی نابودی سے نجات دلا سکے۔ عراقی فورسز کیلئے تلعفر شہر کی اسٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ شہر سرحدی مثلث کے وسط میں واقع ہے۔ ایسی سرحدی مثلث جو شام، عراق اور ترکی پر مشتمل ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے 2014ء میں تلعفر شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اس اسٹریٹجک پوزیشن سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس مدت میں ان تینوں ممالک میں نقل و حرکت کیلئے اس شہر کو استعمال کیا گیا۔ تلعفر کی مناسب اسٹریٹجک پوزیشن کی مدد سے تکفیری دہشت گرد عناصر شام اور عراق کی سرحد پر انجام پانے والی عراق فورسز اور شام آرمی کی تمام نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

مزید برآں، تلعفر اور شام کے شہر رقہ کے درمیان مواصلاتی راستہ بھی اس شہر کی اہم اسٹریٹجک خصوصیات میں شمار ہوتا ہے۔ اب تلعفر کی آزادی کے نتیجے میں عراق اور شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور وہ ایکدوسرے کی لاجسٹک سپورٹ کے قابل نہیں رہے۔ تلعفر کی آزادی سے شام اور عراق کی سرحد پر واقعہ دو سو کلومیٹر علاقہ بھی آزاد کروانے کا راستہ کھل گیا ہے اور اب عراق آرمی اور حشد الشعبی کا اگلا ہدف یہ سرحدی علاقہ دہشت گرد عناصر سے پاک کروانا ہو گا۔ درج ذیل دو نکات تلعفر کی آزادی میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں:

1)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موصل سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے کے بعد امریکہ کو بڑے نقصان اور شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ہر قیمت پر تلعفر میں داعش کو نابودی سے بچا لے گا کیونکہ عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا واحد بہانہ داعش کی موجودگی ہے۔ لہذا امریکی حکام نے پوری کوشش کی کہ اولاً عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی جانب سے تلعفر آپریشن کے آغاز کا حکم جاری نہ ہو۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ عراقی حکومت اور وزیراعظم ملک سے داعش کے خاتمے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں تو امریکی حکام نے عراقی حکام پر دباو ڈالنا شروع کر دیا کہ تلعفر کی آزادی کیلئے انجام پانے والے آپریشن میں عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کو شامل نہ کیا جائے۔ جب اس کا یہ مطالبہ بھی نظرانداز کر دیا گیا تو اس نے طیش میں آ کر حشد الشعبی کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ لہذا اب جبکہ تلعفر مکمل طور پر داعش کے قبضے سے آزاد ہو چکا ہے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں سب سے بڑی شکست اور ناکامی کا سامنا امریکہ کو کرنا پڑا ہے۔

2)۔ امریکہ اور دہشت گرد عناصر کی شکست کے مقابلے میں حقیقی فتح عراقی حکومت کو حاصل ہوئی ہے۔ عراقی حکومت نے موصل اور تلعفر کی آزادی کیلئے انجام پانے والے آپریشنز میں حشد الشعبی کو شامل نہ کرنے کیلئے امریکی دباو کو یکسر طور پر مسترد کر دیا۔ اس طرح عراقی حکومت نے پوری طاقت سے اپنے اس قیمتی سرمائے کی حفاظت کی اور عراق آرمی اور حشد الشعبی کے درمیان اتحاد کے ذریعے ملک کی قومی سلامتی کو یقینی بنا ڈالا۔ یہ اقدام درحقیقت عراقی حکومت اور ملت کی جانب سے غیر ملکی خاص طور پر امریکی فورسز کو ملک سے نکال باہر کرنے اور اپنے پاوں پر کھڑا ہو کر ملک کی سیکورٹی صورتحال کو خود بہتر بنانے کے عزم کی راہ میں پہلا قدم شمار ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 665002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش