0
Tuesday 29 Aug 2017 00:29

باقرالعلوم (ع) کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر

باقرالعلوم (ع) کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب 57 ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔1 علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادر میں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھر میں آواز غیب آنے لگی اور جب نو ماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اور شب ولادت ایک نور ساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کر آسمان کی طرف رخ فرمایا اور (آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے، ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ، ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اور صاف متولد ہوئے۔2 آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرور کائنات کے تعیین کے موافق ”محمد“ تھا۔ آپ کی کنیت ”ابو جعفر“ تھی اور آپ کے القاب کثیر تھے، جن میں باقر، شاکر اور ہادی زیادہ مشہور ہیں۔3 آپ 57 ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے۔ 60 ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت بنا، 64 ھ میں معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم بادشاہ رہے، 65 ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا۔ پھر 86 ھ سے 96 ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے 95 ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پر فائز کر دیا، اسی 95 ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا اور 114 ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک، عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اور ہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے۔4

علامہ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ”علمنا منطق الطیر و اوتینا من کل شئی“ ہمیں پرندوں تک کی زبان سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے5۔ روضة الصفاء میں ہے: خدا کی قسم! ہم زمین اور آسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم ہی شجرہ نبوت اور معدن حکمت ہیں، وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اور حسد کرتے ہیں۔ علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث، علم سنن، تفسیر قرآن، علم السیرۃ، علوم، فنون و ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر علیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین و امام حسین کی اولاد میں سے کسی اور سے ظاہر نہیں ہوئے۔6 صاحب صواعق محرقہ لکھتے ہیں: عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار کے راسخ اور گہرے نشانات نمایاں ہوگئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اور عاجز و ماندہ ہیں۔ آپ کی ہدایات و کلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے۔7 علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقر علامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے، آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے۔8 علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے اور آپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔9

امام باقر علیہ السلام نے تقریباً چار سال کی عمر میں کربلا کا خونین واقعہ دیکھا۔ آپ اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے پاس موجود تھے۔ آپ کی شرافت اور بزرگی کو اس حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک نیک صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری سے فرمایا: اے جابر، تم زندہ رہوگے اور میرے فرزند محمد ابن علی ابن الحسین سے کہ جس کا نام توریت میں باقر ہے، ملاقات کروگے، ان سے ملاقات ہونے پر میرا سلام پہنچا دینا۔ جابر نے ایک طویل عمر پائی اور یوں وہ دن بھی آیا کہ امام باقر علیہ السلام کے سامنے جابر کھڑا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ آپ امام باقر ہیں تو جابر نے آپ کے قدموں کا بوسہ لیا اور کہا اے فرزند پیغمبر میں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام و درود قبول فرمائیں۔ انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا تھا۔ آپ کا علم بھی دوسرے تمام ائمہ علیہم السلام کی طرح چشمہ وحی سے فیضان حاصل کرتا تھا۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری آپ کے پاس آتے اور آپ کے علم سے بہرہ مند ہوتے اور بار بار عرض کرتے تھے کہ اے علوم کو شگافتہ کرنے والے، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بچپن ہی میں علم خدا سے مالا مال ہیں۔ آپ کا علمی مقام ایسا تھا کہ جابر بن یزید جعفی ان سے روایت کرتے وقت کہتے تھے، وصی اوصیا اور وارث علوم انبیاء محمد بن علی بن حسین نے ایسا کہا ہے۔ حضرت امام باقر علیہ السلام نے علوم و دانش کے اتنے رموز و اسرار وضع کئے ہیں کہ سوائے دل کے اندھے کے اور کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے آپ نے تمام علوم شگافتہ کرنے والے اور علم و دانش کا پرچم لہرانے والے کا لقب پایا۔ آپ نے مدینہ میں علم کی ایک بڑی دانشگاہ بنائی تھی، جس میں سینکڑوں درس لینے والے افراد آپ کی خدمت میں پہنچ کر درس حاصل کیا کرتے تھے۔

امام باقر علیہ السلام کے مکتب فکر میں مثالی اور ممتاز شاگردوں نے پرورش پائی تھی، ان میں سے کچھ افراد یہ ہیں:
1۔ ابان بن تغلب: ابان نے تین اماموں کی خدمت میں حاضری دی، چوتھے امام، پانچویں امام اور چھٹے امام۔ ابان کی فقہی منزلت کہ وجہ سے ہی امام باقر علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کے لئے فتویٰ دو، تاکہ لوگ ہمارے شیعوں میں تمہاری طرح کے میرے دوست دار کو دیکھیں۔
2۔ زراۃ ابن اعین: امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ابو بصیر، محمد ابن حکم، زراۃ ابن اعین اور بریدہ ابن معاویہ نہ ہوتے تو آثار نبوت مٹ جاتے، یہ لوگ حلال اور حرام کے امین ہیں۔
3۔ کمیت اسدی: ایک انقلابی اور بامقصد شاعر تھے۔ دفاع اہل بیت کے سلسلے میں لوگوں کو ایسی جھنجھوڑنے والی اور دشمنوں کو اس طرح ذلیل کرنے والی شاعری تھی کہ دربار خلافت کی طرف سے موت کی دھمکی دی گئی۔ جب کمیت نے امام کی مدح میں چند اشعار پڑھ لئے تب امام نے اسے اپنا لباس دے دیا۔
4۔ محمد ابن مسلم: امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے سچے دوستوں میں سے تھے۔ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے، لیکن امام کے علم بیکراں سے استفادہ کرنے کے لئے مدینہ تشریف لائے۔ ایک دن ایک عورت محمد ابن مسلم کے گھر آئی اور سوال کیا کہ میری بہو مرگئی ہے اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ موجود ہے۔ ہم کیا کریں؟ محمد نے کہا کہ امام باقر علیہ السلام نے جو فرمایا ہے، اس کے مطابق تو پیٹ چاک کرکے بچے کو نکال لینا چاہئے اور پھر مردہ کو دفن کر دینا چاہئے۔ پھر محمد نے اس عورت سے پوچھا کہ میرا گھر تم کو کیسے ملا؟ عورت بولی میں یہ مسئلہ ابو حنیفہ کے پاس لے گئی۔ انہوں نے کہا محمد ابن مسلم کے پاس جاو اور اگر فتویٰ دیں تو مجھے بھی بتا دینا۔

امام باقر علیہ السلام کی رہبری کا 19 سالہ زمانہ نہایت ہی دشوار حالات اور ناہموار راہوں میں گزرا۔ اپنے آخری ایام میں امام نے اپنے بیٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان کے پیسوں میں سے ایک حصہ 800 درہم دس سال کی مدت تک عزاداری میں صرف کریں۔ عزاداری کی جگہ میدان منٰی اور عزاداری کا زمانہ حج کا زمانہ قرار دیا گیا۔ حج کا زمانہ دور افتادہ اور نا آشنا لوگوں اور دوستوں کی وعدہ گاہ ہے، اگر کوئی پیغام ایسا ہو کہ جسے تمام عالم اسلام تک پہنچانا ہو تو اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں اور امام نے بھی عزاداری کے لئے حج کے ایام اور اس جگہ کو معین کیا، تاکہ ہر سال مجلس عزاء برپا ہونے پر ہر آدمی یہ سوال کرنے پر مجبور ہو کہ آخر کس کے لئے یہ مجلسیں برپا ہوتی ہیں اور عالم اسلام کی بلند شخصیت محمد ابن علی ابن الحسین علیہ السلام کی موت آخر طبیعی نہ تھی۔ ان کو کس نے قتل کیا اور کیوں؟ آخر ان کا جرم کیا تھا، کیا ان کا وجود خلیفہ کے لئے خطرے کا باعث تھا؟ دسیوں ابہام اور اس کے پیچھے اتنے ہی سوالات اور جستجو والی باتیں اور صاحبان عزاء اور صاحبان معرفت کی طرف سے جوابات کا ایک سیلاب۔ 7 ذی الحجہ 114 ہجری کو 57 سال کی عمر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ ظالم و جابر بادشاہ ہشام ابن عبد الملک نے آپ کو زہر  دلوایا اور اس زہر کے اثر سے آپ کی شہادت واقع ہوئی اور دنیائے علم و دانش ہمیشہ کے لئے سوگوار ہوگئی۔ اس آفتاب علم و ہدایت کو بھی ظالموں نے باقی رہنے نہ دیا۔ شہادت سے پہلے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ارشاد فرمایا: میں آج کی رات اس دنیا سے کوچ کر جاوں گا، کیونکہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے شربت پیش کر رہے تھے، جسے میں نے پیا ہے، وہ مجھے زندگی جاوید اور اپنے دیدار کی بشارت دے رہے تھے۔ دوسرے دن اس آفتاب علم و دانش کے دریائے بیکران کو جنت البقیع میں امام حسن علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کے پہلو میں دفن کر دیا گیا، لیکن وقت کے ظالم و جابر حکومتوں نے اس قبر مطہر پر سائباں بھی گوارہ نہ کیا۔ دن کی دھوپ اور رات کی شبنم میں یہ قبر مطہر آج بھی مظلومیت کی مجسم تصویر ہے۔

حوالہ جات:

 1۔ اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵
۲۔جلاء العیون ص ۲۵۹
۳۔ مطالب السؤال ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱
4۔اعلام الوری ص ۱۵۶
5۔ مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱
6۔ کتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷
۷۔صواعق محرقہ ص ۱۲۰
8۔ وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰
۹۔ تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱
۱۰۔ تاریخ اسلام
خبر کا کوڈ : 665057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش