0
Tuesday 29 Aug 2017 13:55

اللہ ہمیں امریکہ اور اسکے یاروں سے محفوظ رکھے

اللہ ہمیں امریکہ اور اسکے یاروں سے محفوظ رکھے
تحریر: تصور حسین شہزاد

لیجیئے صاحب! کہتے ہیں "ہمتِ مرداں مددِ خدا"، ہمیں تو سکولوں میں بھی یہی پڑھایا گیا تھا، کہ ہمت کرو گے تو اللہ بھی مدد کرے گا۔ ہمیں تو بچپن سے ہی اس "قولِ زریں" پر آنکھیں بند کرکے یقین تھا اور اب بھی ہے، مگر ہماری حکومت کو اس جملے کی صداقت کا یقین اَب ہوا ہے اور امریکی وار سہنے کے بعد حکومت کو ہوش آیا ہے اور پہلی بار پاکستان نے کھل کر امریکہ بہادر کو کہہ دیا ہے کہ "بس، بہت ہوگئی، پاکستان کو ماسی ویڑھا نہ سمجھا جائے" اور پاکستان نے پہلی بار امریکہ کو واضح کیا ہے کہ قائم مقام امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان اور افغانستان "ایلس ویلز" تشریف نہ لائیں، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع اور بے تُکے بیان کے بعد اب پاکستان کے غیور عوام شدید غصے کی حالت میں ہیں۔ یاد رہے کہ ایلس ویلز نے 28 اگست کو پاکستان کی پاک زمین پر اپنے قدم رنجا فرمانے تھے، جس کے بعد انہوں نے ڈھاکہ اور کولمبو بھی جانا تھا۔ خیر اس دورہ منسوخی کا کریڈٹ طلباء تنظیم آئی ایس او کو بھی جاتا ہے، جنہوں نے پوری تیاری کر رکھی تھی کہ ایلس ویلز کے دورے کے موقع پر امریکہ کیخلاف بھرپور احتجاج کرکے امریکہ کو اس کی حیثیت یاد دلائی جائے گی۔ آئی ایس او نے اس حوالے سے پورے ملک سے کارکنوں کو "چوکس" رہنے کی کال بھی دے دی تھی، لیکن بھلا ہو ہمارے اداروں کا جنہوں نے قبل ازوقت ہی یہ بھانپ لیا اور امریکہ کی عزت بچا لی۔

امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کیساتھ وفا نہیں کی۔ امریکی روزِاول سے یہ سمجھتے ہیں کہ "پاکستان ایک بوتل شراب اور ڈالر کیلئے اپنی ماں بھی بیج دیتے ہیں۔" نجانے کس کمینہ صفت شخص نے امریکیوں کے سامنے غیور پاکستانی قوم کا یہ تاثر قائم کیا تھا، حالانکہ امریکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی جس کام کی ٹھان لیں وہ کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ روس کو شکست دینے کیلئے امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ناکامی سے دوچار ہوا، اور جب تک پاکستان کی مدد نہیں لی روس کا بال بھی بیگا نہیں کر سکا۔ امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ "مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی" یہ وہ قوم ہے کہ
دشت تو دشت، صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
اس کے باوجود امریکی سمجھتے ہیں کہ ہمیں خریدنا بہت آسان ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔ اب پاکستانی قوم کے دباؤ کے پیش نظر حکومت اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اب امریکہ کو "ڈومور" کا مطالبہ مہنگا پڑے گا۔ ہمارے حکمرانوں کی خامی یہ ہے کہ انہوں نے ہر بار امریکہ پر یقین کیا ہے اور امریکہ نے ہر بار دھوکہ دیا ہے۔ جیسے بچھو کی فطرت ہے ڈسنا، اسی طرح امریکی فطرت ہے دھوکہ دینا، لیکن ہمارے حکمرانون کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی۔

اب جب میاں نواز شریف کو امریکہ کی جانب سے دھچکا لگا ہے تو موصوف اب بھی ڈھکے چھپے انداز میں امریکہ پر تنقید کر رہے ہیں، کھل کر اب بھی نہیں بول رہے۔ وفاقی محکمے کے ایک وزیر نے تو ایک محفل میں کھل کر حقائق سے پردہ اُٹھا دیا اور امریکہ کو خوب لتاڑا، موصوف وزیر صاحب کہتے ہیں امریکہ نے ہمیں سی پیک منصوبہ روکنے کا کہا، میاں صاحب (نواز شریف) نے انکار کر دیا۔ اس وقت امریکہ نے دھمکی دی کہ آپ اقتدار میں نہیں رہیں گے، اور اب میاں صاحب گھر بیٹھے ہیں۔ وزیر موصوف فرماتے ہیں یہ امریکہ کی ہی سازش تھی جس کو انتہائی منظم انداز میں پاکستان میں موثر بنایا گیا اور وزیر صاحب افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اس میں ہمارے ادارے اور سیاسی جماعتیں "استعمال" ہوگئی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 28 مئی کو امریکہ نے ہمیں روکا تھا کہ ایٹمی دھماکے نہ کریں، لیکن میاں صاحب وطن کی خاطر ڈٹ گئے اور دھماکے کر دیئے۔ امریکہ کے دل میں تب سے میاں صاحب کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی اور اب امریکہ کو موقع ملا ہے تو انہوں نے میاں صاحب کو گھر بھیج دیا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب فرماتی ہیں میاں صاحب اقتدار میں ہوتے تو امریکہ کی جرات ہی نہیں تھی کہ ایسا بیان جاری کرتا۔ بی بی کچھ خدا کا خوف کریں، اب میاں صاحب اقتدار میں نہیں، ان کی جماعت تو ہے، وزیراعظم تو مسلم لیگ کا ہی ہے، وہ کیوں نہیں بولا ابھی تک امریکہ کیخلاف، صرف آرمی چیف اور وزیر خارجہ نے بیانات دیئے ہیں، باقی حکومت تو ایسے چپ ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، حالانکہ ٹرمپ کا یہ بیان دینا محض بیان بازی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے بہت بڑی منصوبہ بندی کار فرما ہے اور مستقبل قریب میں خدا نہ کرے امریکہ کا اگلہ نشانہ پاکستان ہی بننے جا رہا ہے۔ اگر ہمارے حکومت کو نواز شریف کا دکھ بانٹنے سے ذرا سی فرصت ملے تو اسے اس بیان کا عمیق جائزہ لینا چاہیئے اور اس کا قبل از وقت سدباب کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان نے اس بار بھی روایتی غفلت کا مظاہرہ کیا تو اس کے نتائج خدا نہ کرے، بھیانک نکل سکتے ہیں۔ یہ قوم بہت بہادر ہے، کسی بھی بلا سے لڑا دیں، یہ لڑ جائے گی، لیکن اس کو باندھ کر نہ مروائیں۔ پرویز مشرف کا امریکہ کیساتھ معاہدہ آج بھی ذلت و رسوائی کی عظیم مثال ہے، جس میں امریکی جب چاہیں آکر ڈرون حملہ کر دیں۔ امریکی جب چاہیں ایبٹ آباد جیسے حساس شہر سے اسامہ بن لادن کو اٹھا کر لے جائیں اور ہماری سکیورٹی فورسز کو خبر ہی نہ ہو۔ جو کام پرویز مشرف نے کیا ہے، وہ اگر کوئی سول حکومت کرتی تو آج ہماری فوج نے اسے غدار قرار دے کر پھانسی پر لٹکا دینا تھا، مگر آرمی اس لئے چپ ہے کہ پرویز مشرف سابق چیف ہے۔ آرمی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ اب "سابق" آرمی چیف ہے۔ جرم تو جرم ہوتا ہے کوئی بھی کرئے۔

لندن سے اطلاع آئی ہے کہ موصوف روز شام میں "خصوصی محافل" کا اہتمام کرتے ہیں، کھاتے "پیتے" ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ان کی انہیں حرکات کی وجہ سے ان کی پارٹی کے اندر بھی پھوٹ پڑ چکی ہے، اور گذشتہ روز 10 ڈاؤئننگ سٹریٹ کے باہر انہی کی پارٹی کے لوگوں نے پرویز مشرف کیخلاف مظاہرہ بھی کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے اور یہ پابندی اس وقت تک برقرار رکھی جائے جب تک وہ پاکستان جا کر عدالتوں کا سامنا نہیں کرتے۔ کچھ یار دوست تو یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں برطانوی حکومت نے خود دعوت دی ہے کہ وہ لندن میں ہی قیام کریں اور ضرورت پڑنے پر انہیں پاکستان بھیج دیا جائے گا، اسی مقصد کیلئے ملالہ یوسفزئی کو بھی تیار کیا جا رہا ہے، انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ بھی دلوا دیا گیا ہے، جہاں وہ "طرز حکمرانی" سیکھے گی اور ایک دن اسے بھی پاکستان میں لا کر عوام پر مسلط کر دیا جائے گا۔ عوام پھر ایک نئے دھوکے میں آجائیں گے اور پھر ہم پر ویسے ہی حکمران مسلط ہو جائیں گے، جنہیں امریکہ صرف اس وقت برا لگتا ہے جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے۔ پھر جب انہیں اس نفرت کی قیمت مل جاتی ہے تو وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن جاتے ہیں۔ اللہ ہمیں امریکہ اور اس کے آلہ کاروں، سہولت کاروں، یاروں اور پاکستان کے غداروں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
خبر کا کوڈ : 665218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش