QR CodeQR Code

امریکی دھمکی، سعودی بے اعتنائی اور ہماری پالیسی

29 Aug 2017 17:41

اسلام ٹائمز: ماضی میں کبھی ہماری خراب کارکردگی کے باعث اگر امریکہ بہادر ناراض بھی ہوتا تو ہم اسے کسی نہ کسی طرح راضی کر ہی لیتے تھے۔ ان راضی ناموں میں مشترکہ مفادات کے نام پر وہ غیر اعلانیہ ضرورتیں دونوں جانب کارفرما ہوتی تھیں، جو ایک دوسرے کو جوڑے رکھتی تھیں، تاہم اب کے ایسا نہیں ہے۔ اب امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے بھارت کیصورت میں ایسا حلیف دستیاب ہے کہ جو خطے میں اسکے مفادات کا بہترین نگران اور چوکیدار ثابت ہونے کیساتھ ساتھ بدمعاشی و تھانیداری کے معیار پہ بھی پورا اترتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو بھی یہ سمجھ لگ چکی ہے کہ نوکری چاہے جتنی بھی پرانی ہو، اعتماد سے عاری ہوتی ہے اور نوکری کے بجائے تجارت کے پیشے میں زیادہ آمدن ہے، چنانچہ امریکی خدمت پہ ہی انحصار کے بجائے چین کیساتھ شراکت داری میں زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے۔ دونوں کی ترجیحات بدلنے کے باعث چھوٹی موٹی غلط فہیمیاں بھی اب بڑی دوریوں میں بدلنے لگی ہیں۔ امریکی صدر نے جن وجوہات پہ پاکستان کو معتوب ٹھہرایا ہے۔ انکی حقیقت سے پاکستان اور امریکہ دونوں اچھی طرح آگاہ ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

پاکستان کیلئے امریکی دھونس کوئی نئی بات تو نہیں مگر امریکی صدر نے جارحانہ لب و لہجے میں پاکستان کو حال ہی میں جس طرح ڈرایا دھمکایا ہے، اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ ماضی میں کبھی ہماری خراب کارکردگی کے باعث اگر امریکہ بہادر ناراض بھی ہوتا تو ہم اسے کسی نہ کسی طرح راضی کر ہی لیتے تھے۔ ان راضی ناموں میں مشترکہ مفادات کے نام پر وہ غیر اعلانیہ ضرورتیں دونوں جانب کارفرما ہوتی تھیں کہ جو ایک دوسرے کو جوڑے رکھتی تھیں، تاہم اب کے ایسا نہیں ہے۔ اب امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے بھارت کی صورت میں ایسا حلیف دستیاب ہے کہ جو خطے میں اس کے مفادات کا بہترین نگران اور چوکیدار ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ بدمعاشی و تھانیداری کے معیار پہ بھی پورا اترتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو بھی یہ سمجھ لگ چکی ہے کہ نوکری چاہے جتنی بھی پرانی ہو، اعتماد سے عاری ہوتی ہے اور نوکری کے بجائے تجارت کے پیشے میں زیادہ آمدن ہے، چنانچہ امریکی خدمت پہ ہی انحصار کے بجائے چین کے ساتھ شراکت داری میں زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے۔ دونوں کی ترجیحات بدلنے کے باعث چھوٹی موٹی غلط فہیمیاں بھی اب بڑی دوریوں میں بدلنے لگی ہیں۔ امریکی صدر نے جن وجوہات پہ پاکستان کو معتوب ٹھہرایا ہے۔ ان کی حقیقت سے پاکستان اور امریکہ دونوں اچھی طرح آگاہ ہیں۔

ان دھمکیوں کے بعد وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے فوری طور پر سعودی عرب کی جانب رخت سفر باندھا۔ وزیراعظم پاکستان کا دورہ سعودی عرب وقت، حالات اور شخصیات کے چناؤ کے اعتبار سے انتہائی کمزور فیصلہ تھا، جس سے پاکستان کی جانب سے انتہائی کمزور پیغام گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے سعودی عرب جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب کثیر الملکی اسلامی عسکری اتحاد کا سربراہ ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، چنانچہ امریکہ کے جارحانہ رویے کیخلاف سب سے پہلے سعودی عرب سے اظہار یک جہتی کا حصول ضروری ہے۔ حالانکہ جس کثیر الملکی فوجی اتحاد کا سربراہ سعودی عرب ہے۔ اسی اتحاد کی پہلی نشست کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی اور اس پہلی نشست میں بھی کانفرنس اور امریکہ کے صدر نے بھارت کے کردار کا خیر مقدم اور بھارت کو دہشتگردی کا شکار قرار دیا تھا جبکہ پاکستان پہ بالواسطہ الزام لگایا گیا تھا۔ چنانچہ کثیر الملکی فوجی اتحاد کو سامنے رکھا جائے تو سعودی عرب امریکہ کے حامی اور پاکستان کے مخالف کیمپ کا تو حصہ بن سکتا ہے، امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ظاہر و باطن دونوں حوالوں سے امریکہ اسرائیل کیمپ کا حصہ ہے، پاکستانی وزیراعظم کے فوری دورہ سعودی عرب سے یہ بھی تاثر ملا کہ پاکستان ناراض امریکہ بہادر کو رام کرنے کیلئے سعودی عرب سے درخواست گزار ہے۔

یہ المیہ تو اپنی جگہ ہے کہ پاکستان نے سعودی چینل کے ذریعے امریکی ناراضگی دور کرنے کی اپنی سی کوشش کی، اس سے بڑھ کر المیہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق پاکستان کو اپنے تعاون کی یقین دہانی تو درکنار درخواست وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو اولاً تو ائیرپورٹ سے ہی واجبی سا پروٹوکول نصیب ہوا، پھر بعدازاں سعودی شاہ سلمان نے ملاقات کے لئے وقت ہی نہیں دیا اور شاہد خاقان عباسی کو ولی عہد سے ملاقات پہ ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ایک جانب تو سعودی عرب جانے کیلئے وقت کا انتخاب ہی غلط تھا، جس سے امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو بڑا کمزور پیغام گیا، دوسری جانب وزارت عظمٰی کے منصب پہ ایک ایسی شخصیت موجود تھی جو کہ قطری گیس کی سب سے بڑی کلائنٹ بھی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نہ صرف قطر سے ایل این جی کے بڑے خریدار ہیں بلکہ سعودی عرب جانے سے محض ایک دن قبل انہوں نے قطر سے پاکستان کیلئے حاصل کی جانے والی گیس کی مقدار بھی دگنی کرنے کا اعلان کیا تھا، سعودی عرب اور قطر کے مابین تعلقات و تنازعہ کسی سے پوشیدہ تو ہے نہیں۔ اب سعودی عرب جو ایک جانب امریکی حلیف، دوسری جانب قطر کا حریف کیونکر پاکستان کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرسکتا تھا۔؟

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کہیں تعلقات بڑھانے میں ملک و قوم کا مفاد ہوتا ہے اور کہیں مقتدر عناصر ذاتی مفادات کی خاطر زبردستی کے تعلقات بنائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے قومی مفاد کا نام دیتے ہیں، جو کہ صریحاً دھوکہ ہوتا ہے۔ ملک میں متحرک سعودی لابی جو کہ سعودی عرب سے اظہار محبت کا ویلنٹائن روزانہ منانے پہ کمربستہ ہے، اس نے بھی سعودی بے اعتنائی پہ چپ سادھ رکھی ہے۔ دوسری جانب ایران نے نہ صرف پاکستان کی تائید و حمایت کی بلکہ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کو خطے کیلئے مضر امن قرار دیا۔ پاکستان ایران ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں اور ایک دوسرے کے دفاعی مورچے بننے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں۔ دونوں کی عسکری قوت اس قابل ہے کہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو خاک چاٹنے پہ مجبور کرسکتے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ ایران اپنے دوستوں و دشمنوں کو مشخص کرنے میں یا قومی مفادات کی شناخت میں کسی اگر مگر یا شش و پنج کا شکار نہیں جبکہ ہم زبردستی کے ڈھول گلے میں لٹکا کر کہیں دوستی تو کہیں دشمنی کا نقارہ پیٹنے پہ مجبور ہیں اور ہر عشرے بعد ہمارے دوستوں و دشمنوں کی فہرست میں تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے۔

جس امریکی تھپکی پہ ہم افغانستان میں داخل ہوئے اور روس سے لڑے، اسی امریکہ کیخلاف آج روس سے حمایت و تائید مانگنے چلے ہیں۔ پہلے غیر ریاستی عناصر امریکی خواہش پہ تخلیق کئے پھر انہیں مجاہدین کا رتبہ دیا اور پھر انتہا پسند اور آخر کار دہشتگرد قرار دے دیا۔ جس چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی قرار پائی، اس چین کو بھی ہم سے درخواست کرنا پڑی کہ امریکی خواہش پر سنکیانگ میں انتہاپسندوں کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے اور انہیں آپ کے دفاع پاکستان میں شامل بعض اکابرین کی سرپرستی حاصل ہے۔ بعض ذرائع نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ امریکی ڈالرز کے عوض ایک بڑی مذہبی جماعت جو کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں بڑا اثر و رسوخ رکھتی ہے، چین میں بدامنی پھیلانے کے واسطے تیار دہشتگرد وہاں داخل کر رہی ہے۔ چینی میڈیا رپورٹس نے پاکستان کی جس مذہبی شخصیت کو سنکیانگ شورش کی بنیادی وجہ قرار دیا، وہ مذہبی شخصیت طالبان سے مذاکرات کے نام پر قائم کمیٹی کی نہ صرف سربراہ تھی بلکہ وزیراعظم سے لیکر اہم عہدیداروں سے باقاعدہ ملاقاتوں میں تاحال مصروف رہتی ہے۔ بلوچستان میں ہماری حکومتی رٹ کتنی مضبوط ہے، اس کا اندازہ تو وہاں دہشتگردی کے واقعات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے، لیکن انہی دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کیلئے جب ایران مدد کی پیشکش کرتا ہے تو ہم اس پیشکش کو پاکستان کی خود مختاری پہ حملہ سمجھتے ہیں۔ بات دور نکل گئی دراصل پاکستان کی پالیسی، اہداف، دوست، دشمن مشخص نہیں ہیں۔

وہی بھارت جو روز اول سے پاکستان کے وجود کا دشمن ہے، وہ ہمارے دل میں موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ جو ایران 65ء کی جنگ میں اپنی زمین، ائیرپورٹ اور اسلحہ فراہم کرتا ہے، عراق کیساتھ جنگ میں ہم غیر جانبداری کا ماسک چڑھا کر اس کا منہ چڑاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس سے گیس کا معاہدہ کرتے ہیں اور جب وہ سارے انتظامات مکمل کر لیتا ہے تو ہم منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ ہمارے دوست ناراض ہوتے ہیں، اس لئے ہم گیس نہیں لیتے، حالانکہ ہمارے گھروں میں چولہے گیس سے جلنے ہیں، ریال و ڈالر سے نہیں۔ جن گھروں کے چولہے ریال و ڈالر پہ چلتے ہیں، وہ پوری قوم کے ذہن میں یہ بٹھانا چاہتے ہیں کہ اس ملک کا ہانڈی چولہا ریال و ڈالر کا مرہون منت ہے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے، فریب ہے۔ امریکی و سعودی دوستی کی حقیقت اب سب کے سامنے ہے۔ جو انڈونیشا 65ء کی جنگ میں ہمارے لئے اپنی نیوی بھیجتا ہے، انڈونیشا کے اسی صدر کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے ہمارا ہی عملہ امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کرتا ہے۔ صدر سوئیکارنو کو ہٹانے کیلئے جس، جس پاکستانی نے امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا، ان سب کے تمام بچوں کو امریکہ میں بہترین رہائش، تعلیم اور دیگر سہولیات فری آف کاسٹ فراہم کی گئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب کھلی آنکھوں سے ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی تمیز کرکے آگے بڑھنا چاہیئے۔ امریکہ کے خلاف اس مشکل وقت میں ان تمام دوستوں کو اپنی خارجہ پالیسی میں مقدم رکھنا چاہیئے کہ جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ پاکستانی قوم چین، ایران سمیت ان سب ممالک کی ممنون ہے کہ جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کو اپنی بھرپور حمایت کی یقین دھانی کرائی اور جنگی جنون میں مبتلا بیمار سوچ امریکہ کیخلاف کلمہ حق ادا کیا۔


خبر کا کوڈ: 665280

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/665280/امریکی-دھمکی-سعودی-بے-اعتنائی-اور-ہماری-پالیسی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org