0
Friday 1 Sep 2017 00:09

امام حسینؑ کا علمائے دین اور عمائدین ملت سے منٰی میں خطاب(1)

امام حسینؑ کا علمائے دین اور عمائدین ملت سے منٰی میں خطاب(1)
تالیف: محمد صادق نجمی
ترجمہ: علی مرتضٰی زیدی


شریعت کی بالا دستی، دین کو تحریف (deviation) اور بدعتوں سے محفوظ رکھنا، اسلامی معاشرے میں احکام الٰہی کی ترویج و نفاذ اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام، ائمہ معصومین کی جدوجہد میں سرفہرست مقام پر رہے ہیں۔ تاریخ ائمہ پر نظر رکھنے والا اور ائمہ کے اقوال و فرامین کا مطالعہ کرنے والا ہر فرد اس حقیقت سے آشنا ہے۔ امام حسین (ع) کا معروف خطبہ ء منٰی، آنجناب کی زبانی ائمہ کے انہیں مقاصد کا اظہار ہے۔ اس خطاب میں امام (ع) کے براہ راست مخاطب اور سامعین وہ چیدہ چیدہ اصحاب رسول، تابعین اور امت کے سرکردہ افراد تھے، جن کا تعلق اس وقت کی مملکت اسلامی کے مختلف گوشوں سے تھا اور جنہیں آپ نے اس اجتماع میں خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ امامؑ نے شرکائے اجتماع کو اسلامی سیاست میں در آنے والے بگاڑ، اس کے نتیجے میں دین میں پیدا ہونے والی بدعتوں، شریعت کی بے توقیری اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی جانب متوجہ کیا، اس سلسلے میں انہیں ان کی غفلت و کوتاہی سے آگاہ کیا اور انہیں ان کا فریضہ یاد دلایا۔ یوں تو امامؑ کے اس خطاب کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں، لیکن اس کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ امامؑ 58ھ میں میدان منٰی میں کھڑے ہوئے، آج کے مسلمانوں سے مخاطب ہیں، آپؑ کی نگاہوں کے سامنے آج کے اسلامی معاشروں کے سیاسی اور سماجی حالات ہیں اور آپ آج ہی کی زبان میں، آج ہی کی اصطلاحات کے ذریعے انہیں اسلامی معاشروں کی ابتر صورتحال اور اسلام و مسلمین کی موجودہ پستی و انحطاط کے اسباب و وجوہات سے آگاہ کر رہے ہیں، اس سے نجات کی راہیں سجھا رہے ہیں اور انہیں ان کے فریضے کی ادائیگی پر ابھار رہے ہیں۔ امید ہے اسے پڑھنے والے بھی یہی محسوس کریں گے اور دین کی سربلندی اور امت کو زبوں حالی اور پستی سے نکالنے کے لئے امامؑ کے فرمودات کی روشنی میں اپنے کردار کی ادائیگی کا عزم لے کر اٹھیں گے۔

زمانی اور مکانی حالات:
اس خطبے کے مضامین کی تشریح سے پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے زمان و مکان اور خطبے کے طرز بیان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس خطبے کے لئے خاص مقام (منٰی) اور خاص وقت (ایامِ حج) کا انتخاب کیا گیا۔ مملکت اسلامی کی اہم ترین شخصیات بشمول خواتین کو دعوت دی گئی، بنی ہاشم کے عمائدین اور مہاجر و انصار صحابہء کرام بھی مدعو تھے۔ خاص طور پر اس اجتماع میں 200 ایسے افراد شریک تھے جنہیں رسول گرامی کی صحابیت اور ان سے براہ راست مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی۔ ان 200 کے علاوہ 800 سے زائد افراد اصحاب رسولؐ کی اولاد (تابعین) تھے۔
جلسہ گاہ: یہ جلسہ منٰی میں تشکیل پایا ،جو بیت الله سے نزدیک، توحید اور وحدانیت کے علمبردار حضرت ابراہیم سے منسوب اور قربانی و ایثار کی مثال حضرت اسماعیل کی قربانگاہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کے امتیازات سے دستبردار ہو کر خدا کے سوا ہر چیز کو بھلا دیا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان شیطان اور طاغوتوں پر کنکر برسا کر ندائے حق پر لبیک کہتا ہے اور راہ خدا میں قربانی اور ایمان اور اسلام کے راستے میں تن، من، دھن کی بازی لگانے کے لئے حضرت اسماعیل کے یا ابت افعل ماتومر(۱) سے درس لیتا ہے اور ستجدنی انشاء الله من الصابرین(۲) کو نمونہء عمل قرار دے کر الله کی راہ میں سختیوں، مشکلات اور حتٰی ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔
زمانہ: یہ جلسہ ایام تشریق میں منعقد ہوا۔ یہ وہ وقت ہے جب یہاں پہنچنے والے الله تعالٰی کی عبادت و ریاضت، خدا سے ارتباط اور عمرے کے اعمال انجام دے کر، منزل عرفات سے گزر کر، مشعر کے بیابان میں رات بسر کرکے اور قربانی انجام دینے کے بعد فرزند رسول کا حیات آفرین پیغام قبول کرنے کے لئے معنویت اور روحانیت کی ایک منزل پر پہنچ چکے ہیں۔
1۔ جیسا کہ علماء اور فقہاء نے اس خطبے کے صرف ایک جملے "ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء" پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔

اس خطاب کا محرک ( Motive)
اس خطبے کے مضامین کی اہمیت، اس زمانے کے حالات کی نزاکت اور اس زمان و مکان کی خاص کیفیت جسے امام علیہ السلام نے اس خطاب کے لئے منتخب کیا، سلیم بن قیس کے لئے اس بات کا سبب بنے کہ وہ خطبے کا اصل متن نقل کرنے سے پہلے اسلامی معاشرے کے ان حالات کا ذکر کریں، جو معاویہ کے 25 سالہ دور حکومت میں وجود میں آئے تھے۔(۱) اور اس ظلم و ستم کو بیان کریں جو بالعموم تمام مسلمانوں پر اور خاص طور پر عراق اور کوفہ کے مسلمانوں پر روا رکھا جاتا تھا۔ سلیم بن قیس نے تاریخی تعلق کو محفوظ رکھنے اور اس خطبے کے اسباب کی تشریح کی غرض سے اس دور کی پوری تاریخ نہیں، بلکہ اس کے صرف ایک گوشے سے پردہ اٹھایا ہے اور اہل بیت اور ان کے ماننے والوں کی حق کشی اور ان پر ہونے والے کچھ مظالم کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ خطبے کا متن تحریر کرنے کے بعد یہ مظالم اختصار کیساتھ بیان کئے جائیں گے۔

سرزمین منٰی میں امام حسین علیہ السلام کا خطاب
امام حسین علیہ السلام کے خطبات میں سے ایک انتہائی اہم، ولولہ انگیز اور تاریخی خطبہ وہ ہے جو آپ نے سن 58 ہجری میں، معاویہ کی موت سے دو سال قبل ایسے حالات میں ارشاد فرمایا، جب اموی حکومت نے امت اسلامی کو شدید ترین ظلم و ستم اور خوف و ہراس سے دوچار کیا ہوا تھا۔ اگرچہ اس خطبے کے متعدد پہلو ہیں اور اس میں مختلف موضوعات ذکر ہوئے ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ خطبہ تین علیحدہ علیحدہ حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ: امیر المومنینؑ اور خاندان اہل بیتؑ کے فضائل پر مشتمل ہے۔
دوسرا حصہ: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت اور اس عظیم اسلامی ذمہ داری کی اہمیت کے ذکر پر مشتمل ہے۔
تیسرا حصہ: علماء کی ذمے داری اور ان پر مفسدوں اور ظالموں کے خلاف جدوجہد کا واجب ہونا، ظالموں کے سامنے علماء کی خاموشی کے نقصانات اور اس بڑی دینی ذمے داری کی انجام دہی کے سلسلے میں سستی کے نقصاندہ اور خطرناک اثرات کے جائزے پر مشتمل ہے۔

پہلے حصے (امیر المومنینؑ اور خاندان اہل بیتؑ کے فضائل) کے جملوں کا ترجمہ:

اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبی طٰالبٍ کٰانَ اَخٰا رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ اَخیٰ بَیْنَ اَصْحٰابِہِ فَاَخیٰ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ نَفْسِہِ وَ قٰالَ : اَنْتَ أَخی وَ اَنٰا اَخُوْکَ فی الدُّنْیٰا وَ اْلآخِرَةِ (۱) قٰالُوْا: اَللَّھُمَّ نَعَمْ
(امام حسینؑ نے فرمایا) تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جب رسول الله نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو اس وقت آنحضرؐت نے علی ابن ابی طالب کو اپنا بھائی قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ دنیا اور آخرت میں تم میرے اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ (سامعین نے)کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ سنن ترمذی، ج ۵، المناقب، حدیث نمبر ۳۸۰۴، اسدالغابہ، ج ۳، ص۱۶
قٰالَ: اُنْشِدُکُمُ اللهَ ھَلْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اِشْتَریٰ مَوْضِعَ مَسْجِدِہِ وَ مَنٰازِلِہِ فَابْتَنٰاہُ ثَمَّ ابْتَنیٰ فِیہِ عَشَرَةَ مَنٰازِلَ تِسْعَةً لَہُ وَ جَعَلَ عٰاشِرَھٰا فِی وَسَطِھٰا ِلاَبِی ثُمَّ سَدَّ کُلَّ بٰابٍ شٰارِعٍ اِلَی الْمَسْجِدِ غَیْرَ بٰابِہِ (۱) فَتَکَلَّمَ فی ذٰلِکَ مَنْ تَکَلَّمَ فَقٰالَ : مٰا اَنٰا سَدَدَْتُ اَبْوٰابَکُمْ وَ فَتَحْتُ بٰابَہُ وَ لَکِنَّ اللهَ اَمَرَنی بِسَدِّ اَبْوابِکُمْ وَ فَتْحِ بٰابِہِ ثُمَّ نَھی النّٰاسَ اَنْ یَنٰاموْا فی الْمسْجِدِ غَیْرَہُ، وَ کٰانَ یُجْنِبُ فی الْمسْجِدِ (۲) وَ مَنْزِلہُ فی مَنْزِلِ رَسُوْلِ اللهِ-صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَوُلدَ لِرَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - وَ لَہُ فیْہِ اوْلاٰدٌ ؟ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے اپنی مسجد اور اپنے گھروں کے لئے جگہ خریدی۔ پھر مسجد تعمیر کی اور اس میں دس گھر بنائے۔ نو گھر اپنے لئے اور دسواں وسط میں میرے والد کے لئے رکھا۔ پھر میرے والد کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے اور جب اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: میں نے نہیں تمہارے دروازے بند کئے اور علی کا دروازہ کھلا رکھا، بلکہ الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بند کروں اور ان کا دروازہ کھلا رکھوں۔ اس کے بعد نبیؐ اکرم نے علیؑ کے سوا تمام افراد کو مسجد میں سونے سے منع فرمایا۔ چونکہ حضرت علیؑ کا حجرہ مسجد میں رسول الله کے حجرے کے ساتھ ہی تھا (لہذا) علی مسجد میں مجنب ہوتے تھے اور اسی حجرے میں نبی اکرم اور علی کے لئے الله تعالٰی نے اولادیں عطا کیں؟ (سامعین نے) کہا : بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ سنن ترمذی، ج ۵، المناقب حدیث نمبر۳۸۱۵، مسند احمد بن حنبل، ج ۱،ص ۳۳۱ ، ج ۲، ص ۲۶
2۔ سنن ترمذی،ج ۵، المناقب، حدیث نمبر۳۸۱۱، مسند احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۳۳۱

قٰالَ: اَفَتَعْلَمُوْنَ اَنّ عُمَرَ بْنَ الْخَطّٰابِ حَرِصَ عَلیٰ کُوَّةٍ قَدْرَ عَیْنِہِ یَدَعُھٰا فی مَنزِلِہِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَاَبیٰ عَلَیْہِ ثُمَّ خَطَبَ فَقٰالَ : اِنَّ اللٰہَ اَمَرَنِی اَنْ اَبْنِیَ مَسْجِداً طٰاھِراً لاَ یُسْکِنُہُ غَیْری وَ غَیْرُ اَخِیْ وَ بَنِیْہِ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ عمر بن خطاب کو بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کی دیوار میں ایک آنکھ کے برابر سوراخ رہے جو مسجد کی طرف کھلتا ہو، لیکن نبی نے انہیں منع کر دیا اور خطبے میں ارشاد فرمایا: الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں لہذا میرے، میرے بھائی (علی) اور ان کی اولاد کے سوا کوئی (اور شخص مسجد میں) نہیں رہ سکتا۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
قٰالَ: اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - نَصَبَہُ یَوْمَ غَدِیْرِ خُمٍّ فَنٰادیٰ لَہُ بِالْوِلاٰیَةِ (۱) وَ قٰالَ : لِیُبَلِّغِ الشّٰاھِدُ الْغٰایِبَ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی کو بلند کیا اور انہیں مقام ولایت پر نصب کرنے کا اعلان فرمایا اور کہا کہ یہاں حاضر لوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ (سامعین نے)کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۰۹، ۱۳۴
قٰالَ: اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ لَہُ فی غَزْوَةِ تَبُوْکَ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی(۱) وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُوْمِنٍ بَعْدِی (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں ہے کہ رسول الله نے غزوہ تبوک کے موقع پر علی سے فرمایا: تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لئے ہارون اور (فرمایا) تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ: اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - حِیْنَ دَعٰا النَّصٰارٰی مِنْ اَھْلِ نَجْرٰانَ اِلٰی الْمُبٰاھَلَةِ لَمْ یَأتِ اِلاَّ بِہِ وَ بِصٰاحِبَتِہِ وَ ابْنَیْہِ (۳) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: تمہیں الله کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جب رسول الله نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علی، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں کے کسی اور کو نہیں لے کر گئے؟ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ صحیح مسلم، ج ۴، حدیث نمبر۲۴۰۴، سنن ترمذی، ج ۵، المناقب، حدیث نمبر۳۸۰۸ اور ۳۸۱۳، سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث نمبر ۱۱۵، مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۰۹ اور ۱۳۳
2۔ سنن ترمذی، ج ۵، المناقب، حدیث نمبر ۳۷۹۶، مسند احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۳۳۱
3۔ سنن ترمذی، ج ۵، المناقب، حدیث نمبر ۳۸۰۸، مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۵۰
قٰالَ: اُنْشِدُکُمُ اللهَ اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ دَفَعَ اِلَیْہِ اللِّوٰاءَ یَوْمَ خَیْبَرَ ثُمَّ قٰالَ : لأَدْفَعَہُ اِلیٰ رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللهُ وَ رَسُوْلُہُ وَ یُحِبُُّ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ(۱) کَرّٰارٌ غَیْرُ فَرّٰارٍ یَفْتَحُھا اللهُ عَلیٰ یَدَیْہِ قٰالُوْا: اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے جنگ خیبر کے دن (لشکر اسلام کا) پرچم حضرت علی کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں، جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا (کرار) ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں ہے (غیر فرار) اور خدا قلعہ خیبر کو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔(سامعین نے) کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

قٰالَ: اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ بَعَثَہُ بِبَرٰائَةٍ وَ قٰالَ : لاٰ یَبْلُغُ عَنِیّ اِلاّٰ انٰا اَوْ رَجُلٌ مِنِّی(۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی کو سورہ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر۲۸۰۸، ۳۸۰۸، ۲۴۰۵، ۲۴۰۶، صحیح مسلم، ج ۴، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث نمبر ۱۱۷
2۔ سنن ترمذی، ج ۵، المناقب، حدیث نمبر ۳۸۰۳
قٰالَ: اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - لَمْ تَنْزِلْ بِہِ شِدَّةٌ قَطُّ اِلاّٰ قَدَّمَہُ لَھٰا ثِقَةً بِہِ وَ اَنَّہُ لَمْ یَدْعُہُ بِاسْمِہِ قَطُّ اِلاٰ یَقُوْلُ یٰا اَخِیْ وَ ادْعُوْا لِیْ اَخِیْ قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول الله کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علی پر اپنے خاص اعتماد کی وجہ سے انہیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
قٰالَ: اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْل اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قَضٰی بَیْنَہُ وَ بَیْنَ جَعْفَرٍ وَ زَیْدٍ فَقٰالَ : یٰا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْکَ وَ اَنْتَ وَلِیُّ کُلِِّ مُوْمِنٍ بَعْدِیْ (۱) قٰالُوْا: اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ سناتے وقت فرمایا: اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ سنن ترمذی، ج ۵، المناقب، حدیث نمبر۳۷۹۶

قٰالَ: اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ کٰانَتْ لَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - کُلَّ یَوْمٍ خَلْوَةٌ وَ کُلَّ لَیْلَةٍ دَخْلَةٌ اِذا سَئَلَہُ اَعْطٰاہُ وَ اِذٰا سَکَتَ أَبْدٰاہُ (۲) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ (حضرت علی) ہر روز، ہر شب تنہائی میں رسول الله سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علی سوال کرتے تو نبی اکرم اس کا جواب دیتے اور اگر علی خاموش رہتے تو نبی خود سے گفتگو کا آغاز کرتے۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ سنن ترمذی، ج ۵، المناقب، حدیث نمبر۳۸۰۶
قٰالَ: اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - فَضَّلَہُ عَلیٰ جَعْفَرٍ وَ حَمْزَةٍ حِیْنَ قٰالَ : لِفٰاطِمَةَ - عَلَیْھٰا السَّلاٰمُ - زَوَّجْتُکِ خَیْرَ اَھْلَ بَیْتِیْ اَقْدَمَھُمْ سِلْماً وَ اَعْظَمُھُمْ حِلْماً وَ اَکْثَرُھُمْ عِلْماً (۱) قٰالُوْا: اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو جعفر طیار اور حمزہ (سید الشہداء) پر فضیلت دی، جب حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے، جو سب سے پہلے اسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم و بردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔(سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ نظم در السمطین، ص ۱۲۸نقل از احقاق الحق، ج ۴، ص ۳۵۹، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۹، ص ۱۷۴
قٰالَ: اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ : اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ بَنِیْ آدَمَ وَ اَخِیْ عَلِیٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ(۲) وَ فٰاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسآءِ اَھْلِ الْجَنَّةِ(۳) وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدٰا شَبٰابِ اَھْلِ الْجَنَّةِ (۴) قٰالُوْا : اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمام اولاد آدم کا سید و سردار ہوں، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔(سامعین نے) کہا کہ بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
2۔ مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۲۴
3۔ مستدرک، ج ۳، ص ۱۵۱
4۔ سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث نمبر۱۱۸، مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۶۷

قٰالَ: اَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - اَمَرَہُ بِغُسْلِہِ وَ اَخْبَرَہُ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ یُعِیْنُہُ عَلَیْہِ قٰالُوْا: اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے۔ (سامعین نے )کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
قٰالَ: اَ تَعْلَمُوْنَ اَنّ رَسُوْلَ اللهِ - صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ - قٰالَ فِیْ آخِرِ خُطْبَةٍ خَطَبَھٰا اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثِّقْلَیْنِ کِتٰابَ اللٰہِ وَ اَھْلَ بَیْتی فَتَمَسَّکُوْا بِھِمٰا لَنْ تَضِلُّوْا (۱) قٰالُوْا: اَللَّھُمَّ نَعَمْ
فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو، تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
1۔ صحیح مسلم، ج ۴، حدیث نمبر۲۴۰۸، مستدرک صحیحین، ج ۳، ص ۱۴۸، مسند احمد ابن حنبل، ج ۳، ص ۱۴ اور ج ۴، ص ۳۶۷
ثُمَّ نٰاشَدَھُمْ اَنَّھُمْ قَدْ سَمِعُوْہُ یَقُوْلُ مَنْ زَعَمَ اَنَّہُ یُحِبُّنِیْ وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقَدْ کَذِبَ لَیْسَ یُحِبُّنِی وَ یُبْغِضُ عَلِیّاً فَقٰالَ لَہُ قٰائِلٌ : یٰا رَسُوْلَ اللهِ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قٰالَ : لاَِنَّہُ مِنِّیْ وَ اَنٰا مِنْہُ مَنْ اَحَبَّہُ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ فَقَدْ اَحَبَّ اللهَ وَ مَنْ اَبْغَضَہُ فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَنِیْ فَقَدْ اَبْغَضَ اللهَ (۲) فَقٰالُوْا : اللَّھُمَّ نَعَمْ قَدْ سَمِعْنٰا…
2۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر۱۳۱، سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث نمبر۱۱۴

(اس کے بعد جب امیر المومنینؑ کے فضائل پر مشتمل امام کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی تو) آپؑ نے سامعین کو خدا کی قسم دے کر کہا کہ کیا انہوں نے رسولؐ الله سے یہ سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علیؑ کا بغض اس کے دل میں ہو تو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علیؑ سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ (اس موقع پر) کسی کہنے والے نے کہا کہ یارسولؐ الله یہ کیسے ہوسکتا ہے۔؟ رسولؐ الله نے فرمایا: کیونکہ وہ (علیؑ) مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جس نے علیؑ سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے الله سے محبت کی اور جس نے علیؑ سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی، اس نے الله سے دشمنی کی۔ (سامعین نے) کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔
سلیم بن قیس کہتے ہیں: امام حسین (ع) نے اس موقع پر مذکورہ بالا فضائل کے علاوہ بھی حضرت علی اور خاندان علی کے بارے میں قرآن میں ذکر ہونے والے یا نبی اکرم (ص) سے سنے جانے والے متعدد فضائل بیان کئے اور حاضرین میں سے جو لوگ رسول کے صحابی تھے، وہ کہتے تھے خدا کی قسم ہم نے خود نبی اکرم سے سنا ہے اور جو تابعین تھے، وہ کہتے تھے ہم نے بھی یہ فضیلت فلاں معتبر اور قابل اعتماد صحابی سے سنی ہے۔ امام حسین (ع) نے منٰی میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اور جسے سلیم بن قیس نے نقل کیا ہے، اس کا پہلا حصہ یہاں ختم ہوا اور جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا خطبے کا یہ حصہ حضرت علی کے فضائل پر مشتمل تھا اور ان میں سے ہر ایک فضیلت اہل سنت کی معتبر کتب حدیث میں انہی کے راویوں کے توسط سے رسول الله (ص) سے منقول ہے اور محققین نے ان فضائل میں سے اکثر کے حوالہ جات اہل سنت کی معتبر صحاح ستہ ( چھے معتبر کتابوں) اور دیگر مستند کتب سے نقل کرکے حاشیے (Foot Note) میں تحریر کئے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 665697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش