0
Thursday 31 Aug 2017 17:10

دنیا کو درپیش خطرات اور بڑی طاقتوں کی سردمہری(3)

دنیا کو درپیش خطرات اور بڑی طاقتوں کی سردمہری(3)
تحریر: عمران خان

گذشتہ ماہ اقوام متحدہ میں 122 ممالک نے ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کیلئے عالمی معاہدہ منظور کیا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ایٹمی طاقت کی حامل ریاستوں نے مخالفت کی تھی اور مذاکرات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ہالینڈ نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ سنگاپور غیر حاضر رہا۔ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک نے اس پابندی کو غیر حقیقی قرار دیکر مسترد کر دیا تھا کہ دنیا میں 15 ہزار ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کیلئے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل نے مذاکرات اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ معاہدہ منظور کرنے والے 122 ممالک کا کہنا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک پر زور دیں گے کہ وہ سنجیدگی سے ایٹمی ہتھیار کم کریں۔ دنیا کی غیر ایٹمی طاقتیں ہمیشہ ہی ایٹمی طاقتوں سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ دنیا کی تباہی کے خطرے کو کم کرنے کے واسطے ایٹمی ہتھیار تلف کئے جائیں ، تاہم اس عالمی معاہدے میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ جاپان نے معاہدے کے دوران سرے سے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا، حالانکہ جاپان سے زیادہ ایٹم کی تباہ کاریوں سے کون واقفیت رکھتا ہوگا، اس کے باوجود جاپان دنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کی تلفی کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ یہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ نے اس خوفناک ہتھیار کا استعمال جاپان پر کیا تھا، جس کے اثرات آج تک زائل نہیں ہوئے، وہی جاپان امریکہ کا اتحادی ہے حالانکہ جاپان کی اپنی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ ایٹمی حملے سے زیادہ ان کے ساتھ کبھی بر ا نہیں ہوا۔ یہی نہیں بلکہ جب امریکہ و چین کے مابین چپقلش بڑھنے پر جب امریکہ نے جنگی بیڑے کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تو جاپانی جنگی بیڑا بھی امریکی بیڑے کے شانہ بشانہ تھا، حالانکہ آج بھی جاپانی لوگ تہہ دل سے امریکہ کو اپنا ہی نہیں بلکہ انسانیت کا دشمن و مجرم سمجھتے ہیں۔

6 اگست 1945 کو ہیروشیما پر ایٹمی بم گرایا گیا جس میں ایک اندازے کے مطابق 1 لاکھ 35 ہزار افراد صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ 9 اگست 1945 کون بھلا سکتا ہے جب ناگا ساکی پر ایٹمی بم داغا گیا جس میں تقریبا 75 ہزار انسان لقمہ اجل بن گئے۔ یہ تو ورلڈ وار IIکا زمانہ تھا لیکن آج ایٹمی ہتھیار اس سے ہزارھا گنازیادہ طاقتور اور خوفناک ہو چکے ہیں جو پلک جھپکتے ہی اتنی تباہی مچاسکتے ہیں جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہیرو شیما پر گرایا جانے والا ایٹمی بم 15 کلوٹونز کی تباہی مچا سکتا تھا ایک کلوٹون سے مراد ٹی این ٹی کے ایک ہزار ٹن کی طاقت کے برابر ہوتا ہے۔ مثلا اگر اسے نیو یارک سٹی کے ٹائم اسکوائر پر گرایا جائے تو متاثرہ علاقہ کم و بیش ایک میل پر محیط ہوگا۔ موجودہ وقت میں سب سے تباہ کن ایٹمی ہتھیار بھی امریکہ کے پاس ہے B83 جو 1200 کلوٹون کی تباہی کیلئے تیار کیا گیا ہے جو کہ ہیروشیما میں پھیلائی گئی تباہی سے 80 گنا زیادہ خطرناگ ہوگی یعنی 1.3 ملین ٹن TNT اور جس سے تقریبا 7میل سے زیادہ کا علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوجائیگا۔ 1954 میں کیسٹل براوو آپریشن کو دوران امریکہ نے تاریخ کا سب سے زیادہ تباہی پھیلانے والاایٹمی حملہ کیا اور جو 15 ہزار کلوٹون کی تباہی پھیلانے کی طاقت کا حامل تھا اور جو ہیروشیما میں داغے گئے بم سو 1000گنا زیادہ طاقت ور تھا اور جس کی تابکاری سو 21 میل تک کا علاقہ متاثر ہو ا، صرف یہیں تک نہیں بلکہ 30اکتوبر 1961کو سوویت یونین نے Tsar Bomba کا تجربہ کیا۔ جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ایٹمی تجربہ تھا اور جو 50 ہزار کلوٹون تباہی کی طاقت رکھتا تھا اور جس سے اٹھنے والے دھویں اور شعلے دنیا کی تمام چیزوں سے بلند تھے اور یہ کتنے بلند تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ 29,035 فٹ کے مقابلے میں 209,974 فٹ تھی۔ اگر اسے نیویارک سٹی پر داغا جائے تواس سے متاثر ہونے والاعلاقہ 31معکب میل ہوگا۔ Tsar Bomba پانچ دہائی پہلے تیار کیا گیا تھا مگر آج ایک انداز ے کے مطابق 14,900 کے قریب ایٹمی ہتھیار پوری دنیا میں موجود ہیں۔ اگر 1963میں دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات پر جزوی پابندی کے معاہدے پر دستخط نہ ہوئے ہوتے تو شائد تجربات کی تباہ کاریاں بھی کہیں زیادہ ہوتیں۔

اس کے باوجود پاکستان، بھارت اور چین نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں 10,10کی تعداد کا اضافہ کیا۔ روس اور امریکہ نے بظاہر اپنے نیوکلیئر وارہیڈ بالترتیب 290 اور 200 کی تعداد میں تلف کئے لیکن یہ تلفی صرف رسمی تھی اور ایسے ہتھیاروں کو تلف کرنا بھی ان کی وقتی ضرورت تھی۔ برطانیہ اور فرانس نے اپنے نیوکلیئر وار ہیڈ کو نہ تو کم کیا اور نہ ہی اس میں کسی قسم کا اضافہ ہوا۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق ایک ہی سال میں روس نے نیوکلیئر وارڈ ہیڈز 7290 سے کم کرکے 7 ہزار جبکہ امریکہ نے 7 ہزار سے کم کرکے 6800 کر دیئے۔برطانیہ اور فرانس کے بدستور 215 اور 300 رہے جبکہ چین نے اپنے ایٹمی وارہیڈز 260 سے بڑھاکر 270 کئے اور پاکستان جس کے گزشتہ برس وارہیڈز کی تعداد 120 سے 130 تھی بڑھ کر 130 سے 140 ہوگئی اور بھارت جس کے ایٹمی وارہیڈز 110 سے 120 تھے ایک ہی سال میں بڑھ کر 120 سے 130 تک پہنچ گئے۔ سویڈش ادارے سپری کی رپورٹ برائے 2017کے اعداد و شمار کے مطابق اگر ایک طرف 2017 میں نیوکلیئر وارہیڈز 15 ہزار 395 سے کم ہوکر 14 ہزار 935 ہوگئے تو دوسری جانب اہم مقامات پر نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں 30 کا اضافہ ہوا اور تعداد 4120 سے بڑھ کر 4150 ہوگئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کی 8 ایٹمی طاقتوں کے علاوہ اسرائیل بھی ایٹمی دوڑ میں پیش پیش ہے اور اس کے پاس بھی 80 نیوکلیئر وارہیڈز ہیں۔ روس، امریکہ، فرانس اور برطانیہ کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جن کے وارہیڈز مختلف مقامات پر نصب ہیں جن میں روس کے 1950، امریکہ کے 1800، فرانس کے 280 اور برطانیہ کے 120 وارہیڈز شامل ہیں جبکہ چین، پاکستان، بھارت اور اسرائیل کے وارہیڈز مختلف مقامات پر نصب کرنے کی بجائے انہیں حفاظتی مقامات پر محفوظ رکھا گیا ہے۔

دنیا ایٹم بم کی تباہ کاری دیکھ بھی چکی ہے اور اس سے بخوبی آگاہ ہے، تاہم ترقی کے ساتھ ساتھ حضرت انسان نے ایٹم بم کی خوفناکی میں سینکڑوں گنا زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اس سینکڑوں گنا ایٹم بم سے بڑھ کر دنیا اب ہائیڈروجن بم کی تباہی کے خدشے میں مبتلا ہے، جو کہ جدید ایٹم بم سے بھی کئی گنا زیادہ تباہی پھیلانے کی قوت رکھتا ہے۔ دنیا میں موجود ایٹمی ہتھیار عموما دو اقسام کے ہیں یعنی ایک ایٹم بم (اے بم) جو کہ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا نے برسائے تھے اور دوسرے زیادہ خطرناک قسم کے ہائیڈروجن بم جنہیں تھرمو نیوکلیئر بم (ایچ بم)کہا جاتا ہے۔ ان ہتھیاروں کی تیسری قسم 'ان ہینس ریڈی ایشن (ای آر) کہلاتی ہے جنہیں ماضی میں نیوٹران بم بھی کہا جاتا تھا لیکن اب ان زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ایٹم بم (اے بم) ایٹم بم طبیعات کے قانون نیوکلیئر فشن پر کام کرتے ہیں جس میں یورینیم کا ایٹم ایک سے زائد زرات میں تقسیم ہو کر بڑے پیمانے پر توانائی کا اخراج کرتا ہے۔ اس ہتھیار کا سب سے پہلا تجربہ امریکا نے جولائی 1945 میں نیو میکسیکو میں کیا تھا۔تجربے کے فوری بعد امریکا نے یورینیم کو بطور ایندھن استعمال کرنے والے ایٹمی ہتھیار کے ذریعے جاپان کے شہر ہیروشیما کو تباہ کیا۔ اس بم کی طاقت 15 کلوٹن تھی۔اس حملے کے تین دن بعد امریکا نے جاپان کے شہر ناگا ساکی کو بھی ایٹم بم سے نشانہ بنایا مگر اس دفعہ استعمال کیے گئے ایٹم بم کا ایندھن پلوٹینیم پر مشتمل تھا۔سابقہ سپر پاور سوویت یونین نے بھی اپنے پہلے ایٹمی ہتھیار کا تجربہ اگست 1949 میں قازقستان کے صحرا میں کیا۔ ہائیڈروجن بم (ایچ بم) ہائیڈروجن یا تھرمو نیوکلیئر بم طبیعات کے قانون فیوزن پر کام کرتا ہے جس میں دو نیوکلائی کے مل کر ایک ہونے سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے جس درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ سورج میں بھی یہ عمل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ہائیڈروجن بم کا پہلا تجربہ امریکا نے مارشل نامی جزائر پر یکم نومبر 1952 میں کیا جب کہ سوویت یونین نے 30 اکتوبر 1961 کو ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔ابھی کسی بھی جنگ میں ہائیڈروجن بم استعمال نہیں کیا گیا لیکن دنیا میں اس وقت موجود ایٹمی ہتھیاروں کی اکثریت انہی ایچ بموں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ای آر ہتھیار، بموں کے تھرمو نیوکلیئر قانون پر کام کرتے ہیں لیکن انہیں ایسے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ ان سے توانائی کے بجائے طاقت ور شعاعیں خارج ہوتی ہیں جن سے عمارتوں، پلوں اور دیگر چیزوں کو تو نقصان نہیں پہنچتا مگر تمام انسان و حیوان ان سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

اب اسے اتفاق کہیں یا کرہ ار ض کی بدقسمتی کہ تیسری عالمی جنگ کے خدشات سے پر دو ایسی طاقتیں کہ جو بڑے پیمانے پر ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم رکھتی ہیں، ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور ان کے اتحادیوں کی صورت میں دنیا کی تمام جوہری اور غیر جوہری بڑی فوجی قوتیں کسی ایک پلڑے میں اپنا وزن ڈالے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے شمالی کوریا اور امریکہ کہ جن کے مابین دھمکیوں، بیان بازیوں کا سلسلہ پہلے سے ہی جاری ہے ، اب نئی نئی اقسام کے بلاسٹک میزائل اور ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کررہے ہیں۔ ہائیڈروجن بم کے کامیاب تجربے کے دعویدار شمالی کوریا نے گزشتہ ہفتے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جو پچھلے تجربات سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا گیاہے۔یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب تجربے کے دوران داغا گیا شمالی کوریائی میزائل جاپان کی فضائی حدود سے گزرتا ہوا سمندر میں جا گرا اور تباہ ہوگیا۔ جاپانی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا نے میزائل کا یہ تجربہ مقامی وقت کے مطابق علی الصبح کیا جبکہ یہ میزائل جاپان کے مشرقی علاقے کی فضاں سے گزرتا ہوا سمندر میں جا گرا۔شمالی کوریا نے اس نئے تجربے کوکامیاب جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ ناکام تجربہ تھا کیونکہ شمالی کوریائی میزائل کا اصل ہدف غالبا جاپانی سمندری حدود کے قریب ہی کہیں واقع تھا لیکن وہ اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں پھٹ گیا اور تین بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ چینی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ شمالی کوریا کا یہ تجربہ کسی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم)کا تھا لیکن امریکی اداروں کا کہنا ہے کہ اب تک شمالی کوریا ایسا کوئی میزائل تیار نہیں کرسکا ہے جو امریکا تک پہنچ سکے۔شمالی کوریا کے مذکورہ میزائل تجربے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شنزو آبے نے اسے غیر معمولی خطرہ قرار دیا ہے؛ جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شمالی کوریا کا میزائل تجربہ ایک سنجیدہ اور سنگین خطرہ ہے جس جو خطے میں امن اور سلامتی کو تباہ کر رہا ہے۔ جاپانی وزیراعظم کے بقول ان کا ملک اپنی عوام کی جانوں کو محفوظ بنانے کیلیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔جاپانی کابینہ کے چیف سیکریٹری نے بھی اس تجربے کو ناپسندیدہ اور شدید خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جاپان اس کے ردعمل میں اہم اقدامات کرے گا۔امید یہی کی جارہی ہے کہ شمالی کوریا کا یہ تجربہ جاپان اور شمارلی کوریا کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر شمالی کوریا کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اگرچہ سلامتی کونسل کے بیان میں شمالی کوریا کے عمل کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے تاہم اس پر کسی نئی پابندی کا ذکر نہیں ہے۔شمالی کوریا کی سرکاری ایجنسی کے سی این اے نے پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا ہے کہ جاپان کے اوپر ایک بیلسٹک میزائل کا فائر کیا جانا دانستہ تھا۔ اس سے قبل جو تجربے کسی خطہ ارضی کے اوپر سے گزرے تھے اس کے بارے میں شمالی کوریا کا کہنا تھا کہ وہ سیٹلائٹ تھے۔کے این سی اے کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشق کے جواب میں یہ میزائل داغا ہے۔اس سے قبل روس اور چین نے شمالی کوریا کی طرف سے تازہ میزائل تجربے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اور جنوبی کوریا مشترکہ فوجی مشقیں کرکے شمالی کوریا پر دبا ڈال رہے ہیں جس سے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔چین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر مذاکرات بحال کرنے کی کوششیں شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے بعد ناکامی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔شمالی کوریا کے اس بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے تجربے کے دو دن بعد ہی امریکہ نے نیوکلیئر بم کی نئی اقسام کا تجربہ کیا ہے۔ امریکی نیشنل نیوکلیئر سیکورٹی ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری بیان میں دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی فضائیہ کی جانب سے ریاست نواڈا کے صحرا میں یہ تجربات کیے گئے۔ان تجربات کے لیے ایف 15 ای طیاروں کا استعمال کیا گیا جس کے دوران بی 61 سیریز کے نئے ایٹمی بم ایک خشک جھیل میں گرائے گئے تاہم ان ایٹمی بموں پر وار ہیڈ نصب نہیں تھے۔ان تجربات کا مقصد نیوکلیئر بموں کی نئی اقسام کا جائزہ لینا تھا اور اب ان تجربات کے نتائج کا سائنسدان جائزہ لے رہے ہیں۔ادارے کے مطابق یہ تجربات8 اگست کو کیے گئے تھے۔بین الاقوامی عسکری جرنل نے اپنی رپورٹ میں اس سے پہلے لکھا تھا کہ شمالی کوریا امریکہ کیلئے حقیقی خطرے کا روپ دھار چکا ہے۔ دنیا کیلئے یہ امر بہرحال قابل تشویش ہے کہ شمالی کوریا اور امریکہ کی صورت میں دو انتہائی غیر ذمہ دار قوتیں جنگ کے دھانے پر ہیں اور ان کے پاس میزائلوں اور ہتھیاورں کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے ، جو کرہ ارض کیلئے مہلک ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ کے ساتھ آسٹریلیا، برطانیہ، جاپان ، اسرائیل اور شمالی کوریا کے ساتھ چین، روس کی موجودگی نے اس تشویش میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 665777
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش