0
Thursday 31 Aug 2017 15:00

ٹرمپ سرکار کی ایران نیوکلیئر ڈیل پر خودکش حملے کی تیاریاں؟

ٹرمپ سرکار کی ایران نیوکلیئر ڈیل پر خودکش حملے کی تیاریاں؟
تحریر: عرفان علی

جب سے ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا ہے، امریکہ کے اتحادی اور شراکت دار خود امریکی خارجہ پالیسی سے متعلق غیر یقینی کیفیت سے باہر نہیں آسکے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پیرس ایگریمنٹ یا کیوبا سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی، دونوں میں ٹرمپ سرکار نے اوبامہ حکومت کی پالیسیوں پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ البتہ کافی حد تک مشرق وسطٰی اور جنوبی ایشیاء کے لئے وہ سابق صدر کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں۔ لیکن ان کے عہد صدارت کا سب سے بڑا چیلنج ایران سے متعلق امریکہ کی خارجہ پالیسی ہے اور اس ضمن میں سرفہرست ایران سے کیا گیا وہ نیوکلیئر معاہدہ ہے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے پانچ مستقل اراکین جس میں امریکہ خود بھی شامل ہے، نے جرمنی کے ساتھ مل کر ایران سے کیا تھا۔ اس معاہدے کے تین فریقوں نے خود کو یورپی یونین سے وابستہ ظاہر کیا تھا اور معاہدے کے فریقوں کو پانچ جمع ایک کی بجائے ای تھری پلس تھری کے عنوان سے شناخت کیا تھا۔ اب ای تھری یعنی یورپی یونین کے تین ممالک میں سے ایک برطانیہ اب بریگزٹ پالیسی کے تحت یورپی یونین سے علیحدہ ہے۔ برطانیہ کی یہ حیثیت کس طرح ایران نیوکلیئر ڈیل پر اثر انداز ہوسکتی ہے، یہ بھی اپنی جگہ اہم موضوع ہے، لیکن فی الحال اس تحریر کا عنوان ٹرمپ سرکار کی پالیسی ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات سے ظاہر ہو رہا ہے اور دنیا واشنگٹن سے موصولہ اشاروں کی روشنی میں یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ ٹرمپ سرکار ایران نیوکلیئر ڈیل سے امریکہ کو نکالنے کے لئے اس معاہدے پر خودکش حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

ماہ اپریل میں انہوں نے اپنی ٹیم کو حکم دیا تھا کہ اوبامہ دور کی اس پالیسی پر نظرثانی کی جائے، جس کے تحت ایران پر عائد امریکی اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اب واشنگٹن سے یہ افواہ خبروں کی صورت میں دنیا بھر میں پھیلائی جا رہی ہے کہ ماہ اکتوبر میں صدر ٹرمپ ایران نیوکلیئر ڈیل کے حوالے سے جو سند جاری کرتے ہیں، وہ جاری کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں، کیونکہ انہیں انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی کی ایران سے متعلق رپورٹس پر اعتماد نہیں ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران نیوکلیئر ڈیل کے مشترکہ جامع منصوبہ عمل پر عمل نہیں کر رہا حالانکہ ایسا ہو رہا ہے یا نہیں اسکی تصدیق کی ذمے داری آئی اے ای اے اور اس جوائنٹ کمیشن کی ہے، جس کی سربراہی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی مسؤل فیڈریکا موگرینی کر رہی ہیں اور جس کمیشن میں دیگر ممالک کی جانب سے بھی رکن کی حیثیت سے نمائندگی موجود ہے۔ 28 اگست 2017ء کو برسلز میں یورپی یونین کے سفیروں کی سالانہ کانفرنس سے خطاب میں بھی موگرینی نے واضح کیا تھا کہ ڈیل پر عمل کی تصدیقی سند آئی اے ای اے اور جوائنٹ کمیشن جاری کرتا ہے۔ وہ اس معاہدے کے حق میں ہیں اور امریکی صدر کی پالیسی سے متفق نہیں ہیں۔ 29 اگست کو پیرس میں فرانسیسی سفیروں سے خطاب میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ ایک اچھا معاہدہ ہے اور اس کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ یہی معاہدہ ایران کے ساتھ ایک تعمیری مکالمے کی بنیاد ہے۔ واشنگٹن مین تعینات فرانسیسی سفیر نے 30 اگست کو ایک ٹویٹ پیغام میں صدر میکرون کی اس بات کے پس منظر میں اور زیادہ وضاحت و صراحت کے ساتھ کہا کہ فرانس اس نیوکلیئر ڈیل کی منسوخی کی نہ تو حمایت کرے گا اور نہ ہی ایسی کسی پالیسی کو قبول کرے گا۔

صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہالے کو آئی اے ای اے کے ویانا می واقع صدر دفتر کے دورے پر بھیجا، جہاں انہوں نے اس ادارے کے اعلٰی حکام پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، تاکہ وہ ایران کے بارے میں امریکی مطالبات پر عمل کریں۔ نکی ہالے اپنے دورے کو فیکٹ فائنڈنگ مشن کا نام دے رہی ہیں، حالانکہ یہ دورہ حقائق کی تلاش سے زیادہ اسرائیلی مفاد کی تکمیل کی تلاش پر مبنی تھا کیونکہ نکی ہالے امریکی سیاستدان ہیں، وہ سال 2011ء سے امریکی ریاست ساؤتھ کیرولینا کی گورنر رہ چکی ہیں اور آئندہ بھی امریکی سیاست میں اپنے لئے کسی حیثیت یا عہدے کے لئے خود کو اسرائیلی لابی کی مدد کی نیازمند ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ وہ بھارتی والدین کی امریکی بیٹی ہیں۔ ہالے کا شوہر امریکہ کی آرمی نیشنل گارڈ میں کیپٹن ہے اور افغانستان میں امریکی جنگ کے لئے ہلمند صوبے میں تعینات رہ چکا ہے۔ نکی ہالے کو امریکی سیاست میں اسرائیلی لابی کی اہمیت اور طاقت کا بخوبی اندازہ ہے، اس لئے وہ اپنے سیاسی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے موقف کو امریکہ کا موقف بناکر پیش کر رہی ہیں اور اس کام کے لئے ٹرمپ انکی سرپرستی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے 28 جولائی کو ایران کی چھ سیٹلائٹ کمپنیوں پر پابندی لگائی تھی اور الزام یہ تھا کہ ان کمپنیوں کا ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں کردار ہے۔ اگست کے اوائل میں ٹرمپ نے روس اور شمالی کوریا کے ساتھ ساتھ ایران پر بھی نئی پابندیوں کے قانون پر دستخط کئے تھے۔ نکی ہالے یہ کہتی ہیں کہ امریکہ کی پابندیاں نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے نہیں ہیں بلکہ میزائل پروگرام کی وجہ سے ہیں۔

ایران پر پابندیوں کے حوالے سے نکی ہالے کے تین دیگر الزامات بھی ہیں کہ ایران انسانی حقوق کی خلاف ورزی، دہشت گردوں کی حمایت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایران ہم جنس پرستی سمیت ہر اس عمل کے خلاف ہے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، لیکن امریکی حکومت اس اسلام دشمنی کو انسانی حقوق کا نام دیتا ہے۔ ایران فلسطین اور لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کے قبضے سے آزادی دلانے والی قومی مزاحمتی تحریکوں حماس، حزب جہاد اسلامی، حزب اللہ جیسی تنظیموں کی حمایت کرتا ہے، جبکہ اسرائیل کی محبت میں امریکہ اسے دہشت گردوں کی حمایت کہتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر تو خود امریکہ اور اسرائیل عمل نہیں کرتے، لہٰذا ان قراردادوں کی خلاف ورزی کی بات بھی ایک کھوکھلا بہانہ ہے، جو امریکی حکمرانوں کے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔ لیکن ایران کی روحانی سرکار بھی متوجہ ہے اور امریکہ کو صدر روحانی نے 15 اگست کو متنبہ کر دیا تھا کہ اگر امریکہ نے ماضی کے تجربے کو دہراتے ہوئے پابندی لگائی تو ایران فوری طور پر اسکا جواب دے گا اور یہ ردعمل مہینوں یا دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں دیا جائے گا اور پھر ایران جہاں مذاکرات کے آغاز کے وقت تھا، اس سے زیادہ آگے کی پوزیشن میں چلا جائے گا۔ ایران کے قومی ایٹمی پروگرام کے انچارج ڈاکٹر علی اکبر صالحی بھی خبردار کرچکے ہیں کہ حکم ملا تو پانچ دن کے اندر یورینیم کی افزودگی موجودہ پانچ فیصد سے بڑھا کر بیس فیصد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایران کا موقف ہے کہ ایران پر سے پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں اور امریکہ یونہی سازشیں کرتا رہا اور معاہدے سے الگ ہوکر اقدامات کرنے لگا تو پھر ایران بھی اسکا پابند نہیں رہے گا اور اپنے نیوکلیئر پروگرام کا دوبارہ اسی مرحلے سے آغاز کرے گا، جہاں وہ ماضی میں تھا۔ صدر روحانی نے دنیا کو یاد دلایا کہ امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ ہیں، جو کسی طور اچھے یا قابل اعتماد شراکت دار نہیں ہیں۔ دنیا دیکھ چکی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی پیرس معاہدے اور کیوبا کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر انہوں نے کیا کیا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف بھی امریکہ سمیت دنیا کو خبردار کرچکے ہیں کہ اس معاہدے پر عمل کو یقینی بنایا جائے اور پابندیاں عملی طور پر ہٹائی جائیں، کیونکہ ان پابندیوں سے یورپی کمپنیاں ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں اور انہیں یہ خدشہ ہے کہ امریکہ انہیں بلیک لسٹ کر دے گا، ان پر جرمانے عائد کر دے گا۔ تاحال یہ صورتحال یونہی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ 12 ستمبر 2017ء کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جائیں گے تو اس دورے کے دوران اس نیوکلیئر معاہدے کے فریق ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں بھی کریں گے اور ٹرمپ حکومت کی ایران دشمن پالیسی سے آگاہ کریں گے۔ انہوں نے آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکینا امانو اور یورپی یونین کی موگرینی کو خطوط بھی لکھے ہیں، جس میں اس جانب توجہ دلائی ہے کہ امریکہ اس ڈیل کے خلاف عمل کر رہا ہے اور اداروں پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے واضح کر دیا ہے کہ ایران اس فریم ورک کے تحت اپنے فرائض پر عمل کرے گا، جو ماضی میں طے کئے جاچکے ہیں اور ایران کی مقرر کردہ ریڈ لائنز کو کسی صورت کراس نہیں ہونے دے گا۔ دوسرے دور صدارت کے پہلے انٹرویو میں صدر روحانی نے کہا ہے کہ امریکہ اس صلاحیت سے ہی محروم ہے کہ وہ اس نیوکلیئر ڈیل یا مشترکہ جامع منصوبہ عمل کو روک سکے۔ امریکہ کا ہدف یہ ہے کہ آئی اے ای اے ایران کے فوجی اڈوں اور تنصیبات تک رسائی حاصل کرے اور وہاں سے ایسی معلومات حاصل کرے، جو امریکا اور جعلی ریاست اسرائیل کے لئے فائدہ مند ہو۔ اصل میں امریکہ کو ایران سے تکلیف ہی اسی لئے ہے کہ وہ اس خطے میں امریکہ کے سامراجی عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ایران نے جو امریکی جاسوس ایران میں پکڑ کر قید کر رکھے ہیں، انہیں آزاد کر دے جبکہ ایران اپنے انقلابی اقدار اور مظلوموں کی حمایت اور اپنی آزادی و خود مختاری پر تاحال کوئی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ صدر روحانی نے 5 اگست کو درست کہا تھا کہ صدر ٹرمپ سیاسی خودکشی کے راستے پر گامزن ہیں۔ امریکہ اگر ایران نیوکلیئر ڈیل سے خود کو الگ کرے گا تو اس مرتبہ امریکہ خود ہی آئسولیشن کا شکار ہو جائے گا کیونکہ دیگر ممالک اسکی اس پالیسی سے متفق نہیں ہیں اور ایران کے لئے ان شاء اللہ مزید بہتر حالات ہوں گے کہ جہاں مائنس امریکہ دنیا کے دیگر ممالک ایران کے ساتھ نئے سرے سے تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری پر آمادہ دکھائی دیں گے اور بین الاقوامی پابندی کو ہٹانے کا عمل جو امریکہ کی وجہ سے رکاوٹ کی زد پرہے، وہ رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی، کیونکہ نیوکلیئر ڈیل سے روگردانی کا مجرم امریکہ ہوگا۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ ٹرمپ یہ خودکش حملہ کر بھی سکے گا یا نہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 665865
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش