0
Monday 4 Sep 2017 10:40

ریاستی پابندی کے باوجود کالعدم تنظیموں نے کھالیں جمع کیں

ریاستی پابندی کے باوجود کالعدم تنظیموں نے کھالیں جمع کیں
تحریر: طاہر یاسین طاہر

سماجی رویئے میں ہم سادہ لوح بھی ہیں اور فریب پرورہ بھی۔ خوف زدہ ہیں، فتویٰ گروں سے ڈرتے ہیں اور ترس کھاتے ہیں، تحقیق و جستجو سے گریز کرنے والے سماج ترس ہی کھایا کرتے ہیں۔ فکری مغالطوں کو اس طرح رواج دیا گیا کہ اب مستحق و غیر مستحق کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ معاشرے، ریاستیں، وہ ملک، جہاں ملکی قوانین کو ایک مذاق کے سوا کچھ نہ سمجھا جائے، وہاں طواف الملوکی کا ہی راج ہوتا ہے۔ اپنے سماجی ڈھانچے کی تباہی کے باوجود آج بھی مولوی و مدارس کے بارے بات سننے کو کوئی تیار نہیں۔ سادہ لوحی دیکھیے کہ خودکش دھماکے کرنے والوں کی وکالت میں بھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ امریکہ و اسرائیل مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے خودکش دھماکے خود کراتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں، جو مسلمانوں کے روپ میں ہیں۔ اس رویئے کے حامل معاشرے سے عقل و خرد کے کسی فیصلے کی کیا توقع کیا جا سکتی ہے۔ تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو سب آشکار ہو جاتا ہے۔ کالعدم دہشت گرد تحریک طالبان سے جب موجودہ نون لیگی حکومت نے مذکرات کا ڈول ڈالا تو پاکستان کے کونے کونے میں مذہب کے نام پر خودکش دھماکے کرنے والوں کی نمائندگی اہلِ مدارس و مولوی ہی کر رہے تھے، کہ اسی دوران میں اے پی ایس پشاور کا واقعہ پیش آگیا۔ یعنی دہشت گرد یہ ایجنٹ ضرور ہوسکتے ہیں، مگر اپنے فہم اسلام میں بالکل پکے اور اسے پورے معاشرے پر نافذ کرنے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔ امریکی ڈرون میں جب دہشت گرد حکیم اللہ محسود مارا گیا تو ایک  مذہبی سیاسی جماعت کے مولانا صاحب نے کہا کہ اگر امریکی حملے میں کوئی کتا بھی مارا جائے تو میں اسے شہید کہوں گا۔ یہ باتیں کوئی تیسری یا چوتھی صدی کی نہیں بلکہ دو چار سال ادھر کی باتیں ہیں۔ جنھیں زود فراموش معاشرہ بھول چکا ہے۔

بے شک سارے مدارس نہ تو انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ ہی سارے مدارس سماج دشمن عناصر کے ہمدرد ہیں۔ ہاں جو مدارس و مدرسین طالبان سمیت دیگر کالعدم تنظیموں اور فرقہ وارانہ رویوں کے پروردہ ہیں، انہیں اسلام کی نمائندگی کا حق دینا بھی اہلِ اسلام کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہر سال قربانی کے جانوروں کی کھالیں جمع کرنے کے لئے مدارس کے طلباء کیمپ لگایا کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے کارندے بھی کھالیں جمع کرنے والے “ثواب” میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ کراچی میں بالخصوص ایک لسانی جماعت ایم کیو ایم یہ کام زور بازو سے کیا کرتی ہے، کراچی میں اس کا مقابلہ جماعت اسلامی خوب کرتی اور کھالیں چھیننے میں یہ دونوں ایک دوسے پہ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ جماعت اسلامی سمیت کئی دیگر مذہنی، لسانی و فرقہ وارانہ جماعتوں کے بینرز ہر عید پر نظر آتے کہ کھالیں یہاں دیں، فطرانہ یہاں دیں۔ ہر مدرسہ بینر تیار کراتا، کیمپ لگاتا اور چمڑے کے دو روزہ کاروبار میں ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کی کوشش کرتا۔ یہ سب ریاست کی ناک کے نیچے ہوتا آرہا ہے۔ میڈیا اس پہ واویلا کرتا، لیکن حکومتیں بوجہ کھالوں کے ثواب میں لگے مولویوں یا ان کے کارندوں کو کچھ نہ کہتیں۔ سماجی حرکیات پہ نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کی آمدن کا سب سے موثر ذریعہ اغوا برائے تاوان، منشیات کی سمگلنگ، چندہ اور پھر قربانی کی کھالیں ہیں۔

گذشتہ دنوں وزارت ِ داخلہ نے 65 سے زائد کالعدم تنظیموں کی فہرست جاری کی، اس فہرست کو جاری کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان  کالعدم تنظیموں پر “کھالیں” جمع کرنے، مانگنے، چھیننے، کھالوں کے حصول کے لئے دبائو ڈالنے وغیرہ پر پابندی ہے۔ یعنی یہ تنظیمیں اور ان سے متعلقہ مولوی و مدارس، مدارس کے طلباء کھالیں جمع کرنے کے لئے کوئی کیمپ نہیں لگا سکیں گے۔۔مگر۔۔۔ ان کالعدم تنظیموں کے “سہولت کار” مدرسین اور ان کے پیادے، کیمپ لگانے کے بجائے، گھر گھر قربانی کے جانوروں کی کھالیں لینے نہ صرف پہنچتے رہے بلکہ ہفتوں پہلے بڑے منظم طریقے سے کالعدم تنظیموں، یا ان سے ہمدردی رکھنے والے مدارس و سہولت کاروں نے قربانی کے جانوروں کی کھالیں اپنے لئے ”بک“ کروا لی تھیں۔ اگر کوئی ہمت کرکے پوچھ ہی لے کہ کھالوں کو اہل مدرسہ نے کیا کرنا ہے تو جواب ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں پڑھنے والے بچے یتیم ہیں، فنڈ کی قلت ہے، یتیموں کے قیام و طعام اور مدسہ کے کمرے و چھت ڈالنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے۔ آپ کھال دیں گے تو آپ کو ”ثواب” تو ملے گا ہی اور ”حوریں“ اس کے علاوہ۔ جذباتی مسلمان کو ثواب کے سوا چاہیے کیا؟ وہ بھی مولوی یا اس کے پیادے کی زبان سے۔ ہاں یہ بھی بڑی حد تک درست ہے کہ بڑے شہروں میں اس بار کھالیں جمع کرنے کے لئے کیمپ نہیں لگائے گئے، لیکن مشاہدہ یہی ہے کہ مولویوں، مدرسین اور ان کے طلباء و سہولت کاروں کی گاڑیاں کھالیں جمع کرنے میں لگی رہیں۔ کہیں کہیں تو یہ طریقہ بھی اپنایا گیا کہ قربانی کے جانور کی کھال فروخت کرکے رقم مولوی کو بھجوا دی گئی۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ جب حکومت کالعدم جماعتوں، تنظیموں یا ان سے متعلقین مشکوک افراد و مدارس کے حوالے سے ایک مکمل لسٹ جاری کر چکی ہے اور کم و بیش ایک ہفتہ تک سرکاری خزانے سے عوام الناس کو باخبر کرنے کے لئے ٹی وی و اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے جاتے رہے، اس کے باوجود کالعدم تنظیموں کے سہولت کار اپنے کام میں لگے رہے۔ یہاں ریاست اور اس کا نیٹ ورک کہاں تھا؟ کیا دہشت گردوں اور ان کے حواریوں نے کھالیں جمع کرنے کے لئے طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے،؟ بالکل کر لیا ہے، یہ پیغام ہے وزرات داخلہ کے لئے کہ ”روک سکو تو رو لو۔” اگر عید کے دوسرے یا تیسرے دن، ان کالعدم قرار دی گئی تنظیموں، اداروں یا ان کے سہولت کاروں کے گوداموں، تہہ خانوں پر چھاپہ مارا جائے تو ریاستی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جمع کی جانے والی کھالوں کے ڈھیر ضرور نظر آئیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ہر سال کالعدم تنظیموں اور ان کے متعلقین، ہمدردوں اور فرقہ پرستوں کی فہرست جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی پالیسی بھی ترتیب دینی چاہیے کہ لاکھ جتن کے باجود کھالیں ان افراد و اداروں تک نہ پہنچ پائیں، جن کے حوالے سے ریاست کو شدید تحفظات ہیں۔ اے کاش لوگوں کو ثواب کے لئے ایدھی فاونڈیشن نظر آجائے، اے کاش۔ بار دیگر عرض ہے کہ کالعدم تنظیموں کے فکری ریوں کے ترجمان مدارس یا ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے، مولویوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کے مدارس پہ اگر چھاپے مارے جائیں تو ریاستی احکامات کی حکم عدولی جمع شدہ کھالوں کی صورت صاف نظر آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 666375
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش