0
Thursday 7 Sep 2017 13:22

آئیں پھر علی ؑ سے بیعت کریں

آئیں پھر علی ؑ سے بیعت کریں
تحریر: ثاقب اکبر

18 ذی الحج قریب آگئی ہے اور ساری دنیا میری آنکھوں کے سامنے گردش کناں ہے۔ ایک منظر ابھرتا ہے، نمایاں ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ پھر ایک نیا منظر ابھرنے لگتا ہے، آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے اور دھندلکوں میں کھو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور منظر آنکھوں کو متوجہ کرنے لگتا ہے۔ آخری حج کے بعد انسانیت کے کارواں سالار کا قافلہ بطحا کی وادیوں سے نکلتے ہوئے مدینہ طیبہ کی طرف رواں ہے۔ حرا سے اتر کر جب وہ قوم کی طرف آئے تھے تو ایک ایک کرکے قافلہ تشکیل دینے لگے تھے۔ کوہ صفا پر پکارا اور کبھی دار ارقم میں دشمنوں کی نگاہوں کی اوٹ میں بیٹھ کر سمجھایا، یہاں تک کہ ایک بڑا کارواں تشکیل پا گیا۔ وحی کے زمزمے گونجتے رہے، جبریل کی رفت و آمد تازہ سندیسوں کی نوید بنی رہی اور کبھی تسلی و تشفی کا سامان پیدا کرتی رہی۔ ساری باتیں جو پہنچانا تھیں پہنچا دیں، جو اصول بتانا تھے بتا دیئے، جو فروع سمجھانا تھے سمجھا دیئے، ہر ایک کے ظرف کی پیمائش کئے ہوئے تھے اور بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر تقسیم کر رہے تھے۔ کچھ باتیں سب سے کہیں۔ کچھ خبریں خواص کو دیں۔ دم واپسیں نزدیک آیا تو ضروری ہوگیا کہ معنویت و حقیقت کے آئندہ کارواں سالار کا اعلان کر دیا جائے۔ منشائے الٰہی ’’بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ‘‘ کے الفاظ میں گونج رہا تھا۔ ادھر اصرارِ اعلام تھا اور ادھر دانائے اسرار تھا۔ حکیم بشریت دلوں کی دھڑکنوں کو سن رہا تھا اور جانتا تھا کہ ظاہر میں کیا ہمہمہ ہوگا اور دلوں میں کیا غلغلہ ہوگا۔ آخر اس کا بازو پکڑا کر بلند کیا، جو دنیا و آخرت میں اس کا بھائی قرار پایا تھا اور اعلان ہوا:
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
جس کا میں مولا ہوں، پس اس کا یہ علی مولا ہے۔
کہتے ہیں فضائیں بَخّ بَخّ سے گونج اٹھیں اور بلند ترین قامت کے ایک رفیق راہ نے پکار کر کہا:
اے علی! آپ کو مبارک ہو، مبارک ہو کہ آپ نے اس حال میں صبح کی کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا قرار پائے۔ پھر ایک ایک کرکے بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔

ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ کیا محمد مصطفٰی محبوب خداؐ بعد میں بھی ہر مومن و مومنہ کے مولا ہیں، ہاں ضرور ہیں تو کیا آج بھی علی ہر مومن و مومنہ کے مولا ہیں، ہاں ضرور ہیں تو آئیں پھر سے بیعت کرتے ہیں تاکہ
علی کے توسط سے مدینۂ علمِ نبوی میں راہ پا سکیں،
علی کے ذریعے حقیقت قرآن سے وابستہ ہوسکیں،
علی سے وابستہ ہو کر عبادت الٰہی سے عشق کا سلیقہ سیکھ سکیں،
علی کے ذریعے مقاصد بعثت نبوی کے دفاع کا جذبہ پا سکیں،
علی کے وسیلے سے صبر و استقامت کا درس لے سکیں،
علی کے وجود سے عدل و انصاف کی سربلندی کا ولولہ اخذ کرسکیں،
علی کے فیض سے تقوی الٰہی کو زاد راہ بنانے کا نمونہ پا سکیں،
علی سے عصر حاضر کی صہیونیت کے خلاف خیبر شکنی کا راز جان سکیں،
علی سے خارجیت کی آنکھ پھوڑنے کا فن سیکھ سکیں،
علی سے مجبور و مقہور انسانوں کی نجات کے اصول پا سکیں،
علی سے نفاق و دوروئی سے مقابلے کی حکمت جان سکیں،
علی سے مناجات با خدا کے آداب لے سکیں،
علی سے نبئ برحقؐ سے عہد وفا نبھانے کا طریقہ جان سکیں اور
علی سے روز محشر لوائے حمد کا سایہ طلب کر سکیں۔

اس لئے کہ علی آج بھی اسی طرح اہل ایمان کے مولا ہیں، جس طرح آج بھی محمد مصطفٰیؐ اہل ایمان کے مولا ہیں۔ آج امت محمدی جن مصائب سے دو چار ہے، اس سے نکلنے کی سبیل علی کی سیرت سے نکلے گی۔ ہم اپنے بھٹکے ہوئے حکمرانوں سے جب تک مایوس نہ ہوں گے، علی کے پرچم تلے جانے کی آرزو پیدا نہ ہوگی۔ البتہ ہمیں جاننا چاہیے کہ وہ مولی الموحدین ہیں، امیرالمومنین ہیں اور امام المتقین ہیں۔ ان کی قیادت کی قبولیت کا تقاضا اور ان سے بیعت کی شرط توحید پرستی، ایمان اور تقویٰ ہے۔ ان اوصاف کی طرف رغبت یعنی علیؑ کی طرف رغبت، علی سے بیعت، بیعت با علی اور علی کی ہمراہی۔ محمدؐ اور علیؑ بت شکن ہیں۔ ان کی ہمراہی جذبۂ بت شکنی کے بغیر میسر نہیں، داخلی و خارجی سب بتوں پر ضرب کاری ضروری ہے، تاکہ محمدؐ و علیؑ کی بیعت نصیب ہوسکے۔ عصر حاضر کے خارجی بتوں کو پہچانے بغیر ان سے رزم آرائی ممکن نہیں۔ محمدؐ و علیؑ انسانیت کے غمگسار اور نجات دہندہ ہیں، انسانیت کے درد و رنج کو سمجھے بغیر انسانوں کا غمگسار نہیں بنا جاسکتا۔ گروہوں، قبیلوں، علاقوں، جغرافیوں، فرقوں، مسلکوں، نسلوں، زبانوں اور رنگوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو علیؑ ایک حرم الٰہی کی طرف رغبت کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ ہر تقسیم انسانیت کا درد ہے اور حرم الٰہی کی طرف رغبت وحدت و توحید کا راستہ ہے، جو ہر رنج کا مداوا ہے۔

جیسے خانہ کعبہ انسانیت کا مرکز محسوس ہے، اسی طرح علی اس مرکز کا بے عیب اور لاریب رہنما ہے کہ جس کے بارے میں ہادی بشریت ؐنے واضح فرما دیا کہ
علی کی مثال کعبہ کی سی ہے۔
کعبہ مرکزیت و اتحاد کی علامت ہے۔
کعبہ حرم امن الٰہی ہے۔
لیکن یہ کعبہ۔۔۔ امن الٰہی کا حرمِ صامت ہے
علی وہ کعبہ ہے جو امن الٰہی کا حرمِ ناطق ہے
دنیا کو اگر امن و سلامتی سے ہم کنار کرنے کی امنگ سینوں میں موجزن ہے تو آئیں غدیر خم میں چلتے ہیں۔ 18 ذی الحج آنے کو ہے۔ نبی کریمؐ کی صدا گونجنے والی ہے کہ جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں۔ آئیں ہم موجود ہوں اور دل کی آنکھوں سے محمدؐ کا چہرۂ نورانی دیکھیں اور ان کا اعلامِ عام اپنے دل کے کانوں سے سنیں اور پھر ایمانی جذبے سے لپک کر علی کی بیعت کریں اور دل کی زبان سے کہیں! اے علیؑ! آپ کو مبارک ہو، مبارک ہو کہ آپ نے اس حال میں صبح کی کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا قرار پائے۔
خبر کا کوڈ : 667207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش