QR CodeQR Code

قضیہ میانمار، جہتیں اور جذباتی ردعمل

8 Sep 2017 10:21

اسلام ٹائمز: کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جو تصاویر اور ویڈیوز آپ دیکھ رہے ہیں، انکا منبع کیا ہے اور کیا واقعی وہ برہنہ اجسام جو ان تصاویر اور ویڈیوز میں دکھائے جا رہے ہیں، روہنگیا مسلمانوں کے ہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ روہنگیا مسلمان قدرے سیاہی مائل ہیں اور میں نے اکثر ایسی دلخراش تصاویر نیز ویڈیوز دیکھیں، جس میں مقتول یا مرحوم کا جسم سفید ہے۔ کون ہے جو ہمارے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر انکو استعمال کرنیکے درپے ہے۔ وہ کیا مفادات ہیں جو ہمارے اس مذہبی ہیجان سے حاصل کئے جائیں گے۔ کیا یمن کا مسلمان روہنگیا مسلمان سے کم تر ہے، جسکا مرنا ہمیں غیرت نہیں دلاتا۔ ہمیں جذباتی ردعمل کے بجائے وہ عملی راستے تلاش کرنے ہونگے، جس سے ہم روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کرسکیں اور انہیں میانمار میں اپنا جائز مقام دلا سکیں۔


تحریر: سید اسد عباس

برما جو اب میانمار کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، کی سرحد مغرب میں بھارت اور بنگلہ دیش مشرق میں تھائی لینڈ، شمال اور شمال مشرق میں چین اور جنوب میں خلیج بنگال سے ملتی ہے۔ اس سرزمین کی سمندری پٹی تقریباً 1930 کلو میٹر ہے۔ 2014ء کی مردم شماری کے مطابق اس ملک کی آبادی 51 ملین نفوس پر مشتمل تھی۔ انیسویں صدی تک برما میں مختلف بادشاہتیں قائم رہیں، جن کا خاتمہ انگریز سامراج نے کیا اور برما انگلستان کی کالونی بنا۔ 1948ء میں برما نے انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی اور 1962ء میں یہاں فوجی آمریت قائم ہوئی، جس کا خاتمہ 2010ء کے عام انتخابات کے ساتھ ہوا، تاہم اس وقت بھی فوج متعدد مقامات پر نہایت طاقتور ہے۔ برما میں قیمتی پتھروں، تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر ہیں۔ سمندری پٹی کے قریب تو بعض ایسے علاقے بھی تھے، جہاں نلکوں کے ذریعے خام تیل نکالا جاتا تھا۔ برطانوی سامراج کی آمد کے بعد برما سے 1845ء میں پہلی مرتبہ خام تیل بیرون ملک فروخت کیا گیا اور پھر تیل کے اخراج کا سلسلہ شروع ہوا، اس وقت بھی برما آئل کمپنی تیل و گیس کے کاروبار سے منسلک ہے۔ 1962ء میں قائم ہونے والی فوجی حکومت نے برما کو ایک سوشلسٹ ریاست کے طور پر چلایا، اس دوران میں متعدد مواقع پر جمہوریت کے قیام کے لئے تحریکیں چلائی گئیں، جسے طاقت اور قوت سے دبایا گیا۔ 1989ء میں برما کا انگریزی نام بدل کر اسے میانمار رکھ دیا گیا۔ 1990ء میں فوجی جنتا نے ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے، جس میں موجودہ چانسلر آنگ سان سوچی کی پارٹی نے 492 سیٹوں میں سے 392 سیٹیں حاصل کیں، تاہم فوجی جنتا نے اقتدار آنگ سان سوچی کے حوالے نہ کیا بلکہ 2011ء تک برسر اقتدار رہے۔

میانمار اپنی آزادی کے وقت سے ہی خانہ جنگیوں کا شکار رہا ہے، جس میں میانمار میں موجود مختلف قومیتوں کے افراد اپنی خود مختاری اور حقوق کے لئے فوجی جنتا سے نبرد آزما ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں آج بھی مغربی صحافیوں کو خصوصی اجازت کے بعد داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ میانمار میں ہونیوالی خانہ جنگیوں میں کاچن انڈیپنڈنس آرمی، روہنگیا مسلمانوں اور راکھائن ریاست کے حکومتی و غیر حکومتی گروہوں میں لڑائیاں، شان، لاہو اور کارن اقلیتوں کے مابین ہونے والی خانہ جنگیاں، چینی باغیوں اور حکومت کے مابین خانہ جنگی قابل ذکر ہیں۔ چینی پس منظر کی حامل ایک برمی اقلیت کے ساتھ 2015ء میں ہونے والی ایک لڑائی میں تقریبا پچاس ہزار افراد جنگ سے فرار کرکے چین میں پناہ گزین ہوئے۔ برمی حکومت نے الزام لگایا کہ چین ان چینی باغیوں کو اسلحہ اور امداد مہیا کر رہا ہے۔ حال ہی میں ایک مرتبہ پھر میانمار خبروں اور شہ سرخیوں کا عنوان بنا، جب برما کے سمندری پٹی سے متصل علاقے راکھائن جو روہنگیا مسلمانوں کا مسکن ہے، میں میانمار حکومت نے آپریشن کا آغاز کیا، جس کے سبب امن کے متلاشی لاکھوں مسلمان بنگلہ دیش اور دیگر ہمسایہ مملک کی جانب ہجرت کر گئے۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کے شہری تصور نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی نسل اور زبان کے سبب انہیں بنگلہ دیشی پناہ گزین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 1962ء میں فوجی جنتا کے برسراقتدار آنے کے بعد سے روہنگیا مسلمان جن کی تعداد تقریبا دس لاکھ ہے، کو غیر ملکی شہری قرار دیا گیا اور 1982ء کے شہری قانون کے تحت ان کو مکمل طور پر برمی شہریت سے خارج کر دیا گیا۔ جس کے سبب لاکھوں مسلمان بنیادی شہری حقوق منجملہ تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار جیسی سہولیات سے محروم ہوگئے۔ حکومت کی جانب سے طرح طرح کی صعوبتوں کے سبب روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہمسایہ یا دیگر مسلم ممالک میں رہائش پذیر ہوگئی۔ پاکستان میں تقریبا اڑھائی لاکھ روہنگیا مسلمان آباد ہیں، اسی طرح بنگلہ دیش، سعودی عرب، تھائی لینڈ، ملائشیا، عرب امارات، ہندوستان میں بھی روہنگیا مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔ دوسرے ممالک میں پناہ لینے والے ان افراد کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ کے قریب ہے۔

راکھائن کے مسلمان تقسیم ہند کے وقت بہت فعال تھے، ان کی خواہش تھی کہ راکھائن صوبہ کو مشرقی پاکستان کا حصہ بنایا جائے، تاہم ایسا نہ ہونے کے بعد راکھائن کے مسلمانوں نے مجاہد پارٹی کے نام سے ایک جہادی گروہ کی بنیاد رکھی۔ ان کا مقصد ایک آزاد ریاست کا قیام تھا، یہ پارٹی 1962ء تک فعال رہی۔ فوجی آمریت کے قیام کے بعد راکھائن ریاست میں کنگ ڈریگن کے نام سے 1978ء میں ایک بڑا فوجی آپریشن کیا گیا، جس کے سبب لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ روہنگیا مسلمان ہمیشہ فوجی جنتا کے خلاف رہے اور ملک میں جمہوریت کے لئے کی جانے والی کوششوں کے حامی رہے، تاہم فوجی جنتا روہنگیا مسلمانوں کی نہ صرف شہریت کی قائل نہیں بلکہ مذہبی کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے بدھوں کو ان کے خلاف اکساتی رہی ہے۔ بدھ مت کے پیروکار روہنگیا اور چینی پس منظر کے حامل میانمار کے شہریوں کے خلاف اکثر و بیشتر نفرت اور شدت پسندی کو فروغ دیتے رہتے ہیں، جس کے سبب بہت سے فسادات ہوچکے ہیں۔ 2012ء میں جمہوریت کے قیام کے وقت فوج نے مذہبی فسادات کو ہوا دی، تاکہ اپنے آپ کو میانمار میں بدھ مت کے محافظ کے طور پر پیش کرسکیں۔ روہنگیا مسلمانوں اور راکھائن کے بدھ پیروکاروں کے مابین ہونے والے ان فسادات میں دسیوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے اور تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ 2015ء میں ایک مرتبہ پھر راکھائن کے علاقے میں فسادات ہوئے، جس میں روہنگیا کے مسلمانوں کو عالمی میڈیا میں کافی پذیرائی ملی اور ’’بوٹ پیپل‘‘ کے عنوان سے ان کا خوب چرچا کیا گیا۔ اس عرصے میں بھی بہت سے روہنگیا مسلمان ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوئے، جن میں سے کئی ایک کو سمندری لہروں کی نظر ہونا پڑا۔ اگلے برس یعنی 2016ء میں ایک مرتبہ پھر راکھائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج اور بدھ آبادی نے کریک ڈاون کیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان خانماں برباد ہوئے۔

میانمار میں جاری ایک اور قضیہ کاچن کی آزادی کی تحریک ہے، جس کی بنیاد برطانوی دور حکومت میں ہی رکھی گئی۔ اس تحریک میں حکومت اور کاچن تحریک کے اراکین کے مابین ہونے والی مختلف جھڑپوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد اس خانہ جنگی کے سبب نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ کاچن جنگجو بھی 1962ء سے میانمار کی افواج کے ساتھ برسر پیکار ہیں، یہ مذہبی جنگ نہیں بلکہ سیاسی نیز مفادات کی جنگ ہے۔ کوکنگ معرکہ 2015ء میں چینی پس منظر کے حامل باغیوں اور میانمار کی افواج کے مابین لڑا گیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں انسان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ میانمار کی حکومت پر 2012ء تک یورپی اور امریکی پابندیاں قائم رہیں، جبکہ اس ریاست کے ہندوستان، چین اور روس سے اچھے روابط ہیں۔ ہندوستان نے میانمار میں تیل و گیس کی دریافت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ہائیڈرو پاور کے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ دفاع کے شعبے میں چین میانمار کا سب سے اہم سرمایہ کار ہے۔ اسی طرح چین نے میانمار میں تیل اور گیس کے شعبے میں بھی سرمایہ کر رکھی ہے۔ چین اور میانمار کے مابین تیل اور گیس کی ایک پائپ لائن کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔ میانمار کی زیادہ تر برآمدات کا حصہ چین، ہندوستان، سنگاپور، فلپائین، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ سے آتا ہے، جبکہ مغربی اور یورپی ریاستوں کی جانب سے میانمار کو ہمیشہ پابندیوں کا سامنا رہا۔ اقوام متحدہ کے مختلف ادارے اور مغربی ریاستیں میانمار میں جاری نسلی فسادات، فوجی آمریتوں کے خلاف اقدامات کرتی رہیں، جن کا بنیادی سبب آمریت یا انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا نہیں بلکہ میانمار کے فوجی آمروں اور ریاستی اداروں کا چین اور روس کی جانب جھکاؤ تھا۔ آج یہ حقیقت دنیا پر روز رشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ مغرب کی جمہوریت کے لئے تگ و دو اور آمریت کے خاتمے کی کوششیں نیز انسانی حقوق کے لئے آوازیں وہیں بلند ہوتی ہیں، جہاں ان کا کوئی اقتصادی، سیاسی یا معاشی مفاد نہ ہو۔ جس خطے میں ان کا سیاسی، فوجی، اقتصادی یا اسی قبیل کا کوئی مفاد موجود ہو، وہاں کی آمریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سب جائز ہو جاتی ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کے بعد جمہوری حکومت کا خاتمہ اور سیسی کی آمریت کا دوبارہ قیام، یمن، بحرین اور الشرقیہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی ایسی ہی چند مغربی پالیسیوں کے زندہ مظاہر ہیں۔

میانمار کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی ہر مسلمان کا فریضہ اور دینی تقاضا ہے، تاہم سوشل میڈیا پر آنے والی میانمار کے حوالے سے بے پناہ بے بنیاد تصاویر اور ویڈیوز کے تلاطم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بڑے ہی منظم انداز سے ہمارے اس دینی تقاضے اور جذبہ دین داری کو اپنے سیاسی اہداف تک پہنچنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سان سو چی کے نوبل انعام کی واپسی کے تقاضے سے لے کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بیان تک، امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ کی جانب سے میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبروں سے لے کر سوشل میڈیا پر آنے والے تصاویر اور ویڈیوز کے طوفان تک ہر بات قابل غور ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی دلخراش تصاویر اور ویڈیوز فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا چینلز پر عام ہیں اور افواج پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جنرل صاحب فوج اتارو، ہم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جو تصاویر اور ویڈیوز آپ دیکھ رہے ہیں، ان کا منبع کیا ہے اور کیا واقعی وہ برہنہ اجسام جو ان تصاویر اور ویڈیوز میں دکھائے جا رہے ہیں، روہنگیا مسلمانوں کے ہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ روہنگیا مسلمان قدرے سیاہی مائل ہیں اور میں نے اکثر ایسی دلخراش تصاویر نیز ویڈیوز دیکھیں، جس میں مقتول یا مرحوم کا جسم سفید ہے۔ کون ہے جو ہمارے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان کو استعمال کرنے کے درپے ہے۔ وہ کیا مفادات ہیں جو ہمارے اس مذہبی ہیجان سے حاصل کئے جائیں گے۔ کیا یمن کا مسلمان روہنگیا مسلمان سے کم تر ہے، جس کا مرنا ہمیں غیرت نہیں دلاتا۔ ہمیں جذباتی ردعمل کے بجائے وہ عملی راستے تلاش  کرنے ہوں گے، جس سے ہم روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد کرسکیں اور انہیں میانمار میں اپنا جائز مقام دلا سکیں۔


خبر کا کوڈ: 667354

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/667354/قضیہ-میانمار-جہتیں-اور-جذباتی-ردعمل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org