0
Friday 8 Sep 2017 18:12

خیبر پختونخوا حکومت کی ڈینگی پر سیاست؟؟؟

خیبر پختونخوا حکومت کی ڈینگی پر سیاست؟؟؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

1775ء کے عشرے میں جب ایشیا، افریقا اور شمالی امریکہ میں ایک ایسی بیماری پھیلی کہ جس میں مریض کو یکدم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی سر میں درد اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتا، جبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد، خونی الٹیاں اور خونی پیچش کی بھی شکایت ہو جاتی، یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار مر جاتے۔ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی، جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے، جس کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ 1979ء میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو بخار (Dengue fever) کا نام دیا گیا۔ ڈینگو "dengue" اسپینی زبان کا لفظ ہے، جس کے معانی cramp یا seizure کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا۔ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ سے چھ سال میں پھیلتی رہتی ہے۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماری ہے، اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔ یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی، تاہم 2003ء سے Pediatric Dengue Vaccine Initiative (PDVI)) پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے، جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اگرچہ اس ویکسین کے تین ہزار سے پانچ ہزار افراد اور مختلف جانوروں پر تجربے کئے جا چکے ہیں، جن کے ابھی تک قدرے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

2002ء میں سوئس فارما کمپنی اور Singapore Economic Development board نے مشترکہ طور پر اس وائرس کے خاتمے کی دوا تیار کرنے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ اس وبا سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اور گندے پانی کے جوہڑوں، گلی کوچوں میں جراثیم کش ادویات کا مسلسل سپرے کیا جائے، تاکہ ڈینگو مچھر کی افزائش گاہیں ختم ہو جائیں جبکہ انفرادی طور پر رات کو مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور گھروں میں مچھر کش ادویات اسپرے کی جائیں۔ پاکستان بھی ڈینگی وائرس سے متاثرہ ممالک میں سے ایک ملک ہے، ان دنوں ڈینگی وائرس کا جن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں بےقابو ہو رہا ہے اور پشاور سمیت کئی علاقوں میں پھیل گیا ہے۔ کے پی کے میں ڈینگی وائرس سے اب تک 18 افراد جاں بحق اور ہزاروں کی تعداد میں متاثر ہوچکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے کچھ کارکنوں کو یہ اعتراض ہے کہ ڈینگی کے معاملے پر پنجاب حکومت سیاست کر رہی ہے۔ پنجاب حکومت ٹیمیں بھجوا کر اور وفاقی حکومت مرنے والے کے لواحقین کو دو دو لاکھ روپے دے کر سیاست کر رہی ہیں، لیکن سیاست کا ایک مطلب خدمت بھی تو ہوتا ہے تو اگر کوئی دور سے آکر ایسی سیاست کرتا ہے تو ہمیں ہمیشہ ایسی سیاست کو خوش آمدید کہنا چاہیئے۔ یکم اگست کو محکمہ صحت خیبر پختونخوا کی جانب سے ایک مراسلہ ارسال کیا گیا، جس میں ڈینگی وائرس کی موجودگی کا انکشاف کرتے ہوئے کہا گیا کہ گذشتہ تین ہفتوں میں ڈینگی کے 115 مشکوک کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس لئے اراکین اسمبلی اور ضلع ناظم ڈینگی کی روک تھام کےلئے اقدامات اٹھائیں۔

اس کے بعد 2 اگست کو خبر سامنے آئی کہ پشاور میں ڈینگی وائرس متحرک ہوا ہے اور پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ڈینگی سے متاثرہ 74 مریض لائے گئے، جن میں سے ایک مریض دم توڑ گیا ہے۔ مریضوں کا تعلق تہکال سے تھا، یہ خبریں سامنے آتی رہیں، لیکن صوبائی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ مریضوں کے لئے طبی سہولیات اور ڈینگی لاروا کو تلف کرنے کے لئے اقدامات تو دور کی بات صوبائی حکومت ڈینگی ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ 3 اگست کو جمعیت علماء اسلام (ف) پشاور نے ڈینگی وائرس کو پہلی بار سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا اور تہکال میں ڈینگی کی وباء کے پھیلنے کی طرف نہ صرف توجہ دلائی بلکہ حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے صورتحال کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا، لیکن تین یوم میں صورتحال بہتر نہ ہوئی تو باقاعدہ احتجاج کیا، جس میں انہوں نے یونیورسٹی روڑ کو بلاک کر دیا، لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ وائرس پھیلتا رہا، لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر صحت اس دوران ملائشیا میں رہے اور صوبہ وزیر صحت کے بغیر رہا۔ مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا، لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہ دی۔ ایسے میں پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل محب اللہ کاکا خیل نے رٹ جمع کرائی کہ اور عدالت میں حکومتی بےحسی کا رونا رویا، جس پر پشاور ہائیکورٹ نے ڈینگی کے خاتمے کے لئے محکمہ صحت کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہ کرنے پر متعلقہ حکام سے جواب طلب کیا۔ نوٹسز ملنے کے بعد پشاور کے علاقے تہکال میں سپرے مہم شروع کی گئی اور انتطامات کئے گئے، لیکن یہ وہ وقت تھا جب ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 500 سے تجاوز کر گئی تھی اور ڈینگی کے باعث مرنے والوں کی تعداد 10 تھی۔ اس تمام تر صورتحال میں قومی میڈیا نواز شریف کے پانامہ کیس میں معزول ہونے کے بعد سے لیکر اسلام آباد سے رائیونڈ تک مارچ میں مصروف تھا اور صبح سے رات اور رات سے صبح تک صرف نواز شریف اور پانامہ کی خبریں چلتی رہیں۔

ان اوقات میں شہرام تراکئی بھی وطن واپس آگئے تھے اور اس کے بعد اپنے اور وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے ساتھ سیاسی معاملات اور گلے شکووں کے حل کے لئے اسلام آباد میں مقیم رہے۔ اگر کسی نے ڈینگی کے حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو شہرام تراکئی نے کوئی جواب نہ دیا۔ ڈپٹی کمشنر پشاور ڈینگی کے حوالے سے صحافیوں کو مس گائیڈ کرتے رہے اور کہتے رہے کہ صرف ایک شخص اب تک ڈینگی سے مرا ہے۔ اس دوران مقامی افراد میڈیا سے رابطے میں رہے اور اس معاملے کو میڈیا کے پلیٹ فارم سے اٹھانے کی درخواست کرتے رہے، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندے بھی شامل تھے۔ وائرس پھیلتا رہا اور میڈیا اسلام آباد سے روانہ نواز شریف کے قافلے اور اس کے بعد یوم آزادی کی خبریں دینے میں مصروف رہا۔ 14 اگست کو عوام کے پرزور اصرار پر میڈیا نے اس خبر کو مناسب کوریج دی۔ یہ کوریج عوام کے اصرار پر تھی جو کہ کم از کم 15 دن تاخیر سے دی گئی۔ بلدیاتی نمائندوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آکر ڈینگی کے حوالے سے ان کی مدد کرے، جس پر پنجاب حکومت کے حکم پر موبائل یونٹ پشاور پہنچی اور سیاست شروع کر دی، یہ موقع خود خیبر پختونخوا حکومت نے پنجاب کو فراہم کیا۔ حکومت کی جانب سے اب بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جا رہی ہے اور ہسپتالوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ڈینگی کے مریضوں کے معاملات کسی سے شیئر نہ کریں۔ صوبائی حکومت ایسے میں جب ڈینگی وائرس کا کوئی وار خالی نہیں جا رہا اور ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد پشاور میں 3500 سے تجاوز کر گئی ہے، اس کو قابو کرنے میں کس حد تک سنجیدہ ہے، اس بات کا اندازہ متاثرہ مریضوں کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

گورنر ہاوس میں ڈینگی کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں وزیر صحت پنجاب نے خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ اجلاس میں پنجاب حکومت کی جانب سے ڈینگی کے بچاو کی سہولیات اور آلات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ پنجاب کے وزیر صحت نے پیشکش کی کہ اگر خیبر پختونخوا حکومت ایسا نظام قائم کرنا چاہتی ہے تو ہم سہولیات فراہم کرنے کو تیار ہیں، پنجاب حکومت ماسٹر ٹرینرز فراہم کریگی۔ ڈپٹی کمشنر پشاور نے لوڈشیڈنگ کو ڈینگی پھیلنے کی بڑی وجہ قرار دیا۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے سینیئر وزیر صحت شہرام خان ترکئی نے اس الزام کو رد کیا کہ کے پی حکومت ڈینگی پہ سیاست کر رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر میں ڈینگی سے اب تک 18 اموات ہوئی ہیں، 3500 متاثرہ افراد کو صحتیابی کے بعد ہسپتالوں سے فارغ، جبکہ 450 تاحال مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ صوبائی حکومت نے ملک کی تاریخ میں سب سے پہلے پبلک ہیلتھ سرویلنس ایکٹ 2017ء پاس کیا ہے، جس کے تحت اب کسی بھی مرض کے پھیلتے ہی صوبے میں ایمرجنسی نافذ کر سکیں گے، ڈینگی کا مکمل خاتمہ ناممکن ہے، تاہم اس کو جلد کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے شہرام تراکئی کا کہنا تھا کہ پبلک ہیلتھ سرویلنس ایکٹ پاس ہوچکا ہے، جتنی بھی خطرناک بیماریاں ہوںگی، ان کے لئے اس ایکٹ کے تحت ایمرجنسی نافذ کی جائے گی۔ ایکٹ کے حوالے سے پہلی میٹنگ آج منعقد ہوئی، جس میں مختلف امراض پر غور و خوض کیا گیا، جبکہ تعلیمی اداروں میں ہیلتھ کے موضوعات پر سبق پڑھایا جائے گا، تاکہ بچوں کو بیماریوں سے متعلق آگاہی مل سکے۔ وزیر صحت شہرام خان تراکئی کا کہنا تھا کہ صرف ڈینگی نہیں ہیلتھ میں اور بھی مسائل ہیں، جنہیں حل کرنا ہے۔ پشاور کے علاوہ مردان، بونیر اور دیگر علاقوں میں ڈینگی وائرس پھیلتا جا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ گھروں میں موجود پانی کی ٹینکیوں پر ڈھکن کی عدم موجودگی ہے۔ محکمہ صحت کی ٹیمیں اپنا کام بخوبی کر رہی ہیں جبکہ پشاور میں 20 دنوں میں 75 ہزار گھروں کو کلیئر کر دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ جہاں سے کیس سامنے آئے گا، وہاں صفائی ہوگی، تاہم احتیاطی تدابیر کی بھی اشد ضرورت ہے، جس کے لئے ہمیں عوام کے مکمل تعاون کی ضرورت ہے، جو ہمیں نہیں مل رہا، پنجاب کی ہیلتھ ٹیم کو دوبارہ خوش آمدید کریں گے، لیکن انسانی جانوں کے معاملے میں سیاست نہیں ہونی چاہیئے، بعض سیاستدانوں کی جانب سے پشاور کے ہسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے دعوے پر شہرام ترکئی کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں اور انسانی جانوں پر سیاست کرنے سے باز رہیں، کیونکہ اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہے جس پر سیاست کی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 667394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش