QR CodeQR Code

روہنگیا مظلوموں کو ان جہادیوں سے بچاؤ

9 Sep 2017 10:33

اسلام ٹائمز: پچھلے چند دنوں سے کچھ لوگ کمپیئن چلا رہے ہیں کہ برما میں جہاد فرض ہوچکا ہے، یہ لوگ روہنگیا مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ تمام امت کا فرض بنتا ہے کہ سب ملکر ان مظلوم مسلمانوں کو ان جہادیوں سے بچائیں، کیونکہ یہ جہادی جہاں بھی گئے ہیں، انہوں نے تباہی پھیلائی ہے۔ یہ افغانستان گئے تو افغانستان تباہ کروا دیا، یہ ابوبکر بغدادی کی شکل میں عراق گئے تو عراق کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا، دولت اسلامیہ کی شکل میں شام آئے تو شام کی اینٹ سے اینٹ بجوا دی۔ اسی طرح لیبیا سے لیکر نائیجیریا تک ان جہادیوں نے مسلمانوں کا بہت نقصان کیا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے جب استعمار نے کسی مسلمان ملک کو تباہ برباد کرنا ہوتا ہے تو وہ یہ کام ان سے لیتا ہے۔ برما میں بھی یہ ایک فوجی کو قتل کرکے ایک ہزار مسلمانوں کے قتل کا لائسنس برمی فوج کو دے دیتے ہیں۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

روہنگیا کے مظلوم مسلمان اس وقت شدید کرب کے عالم میں ہیں۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، ہر روز ظلم و ستم کی ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ دل دہل جاتا اور روح کانپ جاتی ہے۔ دو صدیوں سے آباد یہ مظلوم و محنت کش لوگ، جن کی تعداد تیرہ لاکھ بتائی جاتی ہے، جدید دور کی بربریت کا شکار ہیں۔ دنیا مظلوم کی مدد اس کا پاسپورٹ، رنگ اور مذہب دیکھ کرتی ہے۔ اسی لئے امریکہ، یورپ، ایشاء اور افریقہ کے مظلوموں کے الگ الگ درجات ہیں۔ اسی طرح ملحد، مسیحی، مسلمان، بدھ، ہندو اور دیگر مذاہب کے اعتبار سے ظلم پر ردعمل الگ الگ ہوگا۔ یقین نہ آئے تو 11ستمبر اور فرانس میں ٹرک حملے میں مظلوم مارے جانے والے انسانوں جیسا ردعمل کبھی ایشیاء اور افریقہ کے کسی ظالمانہ حملے میں مارے جانے والے آدمؑ کے بیٹوں پر نظر نہیں آئے گا۔ روہنگیا کی مظلومانہ تاریخ بھی ستر سال کی ہوگئی ہے، ان مسلمانوں کے دلوں میں اسلام سے محبت کا دیا جلتا ہے، اسی لئے جب ہندوستان میں تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو یہاں کے مسلمانوں نے پاکستان میں شمولیت کے لئے تحریک چلائی، جس میں انہیں شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا مداوا کرنا دنیا کے تمام اسلامی ممالک پر فرض ہے، مگر اہل پاکستان پر یہ ذمہ داری اس لحاظ سے دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ 1948ء میں ان کے خلاف شدید آپریشن کیا گیا، 1968ء میں بھی ان کے خلاف آپریشن ہوا، آخری آپریشن 2012ء میں کیا گیا تھا اور اب ایک خونی آپریشن جاری ہے، ان آپریشنز کے نتیجہ میں لاکھوں لوگوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا، بستیوں کو آگ لگا دی گئی، حد یہ ہے کہ بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا گیا۔

روہنگیا کی مظلومیت کے کئی عناوین ہیں، قتل کرنا، گھر جلانا، اغوا کرنا یہ تو انتہائی اقدام  ہیں، اس کے علاوہ بھی ان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے۔ ان کو 1981ء میں آئینی طور پر برمی شہری ماننے سے انکار کر دیا گیا اور انہیں آبادکار کہا گیا۔ ظاہراً یہ ایک چھوٹا فیصلہ لگتا ہے، اس نے اس کمیونٹی کو تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔ زمین خریدنا، ہسپتال سے علاج، تعلیمی اداروں میں داخلہ، سرکاری ملازمتوں میں حصہ اور دیگر تمام امور سے محروم جن کا تعلق ریاست کے شہری ہونا سے ہوتا ہے، انہیں ان سے محروم کر دیا گیا۔ روہنگیا کی خاموشی سے نسل کشی کی جا رہی ہے، انہیں دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہے، ان کے علاقوں میں طبی سہولیات نہیں ہیں، یہ روزگار کے مواقع سے محروم ہیں، تعلیم کا نہ ہونا ان کو انتہا پسندی اور مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ اس صورت حال میں کس قسم کے اقدامات کئے جائیں، جس سے ان کی نسل کشی کو روکا جا سکے اور  ان مظلوموں کو سکون میسر آسکے۔ اس حوالے سے کئی تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ مشکل وقت میں درست فیصلہ انسانی دانش کا امتحان ہوتا ہے، جذبات لگی آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بنتے ہیں۔ کچھ  اقدامات انتہائی ضروری ہیں، جس سے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کم ہوں گے۔ روہنگیا مسلمانوں نے خود کو الگ تھلک کر لیا ہے یا انہیں برما کے معاشرے میں الگ تھلگ کر دیا گیا ہے، سب سے پہلے تو انہیں چاہیے کہ خود کو برما کی سوسائٹی کا ایک مؤثر حصہ بنائیں، مجھے انتہائی دکھ ہوا کہ برما کے دیگر علاقوں میں رہنے والے مسلمان بھی روہنگیا کے موقف کی تائید نہیں کرتے۔ بدھ کمیونٹی کے دو گروپ ہیں۔ انتہاء پسند گروپ کے ساتھ چند بڑے مراکز اور آرمی کا تعاون ضرور ہے، مگر ایک بہت بڑا بدھ مذہبی گروپ اچھے خیالات کا حامل ہے، ان کے ساتھ اتحاد کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

برما کی حکومت کے چائینہ سے بہت قریبی تعلقات ہیں، چائنہ برما میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے، برما کی فوج بڑی تعداد میں اسلحہ، بارود اور ٹریننگ چائینہ سے لیتی ہے اور چائینہ سے ایک اقتصادی راہداری برما تک جاتی ہے، اسی لئے بعض لوگ اس مخصوص وقت میں اس مسئلہ کو اس شدت سے اٹھائے جانے کا تعلق وہاں امریکی چائینی کشمکش سے بھی جوڑتے ہیں۔ اب انڈیا بھی اس کا حصہ بن چکا ہے، پاکستان کی حکومت چائینہ کے ذریعے دباؤ ڈلوا کر کم از کم آپریشن رکوا سکتی ہے، تاکہ یہ قتل عام ختم ہوسکے۔ ملائشیا، سعودیہ اور گالف کے دیگر ممالک میں بڑی تعداد میں برما کے لوگ بسلسلہ روزگار مقیم ہیں بلکہ بعض رپورٹس کے مطابق پانچ لاکھ سے زیادہ برمی صرف ملائشیا میں کام کرتے ہیں، مسلمان ممالک ملکر برما کی اس معاشی کمزوری کا فائدہ اٹھائیں اور اسے مجبور کریں کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر تشدد بند کرکے ان کے انسانی حقوق بحال کرے۔ 41 ملکی فوجی اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ یہ اتحاد صرف سعودی عرب کی حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے تو جواب دیا گیا کہ یہ اتحاد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ یہ اچھا موقع تھا کہ یہ اتحاد ان مظلوم مسلمانوں کے لئے کوئی عملی اقدام کرتا، بہت دکھ ہوا کہ یہ اتحاد ان مظلوموں کے لئے عملی اقدام تو کیا کرتا ایک بیان تک نہ دے سکا۔ عملی طور پر ثابت ہوگیا کہ اس اتحاد کا مسلم مفادات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ چند ممالک کے مفادات کی ایک تنظیم ہے۔ مسلمان حکومتوں کو انٹرنشنل فورمز پر اس مسئلہ کو مؤثر انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے، اس وقت تک اس حوالے سے کوئی توانا آواز نہیں اٹھائی گئی۔ مسلمان ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر کوئی فیصلہ کرکے مشترکہ طور پر اسے اقوام متحدہ میں اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کو متحرک کیا جائے، اس سے بین الاقومی رائے عامہ ہموار ہوتی ہے۔

عام مسلمان عوام سوشل میڈیا پر ان مظلوموں کے حق میں مہم جاری رکھیں، بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو ای میلز اور کمنٹس کے ذریعے اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں، بین الاقوامی اداروں کو ای میلز کریں، ان کو پٹیشنز بھجوائیں، اس سے بین الاقوامی برادری کو مسئلہ کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے کچھ لوگ کمپیئن چلا رہے ہیں کہ برما میں جہاد فرض ہوچکا ہے، یہ لوگ روہنگیا مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ تمام امت کا فرض بنتا ہے کہ سب ملکر ان مظلوم مسلمانوں کو ان جہادیوں سے بچائیں، کیونکہ یہ جہادی جہاں بھی گئے ہیں، انہوں نے تباہی پھیلائی ہے۔ یہ افغانستان گئے تو افغانستان تباہ کروا دیا، یہ ابوبکر بغدادی کی شکل میں عراق گئے تو عراق کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا، دولت اسلامیہ کی شکل میں شام آئے تو شام کی اینٹ سے اینٹ بجوا دی۔ اسی طرح لیبیا سے لیکر نائیجیریا تک ان جہادیوں نے مسلمانوں کا بہت نقصان کیا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے جب استعمار نے کسی مسلمان ملک کو تباہ برباد کرنا ہوتا ہے تو وہ یہ کام ان سے لیتا ہے۔ برما میں بھی یہ ایک فوجی کو قتل کرکے ایک ہزار مسلمانوں کے قتل کا لائسنس برمی فوج کو دے دیتے ہیں۔ یہ ایک چوکی کو آگ لگا کر دس مسلمان بستیوں کو جلانے کا جواز فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اس سے ان مظلوموں کی مزید لاشیں گریں گی اور کئی بستیوں کو جلایا جائے گا۔ مسئلہ کا مستقل حل تو وہی ہے، جو امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل ان  کے اتحاد میں ہے۔ اتحاد ہوتا تو نائجیریا سے برما تک خون مسلم یوں پانی سے بھی سستا نہ ہوتا۔ کاش ہم سب مصور پاکستان، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی عملی تصویر بن جائیں:
اخوت اسکو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے


خبر کا کوڈ: 667592

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/667592/روہنگیا-مظلوموں-کو-ان-جہادیوں-سے-بچاؤ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org