0
Monday 11 Sep 2017 18:27

وفاقی حکومت کی پرنٹ میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش، صحافی برادری بھی صف آراء ہوگئی

وفاقی حکومت کی پرنٹ میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش، صحافی برادری بھی صف آراء ہوگئی
رپورٹ: ایس ایم عابدی

مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے پرنٹ میڈیا کو کنٹرول اور آزادی صحافت پر قدغن لگانے کیلئے قانون سازی کا مسودہ مرتب کرلیا ہے، یہ قانون سازی اتنی جلدی میں کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس پر آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز سمیت صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اس قانون سازی کو صدارتی آرڈیننس کی شکل میں یا پھر پارلیمنٹ سے منظور کرائے جانے کا امکان ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پرنٹ میڈیا کیلئے اس ممکنہ قانون سازی کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس نے مسترد کر دیا ہے۔ پی ایف یو جے اور کے یو جے نے حکمران مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے اس قانون کو منظور کرانے کی کوشش کی تو ملک بھر میں احتجاج، مظاہرے، دھرنے اور تادم مرگ بھوک ہڑتالیں کی جائیں گی۔ اطلاعات ہیں کہ اخبارات اور چھاپے خانوں کے حوالے سے اہم ترین قانون سازی کو پریس کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جاسکتا ہے، یہ ممکنہ قانون سازی پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کہلائے گا۔ مجوزہ آرڈیننس میں صحافتی شکایات کے ازالے کیلئے قائم پریس کونسل کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کی جگہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جس کا اطلاق پورے پاکستان پر اور فوری طور پر ہوگا۔

آرڈیننس پر عمل درآمد کے حوالے سے پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جسے وفاقی حکومت جب ضروری سمجھے ہدایات جاری کر سکے گی۔ مجوزہ آرڈیننس میں جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں، ان کے تحت اخبارات کی 16 دنوں کیلئے بندش، دفاتر بند کرنا، 10 لاکھ روپے جرمانہ اور 6 ماہ قید تک کی سزائیں شامل ہیں۔ اخبارات کو ڈیکلریشن دینے کے بجائے اجراء کیلئے لائسنس جاری ہوگا، جس کی ہر سال تجدید کرانا ہوگی، اس سلسلے میں قائم اتھارٹی کا فیصلہ حتمی ہوگا، جو چیئرمین اور 12 ارکان پر مشتمل ہوگی، جس میں 4 ارکان اخباری تنظیموں اور 8 حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے۔ یہ اتھارٹی ملک میں ایک پریس رجسٹرار نامزد کریگی، جسے متعدد اختیارات دیئے جائیں گے، جن میں اخبارات کا ڈکلیریشن منسوخ کرنے اور معطل کرنے، چھاپے خانوں اور اخبارات کے دفاتر میں داخل ہوکر معائنہ کرنے سمیت دیگر سخت اقدامات شامل ہیں، اخبارات اور کتاب پر مالک کا نام بھی لازمی شائع کرنا ہوگا۔ پریس کونسل میں ممکنہ طور پر پیش کئے جانے والے آرڈیننس کو منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کی اہم شقوں کے مطابق کسی بھی اخبار کو شائع ہونے کیلئے سال بھر کا لائسنس لینا ہوگا، جو پہلے ڈکلیریشن کہلاتا تھا۔ اس لائسنس کی ہر سال تجدید کرانا ہوگی، تاہم اتھارٹی کے پاس اختیارات ہوں گے کہ وہ چاہے تو لائسنس کی تجدید نہ کرے، کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کی صورت میں اخبارات کے مالکان پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ایک ہی صوبے میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں بھی اگر چھاپہ خانہ منتقل کرنا ہو تو اجازت لینی ہوگی، بصورت دیگر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

پی پی ایم آر اتھارٹی کے 12 ارکان ہوں گے، جن میں سے سپریم کورٹ کے سابق جج یا سپریم کورٹ کے جج کی اہلیت کے حامل فرد کو چیئرمین نامزد کیا جائے گا۔ چیئرمین اتھارٹی کی نامزدگی کا اختیار صدر پاکستان کے پاس ہوگا۔ چیئرمین اتھارٹی کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی کے کسی بھی فرد کو نامزد کر دے، جو اخبارات کے دفاتر اور چھاپے خانوں میں جاکر معائنہ کرے اور اپنی رپورٹ 48 گھنٹے میں اتھارٹی کو پیش کرے، رپورٹ کی بنیاد پر اخبارات کے مالکان کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا اور تسلی بخش جواب نہ ملنے پر لائسنس منسوخ، معطل یا جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ معائنہ کسی بھی فرد کی شکایت پر کیا جاسکتا ہے اور مکمل اختیارات اتھارٹی چیئرمین کے پاس ہوں گے۔ اتھارٹی چیئرمین وفاقی حکومت کی ہدایت پر عمل کرے گا اور کسی بھی معاملے پر اگر کوئی سوال اٹھا تو حتمی اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوگا۔ مسودہ قانون میں بظاہر کہا گیا ہے کہ اخبارات کی آزادی برقرار رکھی جائے گی، تاہم دیکھا جائے تو اخبارات پر سخت نگرانی، ایڈیٹر اور ڈیسک انچارج سے سوال کرنے کا اختیار بھی اتھارٹی کے پاس ہوگا۔ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں سمیت جہاں ضروری سمجھے گی کونسل برائے شکایات کا دفتر قائم کرے گی۔

کونسل کو اختیار ہوگا کہ وہ پرنٹ میڈیا کے خلاف تنظیموں یا فرد کی جانب سے شکایات وصول کرے، ہر کونسل کا چیئرپرسن ہائیکورٹ کا ریٹائرڈ جج ہوگا، کونسل کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ ایڈیٹر، پبلشر یا اخبار مالک کے خلاف سمن جاری کرسکے۔ یہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ شکایت کنندہ پہلے ایڈیٹر، پبلشر یا اخبار مالک کو شکایت کرچکا ہوگا اور اگر وہ اس کی شکایت پر 15 دن میں کوئی کارروائی نہیں کریں گے تو وہ کونسل کو شکایت کرسکے گا۔ شکایت کنندہ کو پی پی ایم آر اے کے نام ایک ہزار روپے جمع کرانا ہون گے اور اگر وہ کوئی تنظیم ہے تو یہ فیس 5000 روپے ہوگی۔ اگر شکایت کنندہ کی شکایت صحیح ثابت ہوگئی تو کونسل اخبار کے مالک، ایڈیٹر یا پبلشر کو پابند کریگی کہ وہ معافی نامہ یا وضاحت شائع کرے۔ اتھارٹی کی جانب سے کئے گئے کسی فیصلے پر فرد یا ادارہ 30 دن کے اندر اپیل کرسکے گا، تاہم آخری فیصلہ اتھارٹی چیئرمین کا ہی ہوگا۔ آرڈیننس کے تحت اگر کوئی پرنٹ میڈیا ہاؤس، تقسیم کار کمپنی یا فرد آرڈیننس کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اس پر 50 لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جائیگا۔ اگر اخبار یا فرد دوبارہ اسی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اس پر ایک سال کی مزید پابندی یا 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں عائد کیا جاسکتا ہے۔ بغیر لائسنس کے پرنٹ میڈیا یا چھاپے خانے پر عدالتی احکامات کے بعد سرچ آپریشن کیا جاسکے گا اور اسے منجمد کر دیا جائیگا۔

پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء میں کتابوں کی اشاعت پر بھی سخت نگرانی رکھی گئی ہے۔ پاکستان میں شائع ہونے والی کتاب یا اخبار پر پرنٹر کا نام، شائع ہونے کی جگہ، تاریخ اور پریس کا نام بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پرنٹنگ پریس کے مالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تمام شائع شدہ مواد کا ریکارڈ رکھے گا اور ہر ماہ چیئرمین کو کاپی فراہم کرے گا۔ پرنٹ میڈیا کو پابند کرنے کے حوالے سے اس نئے آرڈیننس کی اطلاعات پر صحافتی اداروں اور تنظیموں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اسے بنیادی صحافتی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ آزادی صحافت کی ملک کے آئین میں ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ صحافتی اقدار اور اس کی آزادی کے منافی اقدامات سے گریز کرے۔ اس حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم، سیکرٹری جنرل جی ایم جمالی اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر حسن عباس، آر آئی یو جے کے صدر شکیل احمد، پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزاد بٹ اور دیگر رہنماؤں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس قانون سازی کے ذریعے پرنٹ میڈیا کی آزادی سلب کرنا چاہتی ہے، ایسے اقدامات سابق صدر ایوب خان اور ضیاء الحق کے دور میں بھی کئے گئے، لیکن ماضی کی حکومتیں ناکام رہیں، نون لیگ کی وفاقی حکومت ایسے اقدام سے باز رہے، اگر ایسی قانون سازی کرانے کی کوشش کی گئی تو حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ کی حکومت کا یہ اقدام آمرانہ تصور کیا جائے گا، صحافی کسی صورت میں ایسے قانون کو قبول نہیں کریں گے، جس سے ان کا روزگار متاثر ہو، نون لیگ کی وفاقی حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوگا، وفاقی حکومت اس قانون سازی کو فوری موخر کرے۔

سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈان لیکس کے معاملے کے بعد اہم اور ذمہ دار حلقوں کا وفاقی حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ الیکٹرانک میڈیا کی طرح پرنٹ میڈیا کیلئے بھی قوانین بنائے، یہ اقدام اس ہی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس حوالے سے سینیئر ایڈیٹر اور سی پی این ای کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ اس قانون سازی کو حکومت پریس کونسل کے اجلاس میں پیش کرنے جا رہی ہے، یہ مجوزہ آرڈیننس 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی سازش ہے، 18 ویں ترمیم کے مطابق اخبارات اور رسائل کو ڈکلیریشن جاری کرنا وفاق نہیں صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کے ذریعے پرنٹ میڈیا کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتی ہے، اس قانون سازی کے ذریعے اخبارات کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کی منظوری آزادی اظہار، آزادی صحافت، معلومات تک رسائی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون پر سی پی این ای مشاورت کے بعد سخت احتجاج کرے گی اور اس کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور اس معاملے میں سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں سے رابطہ کریں گے، اس قانون کو کسی صورت میں نافذ العمل نہیں ہونے دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 668233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش