0
Wednesday 13 Sep 2017 11:57

شام کی رزم آرائی، کیا معرکہ ابھی جاری ہے؟

شام کی رزم آرائی، کیا معرکہ ابھی جاری ہے؟
تحریر: ثاقب اکبر

سید حسن نصراللہ نے 12 ستمبر 2017ء کو ٹیلی ویژن پر اپنے ایک لائیو خطاب میں اعلان کیا کہ شامی فوج کو فتح حاصل ہوچکی ہے۔ رائٹر اور دیگر عالمی نیوز ایجنسیوں نے حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کی گذشتہ روز کی اس تقریر کو تفصیل سے رپورٹ کیا ہے۔ دوسری طرف شام میں روسی افواج کے کمانڈر کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی افواج دہشتگردوں کے قبضے سے 85 فیصد علاقے واپس لینے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ میں بشار الاسد کی پوزیشن خاصی مستحکم ہوگئی ہے۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی رقہ اور ادلب سمیت بعض اہم علاقے شامی فوج کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ بڑی کامیابیاں دراصل داعش کے خلاف حاصل ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں تک حقیقت ضرور ہے کہ داعش کی ’’اسلامی خلافت‘‘ کی عراق اور شام میں شکست تقریباً مکمل ہونے کو ہے۔ 12 ستمبر منگل کو روسی وزیر دفاع نے دمشق میں بشار الاسد سے ملاقات کی اور داعش کے خلاف مشترکہ فوجی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔ شام کے جن مشرقی علاقوں میں شامی فوجوں نے داعش کے خلاف پیش قدمی کی ہے، انہی علاقوں میں امریکی حمایت یافتہ کرد و عرب جنگجوؤں کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ حسن نصراللہ جن کی حزب اللہ شام میں بشار الاسد کی افواج کی کمک کرتی رہی ہے، کا کہنا کہ اب شام میں ادھر ادھر چند علاقوں میں جنگ باقی رہ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم جنگ جیت چکے ہیں۔

رائٹر نے لکھا ہے کہ شام میں بشار الاسد کو ایران اور روس کی حمایت حاصل رہی ہے، جبکہ شدت پسند گروہوں کو خلیجی ریاستوں، ترکی اور امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔ البتہ اب شدت پسندوں کے حامیوں نے ان کو کمک کی فراہمی کا پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ رائٹر کی یہ بات جزوی طور پر درست ہے جبکہ کلی طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ کرد عرب لشکر کو شام میں اور اسی طرح عراق کی نیم خود مختار کرد فورسز کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت بدستور جاری ہے۔ شام میں شدت پسند گروہوں نے 2011ء سے اپنی کارروائیاں شروع کیں اور انہوں نے ملک کے زیادہ تر علاقوں اور دمشق کے علاوہ بیشتر اہم شہروں پر قبضہ کر لیا۔ دمشق کے بھی وہ بہت نزدیک جا پہنچے تھے۔ دمشق کے اندر انہوں نے بہت بڑی بڑی کارروائیاں کی تھیں۔ اسی دوران میں رسول اللہؐ کی نواسی حضرت زینبؑ بنت علی ؑ کے روضے پر انہوں نے کئی ایک حملے کئے، جس کے بعد عالم اسلام میں غم و غصہ کی شدید لہر دوڑ گئی تھی۔ 2014ء میں القاعدہ اور بعض دیگر گروہوں سے الگ ہو کر داعش کے نام سے نئی فورس قائم کی گئی، جس نے عراق کے دوسرے اہم شہر موصل اور شام کے دوسرے اہم شہر حلب سمیت بہت بڑے علاقے پر قبضہ کرکے ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے نام سے اپنی ’’خلافت‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔

2015ء میں روس نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کر لیا۔ روس کو اس سلسلے میں ’’داعش‘‘ کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ظاہری مخالفت نے جواز فراہم کیا۔ عراق میں امریکی کمانڈروں کا کہنا تھا کہ داعش کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ایسے بیانات سے علاقے میں امریکی منصوبوں کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ داعش کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں کے بارے میں بھی خاصے شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ بہت سی خبروں کے مطابق امریکہ انہیں اسلحہ بھی فراہم کرتا رہا۔ ان کا تیل ترکی کے راستے بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتا رہا۔ عراق میں تو عوامی رضاکار فورس (الحشد الشعبی) نے کایا پلٹنے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا اور شام میں روس، ایران اور حزب اللہ کی حمایت نے صورت حال کو تبدیل کرنے میں مدد دی۔ روسی فضائیہ کی مدد کے بغیر شام کی زمینی افواج یہ کامیابیاں حاصل نہ کرسکتی تھیں۔ گذشتہ ایک برس میں بشار الاسد کی حکومت نے تیز رفتار پیش رفت کی ہے۔ ان فتوحات کا اہم ترین سنگ میل حلب میں دہشت گردوں کی شکست تھا۔ اس کے بعد ایک طرف شامی افواج کو نفسیاتی برتری حاصل ہوگئی اورادھر مخالفین کے حوصلے پست ہونا شروع ہوگئے۔

دوسری طرف گارڈین نے داعش سے وابستہ دہشت گردوں کے فرار اور پریشانیوں کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سینکڑوں داعشی شام سے فرار کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں کئی درجن جنگجو پہلے ہی ترکی کے جنوبی بارڈر سے فرار ہوچکے ہیں۔ یہ وہی داعشی ہیں جن کے مقبوضات ان کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ رقہ جو داعشیوں کا آخری بڑا گڑھ ہے، کی طرف امریکی حمایت یافتہ مسلح گروہ پیش قدمی کر رہے ہیں۔ گارڈین نے یہ رپورٹ 12 ستمبر2017ء کو شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق فراری زیادہ تر ادلب کے علاقے میں اکٹھے ہو رہے ہیں، جس کی سرحد جنوبی ترکی سے ملتی ہے۔ یہ بیشتر ترکی ہی کی طرف فرار ہونا چاہتے ہیں۔ ان میں بعض کا تعلق خلیج کے عرب ممالک سے ہے۔ بعض شمالی افریقہ سے آئے ہیں اور بعض کا تعلق یورپ سے ہے۔ گارڈین نے لکھا ہے کہ ستمبر کے آغاز میں 4 دہشت گرد سمگلروں کو دو ہزار ڈالر فی کس ادا کرکے ترکی میں پہنچے ہیں، جبکہ کئی دہشت گرد رواں برس میں سرحدی گارڈز کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک اور خطے کی ریاستیں ان دہشت گردوں اور ان کے خاندانوں کی اپنے اپنے ملکوں میں ممکنہ واپسی پر بہت پریشان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں قابو میں رکھنا آسان نہ ہوگا اور یہ آسانی سے عام شہری نہیں بن سکیں گے۔

گذشتہ ماہ اگست میں ایک سعودی شہری جو داعش کا حصہ رہا ہے اور جو شام سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے، سے گارڈین نے ایک انٹرویو کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ ادلب کے شمال میں تقریباً تین سو داعشی موجود ہیں، جن میں زیادہ تر سعودی ہیں۔ وہ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں زیادہ تر القاعدہ سے وابستہ گروہ جبہۃ النصرہ کا کنٹرول ہے۔ اس سعودی شہری کی عمر 26 برس ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر کی رائے ہے کہ انہیں گمراہ کیا گیا تھا۔ وہ النصرہ پر بھی اعتماد نہیں کرتے۔ ان میں بیشتر کی رائے ہے کہ وہ جن لوگوں کے ساتھ رہے ہیں، وہ صحیح راستے پر نہ تھے۔ ان داعشی فراریوں کا کہنا ہے کہ داعش میں یورپ، مراکش اور مصر سے آنے والے لوگ بھی شامل تھے۔ ان تازہ رپورٹوں سے یہ تو ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ شام اور عراق میں حکومتوں کا کنٹرول اپنے علاقوں پر خاصا بہتر، وسیع اور قوی ہوگیا ہے، لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ جنگ ابھی جاری ہے، کیونکہ امریکہ ابھی اس خطے میں موجود ہے۔ یقینی طور پر امریکہ کا اگلا ہدف اس خطے میں کردوں کی سرپرستی کرنا اور انہیں خطے کی حکومتوں سے برسرپیکار کرنا ہے۔ اگر اس صورت حال کو بعض کرد راہنما بھی سمجھ رہے ہیں تو دوسری طرف امریکہ کی ماہیت کو نہ سمجھنے والے کرد بھی موجود ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظیم نیتن یاہو نے ابھی کل ہی (12 ستمبر2017ء) کو عراق کی نیم مختار کرد ریاست میں علیحدگی کے لئے بعض عناصر کے مجوزہ ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ امریکا پہلے ہی اس خطے کی علیحدہ ریاست کی حمایت کا اعلان کرچکا ہے۔ اگرچہ اس نے ریفرنڈم کی تاریخ کو ملتوی کروانے کے لئے ماضی میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ شام میں بھی امریکہ نے کردوں اور بعض عربوں پر مشتمل ایک نئی فورس قائم کی ہے۔ یہ فورس امریکہ کی مدد سے رقہ کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ ترکی امریکہ کے اس اقدام کی مخالفت کرچکا ہے، کیونکہ اس خطے میں سب سے زیادہ کرد ترکی ہی میں بستے ہیں۔ ترکی عراق میں بھی علیحدہ ریاست کے لئے ریفرنڈم کا مخالف ہے۔ اس سلسلے میں شام اور عراق کی حکومتیں بھی ایک جیسا موقف رکھتی ہیں۔ ایران ان تمام علاقائی حکومتوں کا حامی ہے۔ ممکن ہے کہ آئندہ کا معرکہ اسرائیل اور امریکہ کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند کردوں اور علاقے کی حکومتوں کے مابین ہو۔ یقینی طور پر اس صورت میں ایران اور ترکی آپس میں ہم آہنگ ہو جائیں گے۔ صورت حال بڑھتے بڑھتے خلیجی ممالک کے کردار کا سوال بھی اٹھائے گی۔ حال ہی میں قطر نے عراق میں علیحدہ ریاست کے قیام کے لئے کرد علاقے میں ریفرنڈم کی مخالفت کی ہے۔ اگر سعودی عرب نے اس سلسلے میں امریکہ کی حمایت کی تو یقینی طور پر عربوں میں ایک تفریق دیکھنے میں آئے گی۔ البتہ کیا سعودی عرب اپنی زوال پذیر معیشت اور داخلی روزافزوں مشکلات کے بعد اس بارے میں کوئی اہم کردار بھی ادا کر سکے گا، اس کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔ مختصر یہ کہ معرکہ ابھی جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 668734
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش