0
Friday 15 Sep 2017 18:29

وفاق کو سالانہ اربوں روپے ریونیو دینے والا صوبہ بلوچستان!

وفاق کو سالانہ اربوں روپے ریونیو دینے والا صوبہ بلوچستان!
رپورٹ: نوید حیدر

بلوچستان جو کہ پاکستان کے 43 فیصد رقبے پر قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے، یہاں‌ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وسائل کو قابل استعمال لاکر صوبے کی پسماندگی اور عوام کے احساس محرومی کو دور کرکے انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ بلوچستان کے مختلف محکمے اربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کرکے وفاق اور صوبے کو دیتے ہیں۔ دیگر اداروں‌ کی طرح انکم ٹیکس، ایف بی آر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سمیت کسٹم انٹیلی جنس بھی اربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کرتی ہے۔ انکم ٹیکس بلوچستان کیجانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کیمطابق بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیندک پروجیکٹ سے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور دیگر سروسز ٹیکس کی مد میں 7 ارب روپے مالیت کا کیس جیت لیا گیا ہے۔ اسوقت بلوچستان انکم ٹیکس کیجانب سے سالانہ 47 ارب روپے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ٹیکس کی مد میں‌ وصول کرکے دیئے جاتے ہیں۔ جسکے بعد اس رقم میں سے 165 سے 170 ارب روپے وفاق بلوچستان کو ترقیاتی کاموں میں دیتا ہے۔ رواں سال کسٹم کلکٹریٹ کوئٹہ کو 15 ارب 41 کروڑ روپے کے ٹارگٹ کو پورا کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا، جو کہ ادارے کی جانب سے 20 جون 2017ء‌ کو ہی 15 ارب ایک کروڑ روپے حاصل کئے جاچکے تھے۔ اس میں کسٹم ڈیوٹی کا ٹارگٹ 5 ارب 21 کروڑ روپے تھا، جس میں سے 5 ارب 35 کروڑ روپے وصول کئے جاچکے ہیں۔ اسی طرح سیلز ٹیکس کا ٹارگٹ 7 ارب 37 کروڑ روپے تھا۔ جس میں 7 ارب میں سے 3 کروڑ وصول کئے جاچکے ہیں۔ انکم ٹیکس کی مد میں 2 ارب 62 کروڑ روپے کے ٹارگٹ میں سے 2 ارب 36 کروڑ روپے وصول کئے جاچکے ہیں۔ اسکے علاوہ فیڈر ایکسائز ڈیوٹی 18 کروڑ روپے کے ٹارگٹ کے حوالے سے 21 کروڑ 58 لاکھ روپے وصول کرچکے ہیں۔

بلوچستان میں گڈانی شپ بریکنگ اور بائیکور ڈیزل ریفائنری کیوجہ سے ٹیکس کا حصول بڑھ گیا ہے، جبکہ رواں سال بھی تقریباً بلوچستان سے 45 بلین روپے کا ٹیکس وفاق کو جائیگا۔ افغانستان کیساتھ تجارت کو بارڈر کیساتھ وسعت دینے کیلئے مزید 3 پوائنٹ فعال بنائے جا رہے ہیں۔ جس میں غزنلی نوشکی، قمرالدین کاریز، بادینی کے مقامات شامل ہیں۔ جولائی میں بادینی بارڈر کو فعال بنایا جا چکا ہے، جبکہ امپورٹ کے حوالے سے غزنلی بارڈر سے کام کا آغاز ہوگیا ہے۔ گذشتہ سال 12 سو 80 بلین روپے کے ٹارگٹ سے اسوقت بھی کسٹم کا ریونیو 2.2 بلین زیادہ ہے۔ سال 2016ء-17ء کے دوران 595 نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیاں قبضے میں لیں، جنکی مالیت 43 کروڑ 77 لاکھ 84 ہزار روپے بنتی ہے، جبکہ 17 لاکھ 91 ہزار لیٹر ایرانی ڈیزل بھی قبضے میں لیا گیا۔ جسکی مالیت 9 کروڑ 2 لاکھ 75 ہزار روپے بنتی ہے۔ رواں سال 4 کیسز کرکے 235 کلو گرام چرس برآمد کی گئی۔ جسکی مالیت 66 لاکھ 20 ہزار روپے ہیں۔ کسٹم کے عملے نے ان تمام کارروائیوں میں 1 ارب 31 کروڈ 38 لاکھ روپے ریونیو قومی خزانے میں جمع کرایا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں ایکسائز کا محکمہ سب سے زیادہ ٹیکس تقریباً 5 فیصد موٹر وہیکل اور 40 فیصد ایکسائز ڈیوٹی جبکہ بقیہ دیگر ٹیکسز کی مد میں حاصل کرتا ہے۔ یکم جولائی 2016ء سے لیکر 31 مئی 2017ء تک محکمے کیجانب سے 1 ارب 5 کروڑ روپے وصول کئے جاچکے تھے۔ بلوچستان میں آن لائن ٹیکس وصولی سسٹم کیلئے 11 کروڑ 70 لاکھ کی لاگت سے بلوچستان سول سیکرٹریٹ میں ڈیٹا سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ جس میں جدید گاڑیوں کی کمپیوٹرائز رجسٹریشن اور سمارٹ کارڈ بک بنانے کا منصوبہ شامل ہے۔ اسکے تحت 70 سے زائد افسران اور عملے کے اہلکاروں کو تربیت دی گئی ہے۔ 4 ارب روپے کا انکم سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں وصول کرکے وفاق کو دیا جاتا ہیں، جس میں 5 فیصد واپس صوبائی حکومت کو ملتا ہے۔

حکومت کیجانب سے 25 فٹ پر بنائے جانے والے گھر، جس میں مذکورہ شخص خود رہائش پذیر ہو، اسکو ٹیکس سے استثنٰی حاصل ہے۔ کوئٹہ میں 93 ہزار گھروں سے ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ اس وقت ایکسائز میں سرکاری اور نجی تقریباً 4 لاکھ 50 ہزار گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اس میں سرکاری گاڑیوں کی تعداد 46 ہزار ہیں۔ دوسری جانب انکم ٹیکس بلوچستان سی پیک منصوبے کے حوالے سے چینی حکام کیساتھ صوبے کو ٹیکس کی وصولی کے حوالے سے معاملات طے کرنے کیلئے کراچی میں بات چیت جاری ہے، کیونکہ چین اسوقت صرف وفاقی سطح پر ٹیکس دے رہا ہے، لیکن صوبائی سطح پر مختلف پروجیکٹز پر محکمے کی خواہش ہے کہ بلوچستان میں ٹیکس جمع ہو۔ تاکہ بلوچستان کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیجانب سے زیارت اور چمن میں ٹیکس وصولی آفس کے قیام کے حوالے سے زمین کی خریداری کیلئے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اوپر دیئے گئے اعداد و شمار کیمطابق وفاق کیجانب سے بلوچستان کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کیساتھ ساتھ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے دیئے جانے والے اربوں روپے کے فنڈز شفاف طریقے سے خرچ نہ ہونے کیوجہ سے آج بھی بلوچستان پسماندہ ترین صوبہ گردانا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وسائل کو شفاف طریقے سے خرچ کرکے بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ جو پیسہ لوگوں کی حالت زار کو بہتر بنانے میں خرچ ہونا چاہیئے، وہ غیر قانون طریقوں، خرد برد اور کرپشن کیوجہ سے لوگوں کے ذاتی مفادات پر خرچ ہوتا ہے۔ اگر اس بات پر توجہ نہ دی گئی تو ماضی کی طرح آنے والے وقت میں بھی بلوچستان کی پسماندگی اور لوگوں کے احساس محرومی کو دور نہیں کیا جاسکتا۔ 
خبر کا کوڈ : 669279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش