2
0
Sunday 17 Sep 2017 02:36

بچوں کے فرقے

بچوں کے فرقے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ جس طرح والدین کے حقوق ہیں، اسی طرح بچوں کے بھی حقوق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری بچوں کے حقوق کی قائل ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 1989ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کا اعلان کیا اور اس کے ایک سال بعد دنیا کے اکثر ممالک نے اقوام متحدہ کی طرف سے بچوں کے منظور شدہ حقوق کو قانونی شکل دے دی۔ اب ہر سال بیس نومبر کو بچوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ میں بچوں کے حقوق سے متعلق ادارے کا نام یونیسف ہے۔ یہ ادارہ ہر سال  بچوں کی تعلیم و تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نام تجویز کرتا ہے ۔پھر اسی نام کی روشنی میں دنیا کے ممالک بچوں کے لئے اپنی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک میں جہاں ہزاروں این جی اوز فعال ہیں، لاکھوں مخیر حضرات موجود ہیں اور کروڑوں کے صدقات دیئے جاتے ہیں، اس کے باوجود یہاں چالیس فیصد بچے غربت کی وجہ سے سکول جا ہی نہیں سکتے۔ جو سکول جاتے ہیں، ان میں سے بھی تقریباً ساٹھ فیصد کسی نہ کسی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں بچوں کے حقوق اور بچوں کی قدروقیمت کا شعور کس سطح کا ہے، اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگایئے کہ  16 دسمبر 2014ء کو اپنے آپ کو مجاہدینِ اسلام کہنے والوں نے پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو شہید کر دیا، بچوں کے سامنے ادارے کے سربراہ کو آگ لگائی گئی اور اساتذہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جہاں اپنے آپ کو مجاہد کہنے والوں نے یہ کارروائی کی، وہیں ان مجاہدین کے سرپرستوں نے طالبان کے کتے کو تو شہید کہا، لیکن ان بچوں کے قتل کی مذمت نہیں کی۔

اب آیئے ذرا یمن کا رُخ کرتے ہیں، یمن میں اب تک تین ہزار یمنی بچے سعودی عرب کے ہوائی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں اور تقریباً اتنے ہی بچے جسمانی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں جبکہ اڑھائی ہزار بچے زخمی حالت میں ہیں۔ گذشتہ دو سالوں میں سعودی عرب کے جنگی طیاروں نے دو سو بارہ مرتبہ یمن کے مختلف اسکولوں پر بمباری اور پچانوے مرتبہ ہسپتالوں پر حملہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ گذشتہ سال یعنی 2016ء کے دوران یمن میں بچوں کی ہلاکتوں میں ستّر فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یونیسیف کے مطابق مارچ 2016ء سے لے کر اس سال مارچ تک کے ایک سال کے اندر اندر ایک ہزار پانچ سو چھیالیس بچے جاں بحق ہوئے۔[1] یمن میں اقوام متحدہ کے خصوصی ماہر بیسمارک سوآنگین کھلے لفظوں میں یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ یمن میں جنگ بچوں کے خلاف جنگ ہے اور اب یمنی بچے غذائی قلت اور ہیضہ کی بنا پر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اب آیئے ذرا روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہاں کی حالت بھی انتہائی افسوسناک ہے۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم 2 لاکھ 30 ہزار بچے بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔ 36 ہزار بچوں کی عمریں ایک سال سے کم جبکہ 92 ہزار پانچ سال سے کم ہیں۔ کیمپوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ 52 ہزار حاملہ خواتین بھی امداد کی منتظر ہیں۔[2]

عجیب اتفاق ہے کہ جنہوں نے آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کے قتل کی مذمت نہیں کی، انہوں نے یمن میں بچوں کی ہلاکتوں کے خلاف بھی کبھی آواز نہیں اٹھائی، لیکن روہنگیا کے بچوں کے لئے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت پر کسی کے آنسو نہیں نکلے!؟ آخر کیا وجہ ہے کہ یمن کے بچوں کی حالت زار پر کوئی ریلی نہیں نکالی جاتی!؟ اگر روہنگیا کے بچوں سے اسلام کے عنوان سے ہمدردی ہے تو یہی ہمدردی پشاور اور یمن کے بچوں سے بھی ہونی چاہیے اور اگر انسان ہونے کے ناطے یہ آواز اٹھائی جا رہی ہے تو خدا نے کسی انسان کے سینے میں دو دل قرار نہیں دیئے، جو دل روہنگیا کے بچوں کے لئے تڑپتا ہے، وہ آرمی پبلک سکول پشاور اور یمن کے بچوں کے لئے کیوں پتھر بن جاتا ہے!؟ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں، پھر یہ تفریق اور تقسیم کیوں!؟؟؟ روہنگیا کے بچوں کا غم کس انسان کو نہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچوں کے بھی فرقے ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر ان کا غم منانے میں  فرق کیا جاتا ہے!؟
[1] http://www.nawaiwaqt.com.pk/international/28-Mar-2017/582135
[2] http://www.nawaiwaqt.com.pk/international/16-Sep-2017/663536
خبر کا کوڈ : 669682
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

تنویر حیدر
Pakistan
بہت خوب، اللہ تعالٰی بے رحم اور سنگدل ظالمین سے نسل انسانی کو نجات دے۔
Iran, Islamic Republic of
ہمیشہ کی طرح منفرد اور عمدہ
ہماری پیشکش