0
Monday 18 Sep 2017 15:44

شام میں مغربی طاقتوں کے حقیقی اہداف

شام میں مغربی طاقتوں کے حقیقی اہداف
تحریر: علی محمدی

صہیونی رژیم اسرائیل کی وزیر انصاف ایلیت شیکد (Ayelet Shaked) نے حال ہی میں شام کے امور میں مداخلت کرتے ہوئے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اگر شام کے صدر بشار الاسد اپنی حکومت کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ملک سے ایران کے اثرورسوخ کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ اسی طرح انہوں نے اسرائیلی حکام پر بھی زور دیا کہ وہ شام میں ایران کے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے عالمی طاقتوں پر بھی دباو ڈالیں۔ اسرائیلی وزیر انصاف نے دعویٰ کیا کہ شام میں ایران کی موجودگی کے انتہائی برے نتائج نکل سکتے ہیں، لہذا اسرائیل ایران کو ہرگز شام میں بندرگاہ یا اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ایلیت شیکد نے یہ باتیں تل ابیب میں منعقدہ ہرزلیہ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران کہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عالمی طاقتوں کو اسرائیل کی جانب سے شام اور حزب اللہ کے خلاف انجام پانے والے اقدامات پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں۔

شام کو ایران سے دور کرنیکی سرتوڑ کوششیں
صرف ایلیت شیکد ہی وہ واحد شخصیت نہیں، جو ایران سے دوری کو صدر بشار الاسد کے اقتدار میں باقی رہنے کی اہم اور بنیادی شرط قرار دیتی ہیں اور اس پر تاکید کرتی ہیں بلکہ مارچ 2011ء میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک تمام مغربی ممالک اور حتٰی بعض عرب ممالک بھی اس شرط پر زور دیتے آئے ہیں، مغربی اور عرب میڈیا میں اس امر کا بھرپور پرچار کیا گیا ہے کہ شام میں امن و امان کی بحالی کیلئے صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی انتہائی ضروری ہے۔ انہیں شخصیات میں سے ایک موجودہ لبنانی وزیراعظم سعد حریری ہیں۔ وہ مغرب نواز سیاست دان کے طور پر معروف ہیں۔ سعد حریری نے ماہ مبارک رمضان میں اپنی پارٹی "المستقبل" کے عہدیداروں کو دی گئی ضیافت افطار سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ شام میں خانہ جنگی اور انتشار کی شدت میں اضافے کے بعد وہ سعودی بادشاہ ملک عبداللہ اور امریکی صدر براک اوباما کی درخواست پر شام گئے اور صدر بشار الاسد سے ملاقات کی، جس کے دوران انہوں نے شام کے صدر کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ اقتدار میں باقی رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایران سے دوری اختیار کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب تک بشار الاسد نے امریکہ، فرانس اور سعودی عرب کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔

روسی خبررساں ادارے سپتنک نیوز کے مطابق اسرائیل آرمی کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ گیڈی ایسنکوٹ نے اسرائیلی پارلیمنٹ "کینسٹ" کی خارجہ اور سکیورٹی کمیٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اسرائیل اور اس کی قومی سلامتی کیلئے شام کو ایران سے دور کرنا حتٰی داعش کے خاتمے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ شام کو ایران سے دور کرنے کی کوششوں کی تصدیق اسرائیلی ویب سائٹ "دبکا فائل" کی اس خبر سے بھی ہوتی ہے کہ عرب ممالک نے عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی، اس کے خلاف جاری پابندیوں کے خاتمے اور شام میں جاری سکیورٹی بحران کے حل کی بنیادی شرط شام حکومت کی ایران اور حزب اللہ لبنان سے دوری بیان کی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی بھی شام سے ایران اور اس کے حامی گروہوں کے انخلاء پر بارہا زور دے چکی ہیں۔

شام کو ایران سے دور کرنیکی کوششوں کی ناکامی کی وجوہات
مجموعی طور پر سیاست کی دنیا میں بڑی طاقتوں کی جانب سے لالچ اور ڈرانے دھمکانے کے ذریعے کمزور ممالک پر دباو ڈالنا کوئی تعجب والی بات نہیں، لیکن شام کے مسئلے میں یہ پالیسی مکمل طور پر ناکام اور غیر مفید رہی ہے۔ اس وقت شام اور ایران میں تعلقات کی سطح موجودہ اسٹریٹجک مسائل کی حد سے بالاتر ہوچکی ہے۔ تہران کی جانب سے گذشتہ چھ برس کے دوران دمشق کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کے نتیجے میں شام کے صدر بشار الاسد کو یہ یقین حاصل ہوچکا ہے کہ ایران سے ان کے تعلقات کمزور نہیں ہوسکتے۔ صدر بشار الاسد کی نظر میں ایران سے ان کے انتہائی دوستانہ اور مضبوط تعلقات کا اپنے مخالف بعض عرب ممالک سے عارضی اور مختصر مدت کیلئے تعلقات سے بالکل موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب جنوری 2011ء میں شام میں سکیورٹی بحران کا آغاز ہوا تو سعودی عرب نے فوراً شام کے خلاف دشمنانہ موقف اپناتے ہوئے صدر بشار الاسد کی حکومت کو غیر قانونی قرار دے دیا جبکہ صرف 6 ماہ قبل سعودی بادشاہ ملک عبداللہ نے شام کا دورہ کیا تھا اور صدر بشار الاسد سے ملاقات کی تھی۔ بعد میں جب شام میں خانہ جنگی کی شدت میں اضافہ ہوا تو سعودی حکومت نے شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کی بھرپور مدد اور معاونت شروع کر دی۔

جیوپولیٹیکل اعتبار سے اسرائیل شام کیلئے اہم ترین خطرہ تصور کیا جاتا ہے، خاص طور پر یہ کہ اس نے گولان ہائٹس پر شام کی سرزمین کے بعض حصے پر غیر قانونی قبضہ بھی جما رکھا ہے۔ اس تناظر میں شام کیلئے بہترین اسٹریٹجی اسرائیل کے حقیقی دشمنوں جیسے ایران سے زیادہ سے زیادہ قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف خطے کے بعض عرب ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات غیر سرکاری طور پر اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لہذا دمشق کیلئے ریاض سے دوری اور تہران سے قربت ہی واحد معقول اور منطقی راستہ نظر آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں شام کی جانب سے اسرائیل کے مقابلے میں یکساں خارجہ پالیسی کا اتخاذ ہی ایران اور شام میں قریبی اور دوستانہ تعلقات کی حقیقی وجہ ہے۔ مغربی ممالک اور خطے کے بعض عرب ممالک کی جانب سے شام کے صدر بشار الاسد کو یہ پیشکش کہ اگر وہ اقتدار میں باقی رہنا چاہتے ہیں تو انہیں شام سے تمام ایرانی اور ایران نواز فورسز کو باہر کرنا ہوگا، اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ ان کی جانب سے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے پر اصرار کی اصل وجہ وہ نہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں، یعنی شام کی عوام کی نجات یا دہشت گردی کا خاتمہ، بلکہ ان کے حقیقی اہداف کچھ اور ہیں۔ امریکہ، اسرائیل، مغربی ممالک اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتوں کا اصل مقصد شام کو ایران سے دور کرنا اور اس طرح خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 670046
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش