3
2
Wednesday 20 Sep 2017 14:50

اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی پہلی تقریر پر ایک نظر(1)

اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی پہلی تقریر پر ایک نظر(1)
تحریر: عرفان علی

19 ستمبر 2017ء بروز منگل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے پہلا خطاب کیا۔ پوری تقریر پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کے بارے میں انتہائی اختصار کے ساتھ ایک جملے میں میری رائے یہ ہوگی کہ ٹرمپ کی یہ تقریر پرانے الزامات، دھمکیوں اور لفاظی پر مشتمل تھی۔ اس کے ردعمل میں صرف ایک مقولہ کہا جاسکتا ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ دنیا بھر میں اس تقریر کی بنیاد پر جو خبریں پہنچائی گئیں، یقیناً ان کا فوکس شمالی کوریا اور ایران ہی ہوگا، لیکن ان دو ملکوں یا شام، وینزویلا، کیوبا، حزب اللہ وغیرہ کے نام لے کر الزام تراشی کرنا، ان سب کی توقع تو پہلے سے ہی تھی، لیکن نام لئے بغیر ٹرمپ نے پاکستان، چین اور روس کو بھی نہیں بخشا ہے اور انہیں بھی ملکوں کے امن و سلامتی و خود مختاری کے لئے خطرہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ چین اور روس کے بارے میں نام لئے بغیر ٹرمپ نے صرف ایک جملہ کہا ہے:We must reject threats to sovereignty from Ukraine to South China Seaٹرمپ نے یوکرین سے جنوبی چینی سمندر تک خود مختاری کو لاحق خطرات کو مل کر مسترد کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہ ایک جملہ اپنے اندر کیا مفہوم رکھتا ہے، سوائے اس کے کہ یہ براہ راست روس اور چین پر دشنام طرازی پر مبنی ہے، کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں جنوبی چینی سمندر میں وہ چین سے نالاں ہیں تو یوکرین اور اس کے پڑوس میں روس کے طرز عمل سے ناراحت۔ روس پر تو پابندیاں بھی لگا چکے ہیں، لیکن ٹرمپ نے یہ بات نام لئے بغیر کہی اور چین اور روس کا نام لے کر ان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی وجہ سے شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کی قرارداد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ بظاہر ان دو نکات کو مختلف سمجھا جاسکتا ہے، لیکن میری نظر میں یہ دو مختلف پیغام نہیں ہیں بلکہ ان دونوں بظاہر مختلف نکات میں پیغام ایک ہی ہے کہ چین اور روس جہاں امریکہ کے ہمنوا ہوں گے، امریکہ انکا کردار سراہے گا اور ممنون رہے گا، جبکہ جہاں دونوں ملکوں کا کردار امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو ناپسند ہوگا، اسے مسترد کر دیا جائے گا۔

اسی طرح نام تو پاکستان کا بھی نہیں لیا گیا ہے لیکن دو باتیں ایسی کی ہیں، جس کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے لئے امریکہ کی پالیسی وہی ہے جو پچھلے مہینے ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیاء میں نئی حکمت عملی کے عنوان سے پیش کی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی اسی حکمت عملی کا تذکرہ بھی کیا، جس میں انہوں نے پاکستان پر الزام تراشی بھی کی تھی اور اشاروں کنایوں میں دھمکی بھی دی تھی۔ اقوام متحدہ کی اس تقریر میں بھی انہوں نے بعض تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بعض ممالک ان دہشت گردوں کی سپورٹ اور مالی مدد کرتے ہیں۔ ان تنظیموں میں جہاں دوسرے نام لئے گئے انہی میں سے ایک طالبان اور القاعدہ کا بھی تھا۔ باوجود اس کے کہ امریکہ نے القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کو پاکستان کی حدود میں مارا تھا، امریکی حکومت القاعدہ کی سپورٹ یا فنڈنگ کا الزام تو پاکستان پر نہیں لگاتے، لیکن افغان طالبان کو پاکستان کے کھاتے میں ہی ڈالا جاتا ہے۔ جب ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ بعض ممالک دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں یا طالبان کی سپورٹ اور فنڈنگ تو یہ الزام، یہ اشارہ پاکستان کی طرف ہی ہوتا ہے، جیسا کہ پچھلے مہینے افغانستان و جنوبی ایشیاء کے لئے حکمت عملی میں کھل کر پاکستان کا نام لے کر کہا تھا۔

پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر شرف ملاقات بخشنے سے بھی انکار کر دیا اور یوں امریکہ کے نان نیٹو اتحادی پاکستان کے سربراہ حکومت سے ملاقات کے لئے نائب صدر مائیک پینس نے وقت نکالا، حالانکہ سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی نے تاکید کی تھی کہ اگر ٹرمپ کے پاس پاکستان کے لئے وقت نہیں تو پاکستان کے پاس بھی امریکہ کے لئے وقت نہیں ہونا چاہئے، لیکن وزیراعظم عباسی نے رضا ربانی کی نصیحت کے نرعکس مائیک پینس سے ملاقات کو بھی اپنے لئے اعزاز سمجھ لیا۔ رضا ربانی کی رائے مان لی جاتی تو امریکی حکومت پر پاکستان کا دباؤ بڑھ جاتا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! باوجود اس کے کہ وزیراعظم عباسی نے نائب امریکی صدر سے ملاقات کی، انہیں ٹرمپ کی پالیسی کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ٹرمپ نے اس تقریر میں واضح کر دیا کہ اب امریکہ کے سکیورٹی مفادات ہی فوجی کارروائی کے اسکوپ کا تعین کریں گے، نہ کہ امریکی سیاستدانوں کے مقرر کردہ معیارات! ٹرمپ نے افغانستان میں فوج کو فری ہینڈ دیا ہے کہ وہ طے کریں کہ کیا کرنا ہے، لیکن پاکستان کے حکمران تاحال امریکہ کے بارے میں حسن ظن سے کام لے رہے ہیں کہ معاملات بن جائیں گے!

ٹرمپ نے بھی اسلامی انتہا پسندی اور ریڈیکل اسلامی دہشت گردی کی اصطلاحات استعمال کرکے یہ ثابت کیا کہ ماضی کے امریکی صدور کی طرح وہ بھی اسلام سے بغض رکھتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سعودی عرب اور جعلی ریاست اسرائیل خود اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذمے دار ہیں، جسے ٹرمپ نے اسلام سے جوڑنے کی ناپاک جسارت کی۔ القاعدہ، طالبان سمیت ہر تکفیری گروہ امریکہ کی 1970ء اور 1980ء کے عشرے کی افغان پالیسی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا۔ القاعدہ کے بطن سے جنم لے کر مختلف ناموں سے کام کرنے والے ان تکفیری دہشت گرد گروہوں نے شام، ایران، عراق سبھی جگہوں پر انہوں نے امریکہ کے مفادات کی تکمیل ہی کی ہے۔ یہ گروہ حقیقی اسلام کے پیروکار نہیں ہیں بلکہ امریکی اسلام ہی کے پیروکار ہیں، اس لئے ٹرمپ کو کہنا چاہیے تھا کہ یہ امریکی اسلام کی دہشت گردی اور امریکی اسلام کی انتہا پسندی ہے، جو دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔ جہاں تک بات ہے حزب اللہ یا ان دیگر گروہوں کی، جن کے بارے میں ٹرمپ کا الزام ہے کہ ایران ان کی مدد کرتا ہے تو ان گروہوں کا وجود جعلی ریاست کے تسلط اور مظالم کی وجہ سے عمل میں آیا تھا۔ اگر فلسطین پر قبضہ کرکے اسکا نام اسرائیل نہ رکھا جاتا اور فلسطینیوں کا قتل عام اور زندہ رہ جانے والوں کو بڑے پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کرکے دیگر ممالک میں پناہ گزین نہ بنایا جاتا تو نہ تنظیم آزادی فلسطین، الفتح، پاپولر فرنٹ بنتے اور نہ ہی حماس وجود میں آتی۔ اگر لبنان پر فلسطین کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کا قبضہ نہ ہوتا تو حزب اللہ لبنان کا وجود بھی نہ ہوتا، لہٰذا ٹرمپ دنیا کو بے وقوف نہیں بناسکتے، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ دنیا کے ایک بڑے حصے کے امن کو خطرے سے دوچار کرنے کی اصل وجہ اسرائیل کا قیام، اس کا قبضہ اور مظالم ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ایران کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک ایسا نظام حکومت ہے، جو مرگ بر امریکہ اور اسرائیل کی تباہی کے لئے قسم خوردہ ہے اور جو اقوام متحدہ کے اس ہال میں جمع کئی ملکوں کے قائدین کو شکستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ایران پر حزب اللہ اور دیگر گروہوں کی مدد کا الزام بھی لگایا اور یہ اضافی جھوٹ بھی تراشا کہ ایران کے حمایت یافتہ یہ گروہ پر امن عربوں اور اسرائیلیوں کو قتل کرتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے نسل پرست دہشت گرد ریاست اسرائیل کی تو اس نے خود ہی عربوں پر جنگ مسلط کر رکھی ہے، نہ صرف فلسطین بلکہ لبنان اور شام کے علاقوں پر اسکا تاحال قبضہ ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اقوام متحدہ کے فیصلہ ساز ادارے سکیورٹی کاؤنسل کے مستقل رکن ملک امریکہ کے صدر اگر قانون کی حکمرانی کے قائل ہوتے تو فلسطین، لبنان اور شام کے علاقوں کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کروانے کے لئے اسرائیل کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرتے نہ کہ اسرائیل کے تسلط اور ظلم کا شکار ملکوں اور گروہوں پر بے بنیاد الزامات لگاتے۔ اعداد و شمار جمع کرکے حقیقت بیان کی جائے تو مسلمانوں اور عربوں کو بڑی تعداد میں قتل کرنے والے امریکی اور اس کے اتحادی ممالک ہی ہیں اور طول تاریخ میں وہی انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب میں ملوث رہے ہیں۔ افغانستان اور عراق اس کی تازہ مثالیں ہیں۔

ٹرمپ نے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ امریکہ کو یہ ثبوت ایران نے فراہم کئے تھے کہ دہشت گردوں کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں، لیکن امریکہ نے ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور پوری دنیا کے سامنے آشکار حقیقت ہے اور اسکے ثبوت بھی موجود ہیں کہ سعودی عرب کی افواج نے یمن میں ممنوعہ کلسٹر بموں کا استعمال کرکے بے گناہ عرب اور مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور تاحال یہ جاری ہے۔ ٹرمپ نے ایران میں انسانی حقوق کی بات چھیڑی ہے جبکہ ایران کی پارلیمنٹ اور سپریم لیڈر (ولی فقیہ) کا انتخاب کرنے والی مجلس خبرگان رہبری میں بھی سنی ایرانیوں کی نمائندگی موجود ہے، جبکہ امریکہ کے اتحادی عرب مسلمان ممالک سعودی عرب اور بحرین نے اپنے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرلئے ہیں۔ سعودی عرب اور بحرین کے سنی شیعہ مسلمان اپنے مذہبی حقوق سے بھی محروم ہیں تو سیاسی و اقتصادی حقوق سے بھی۔ پرامن احتجاج پر ان پر لشکر کشی کی جاتی ہے، انکی آبادیاں تاراج کر دی جاتی ہیں، ان کے قائدین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے، شہریت سے محرو م کر دیا جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر میں ایک لفظ بھی سعودی عرب اور بحرین یا اسرائیل کی مذمت پر مبنی نہیں تھا، یہ نہ ہونا ہی ٹرمپ کے جھوٹ کو ثابت کرتا ہے۔ ٹرمپ کی تقریر میں میانمار کے روھنگیا مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کی مذمت بھی نہیں تھی اور نہ ہی مظلوم روھنگیا مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 670610
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
MashAllah.. Umda tajzia haay
بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
خدا قوت عرفان بھائی
Pakistan
Thanks
ہماری پیشکش