0
Wednesday 20 Sep 2017 22:31

محمد بن سلمان کا خفیہ مشن

محمد بن سلمان کا خفیہ مشن
تحریر: ہادی آذری

چند ماہ قبل اسرائیل کے وزیر ٹرانسپورٹ اور انٹیلی جنس، اسرائیل کاٹس نے سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو سعودی عرب دورے کی دعوت دیں اور اپنے ولیعہد یعنی محمد بن سلمان کو تل ابیب بھیجیں تاکہ مشترکہ مفادات کے حصول کے ساتھ ساتھ ایران سے مقابلے کیلئے موثر اقدامات انجام دیئے جا سکیں۔ اسرائیل کاٹس نے کہا کہ محمد بن سلمان ایک انتہائی فعال اور محنتی انسان ہیں۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلمان بن عبدالعزیز نے یہ پیشکش قبول کر لی تھی کیونکہ حال ہی میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے فاش کیا ہے کہ سعودی بادشاہی خاندان کے ایک اہم فرد نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اس کے فوراً بعد بعض عرب میڈیا ذرائع نے بھی متحدہ عرب امارات کے ایک اعلی سطحی انٹیلی جنس افسر کے بقول اعلان کیا کہ سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اگرچہ اسرائیل اور سعودی عرب نے سرکاری طور پر اس خبر پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن متحدہ عرب امارات کے اس انٹیلی جنس افسر کے بقول اس دورے کا مقصد اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی تھا۔ یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اعلان کر چکے ہیں کہ عرب دنیا سے اسرائیل کے تعلقات عروج پر ہیں۔ وہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے عہدیداروں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں یہ تعلقات ہر دور سے زیادہ بہتر ہیں۔

عربوں کی جانب جھکاو
اگرچہ بعض عرب ممالک اب تک اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے لیکن اسرائیل نے کافی عرصہ پہلے سے خفیہ طور پر سعودی عرب جیسے کچھ عرب ممالک سے سفارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع اویگڈور لیبرمین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے عرب ممالک سے سفارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کا مطالبہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ تعلقات خفیہ طور پر نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اعلانیہ اور کھلم کھلا ہوں۔ دوسری طرف اسرائیل نے مصر اور اردن سے امن معاہدے کر رکھے ہیں اور حالیہ چند سالوں میں خطے میں ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے بہانے خطے کے بعض ممالک سے قربتیں بڑھائی ہیں۔

اسی سلسلے میں کچھ ہفتے پہلے اسرائیلی اخبارات میں یہ خبر دیکھنے کو ملی ہے کہ اسرائیل نے شام اور اردن کے درمیان سرحدی علاقوں میں اردن سے فوجی اور سکیورٹی تعاون بڑھا دیا ہے۔ مزید برآں، اسرائیل صحرای سینا میں داعش سے مقابلے کیلئے مصر کی اعلانیہ طور پر مدد کرنے میں مصروف ہے۔ شاید اسی وجہ سے گذشتہ دو برس کے دوران کئی اسرائیلی حکومتی عہدیداروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں دشمنانہ نگاہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور وہ اسرائیل سے تعاون کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ لیکن جس چیز کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر بہت کم بات کی گئی ہے وہ خلیجی عرب ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔

سعودی عرب اور اسرائیل میں باہمی اتفاق اور ہم آہنگی خاص طور پر ایران کی مخالفت میں، کوئی نئی بات نہیں اور حال ہی میں وکی لیکس کی جانب سے اس بارے میں شائع ہونے والی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ تل ابیب اور ریاض میں 1990ء کے عشرے میں زیادہ قربتیں پیدا ہوئی ہیں جب سعودی عرب نے اسرائیل سے مربوط بعض کمپنیز کا نام بلیک لسٹ سے خارج کر دیا۔ 2002ء میں سعودی عرب نے امن منصوبہ پیش کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل اور سعودی عرب میں تعلقات مزید گہرے ہو گئے اور جب 2005ء میں سعودی عرب نے اسرائیل کے خلاف تیسری اور دوسری سطح کی پابندیاں بھی ختم کر دیں تو یہ تل ابیب کیلئے اچھا پیغام ثابت ہوا۔ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے سابق سربراہ میئر داگان نے 2010ء میں ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کیلئے خفیہ طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا۔ حالیہ چند ماہ کے دوران بھی مصر کی جانب سے سعودی عرب کو دو جزیروں "تیران" اور "صنافیر" کی مالکیت عطا کئے جانے کے بعد سعودی عرب بھی ان جزیروں سے آمدورفت کرنے والی اسرائیلی کشتیوں پر نظر رکھ سکے گا اور یوں دونوں ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعاون کا نیا باب کھل جائے گا۔

محمد بن سلمان اور اسرائیلی آرزو کی تکمیل
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے بڑھتی قربتوں میں سعودی عرب میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں خاص طور پر نئے ولیعہد محمد بن سلمان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر ڈینیل شاپیرو نے محمد بن سلمان کا سعودی عرب کے نئے ولیعہد کے طور پر منتخب ہونے کو اسرائیل کی آرزو کی تکمیل قرار دیا ہے۔ اس امریکی سفارتکار کی نظر میں محمد بن سلمان اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مفادات اور خطرات پر پکا یقین رکھتے ہیں اور یہ امر اسرائیل کے حق میں مفید واقع ہو سکتا ہے۔ ڈینیل شاپیرو کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان عرب امن منصوبے کے تناظر میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

دوسری طرف سعودی عرب اور اسرائیل میں بڑھتی قرابتوں میں عالمی طاقتوں جیسے امریکہ کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی کے اپنے پہلے سفر کے طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا اور باہمی تعاون کے نئے مرحلے کی شروعات کا اعلان کیا۔ تعاون کا ایسا نیا مرحلہ جو خطے اور دنیا میں بہتر امن اور فلاح و بہبود کا مقدمہ ثابت ہو سکے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ محمد بن سلمان کا خفیہ دورہ اسرائیل درحقیقت اس منصوبے کا آغاز ہے جس کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔ البتہ ابھی یہ کہنا جلدی ہو گا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان روز بروز بڑھتا ہوا تعاون اور قربت محض ایران سے مقابلے کیلئے عارضی طور پر ہے یا ایک اسٹریٹجک اور طولانی مدت منصوبے کے تحت انجام پا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 670678
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش