0
Friday 22 Sep 2017 20:04

دشمن اقوام جہاں، امریکہ(1)

دشمن اقوام جہاں، امریکہ(1)
تحریر: صابر کربلائی

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی تقریر تھی، جس کو سننے کے بعد ایک مرتبہ پھر اس بات پر یقین پختہ تر ہوگیا ہے کہ امریکی حکومت دنیا جہاں کی اقوام کی سب سے بڑی دشمن ہے، بلکہ اگر یہ بھی کہا جائے کہ خود امریکی حکومت امریکی عوام کی سب سے بڑی دشمن ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ماضی کے واقعات کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے مقالہ کو اس کے عنوان کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی، مثال یہ ہے کہ فلسطین میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک امریکی عوام اور حکومت کو اگر کسی نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ صیہونزم اور اس کی جعلی ریاست اسرائیل ہے، نہ کہ امن و آشتی کا درس دینے والے اسلام سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے امریکہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہوگا کہ چند بے ضمیروں کو امریکی حکومت اور اس کی بدنام زمانہ سی آئی آے نے خرید کر اسلام کے نام پر دہشت گردی کروانے میں اپنا کردار ادا کیا ہو، جیسا کہ ایک رائے پائی جاتی ہے کہ روس کی طاقت کو پاش پاش کرنے کے لئے پاکستان کے اس وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے امریکی حکومت نے افغانستان میں مسلح دہشت گرد جتھوں کا قیام عمل میں لا کر پاکستان سے افرادی قوت کو جہاد کے نام پر خام مال کے طور پر استعمال کیا اور اسی طرح آج کے زمانے میں بھی داعش اور القاعدہ سمیت النصرۃ اور نہ جانے کس کس نام سے گروہوں کو شام و عراق، لیبیا، افغانستان و پاکستان جیسے ممالک میں امریکی حکومت اور اس کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیاں براہ راست استعمال کر رہی ہیں اور عالم اسلام کی اسلامی سرزمینوں پر جنگ و جدال کا سماں بنا رکھا ہے۔

جہاں تک اسرائیل کی جانب سے امریکی حکومت اور عوام کے خلاف کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ ہے تو یہ ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں سے چند ایک واقعات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کے سابق رکن ڈیوڈ ڈوک کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکیوں پر دہشتگردانہ حملوں کی پہل کرنے والا ملک اسرائیل ہے، جس نے 1950ء میں لیون افیئر نامی آپریشن کے ذریعے مصر میں موجود امریکی شہریوں کو نشانہ بنایا اور اس حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، اسرائیل اس حملے کو ایک حادثہ قرار دیتا رہا۔ بعدازاں اس کی ذمہ داری قبول کر لی، جس کے بعد امریکہ نے کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کے بجائے اسرائیل کی بھرپور مالی و عسکری امداد کی۔ دوسری جانب اسرائیلی صدر موشے کیٹزا نے اپنے ایک بیان میں حملے میں مارے جانیوالے اسرائیلیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں نہ صرف قومی ہیرو قرار دیا بلکہ انہیں میڈلز سے بھی نوازا۔ اسرائیلی صدر کے اس بیان اور کرتوت کیخلاف امریکی کانگریس کی جانب سے کوئی مذمتی بیان یا کارروائی سامنے نہیں آئی۔ 3 جون 1967ء میں اسرائیل نے ایک بار پھر امریکی انٹیلی جنس اور بحری جہاز ٹی آر فائیو کو نشانہ بنایا، جس میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے زبردست گولہ باری کرکے شدید نقصان پہنچایا اور اس حملے میں جہاز میں موجود 200 سے زائد افراد میں سے 34 ہلاک اور 171 بری طرح جھلس گئے۔

حملے کو اسرائیلی حکومت نے غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اپنے ہاتھ جھاڑ لئے، جبکہ اسرائیلی اخبار شکاگو ٹربیون میں شائع رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج اس بات سے بخوبی واقف تھی کہ یہ ایک امریکی بحری جہاز ہے، حملہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ دوسری جانب امریکی سینیٹ سیکرٹری ڈین رسک نے حملے کے بعد اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ ہم اسرائیلی حکومت کی جانب سے بیان کردہ حملے کی وجوہات کو نہیں مانتے، امریکی بحری جہاز پر حملہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ تھا۔ سابق امریکی چیئرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف سٹاف رقامس مومر نے حملے پر چند خفیہ دستاویزات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری موجودہ حکومت امریکی قوم پر اسرائیلی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے، اسرائیل کی اس دہشتگردانہ کارروائی کی حقیقی وجہ امریکہ میں رہنے والا ہر شخص جاننا چاہتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے یو ایس ایس لیبرئی حملے کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے خفیہ طور پر میڈلز دیئے گئے، لیکن اس کے باوجود اسرائیل کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اس طرح کی متعدد اور مثالیں بھی موجود ہیں، بہرحال اپنے موضوع یعنی ’’دشمن اقوام جہاں، امریکہ‘‘ کی طرف واپس آتے ہیں۔ یوں تو ماضی میں ایکسپریس اخبار کے لئے لکھے گئے متعدد مقالوں میں لکھ چکا ہوں اور امریکہ کی ایک سو سالہ ایسی تاریخ بھی بیان کرچکا ہوں کہ جس میں صرف اور صرف دنیا کے دوسرے ممالک پر فوجی حملے یا پھر ان کے نظاموں میں براہ راست مداخلت کی جاتی رہی اور یہ تاریخ بہت طویل ہے۔

حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے بعد پہلی تقریر کی ہے، جس کے چند نقاط یہاں پیش کرتے ہوئے مشاہدہ کیا جائے گا کہ کس طرح امریکہ اقوام عالم اور بالخصوص خود امریکی عوام کا بھی دشمن ہے۔ امریکی صدر نے اقوام متحدہ میں اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے صرف اور صرف دنیا کی دیگر اقوام کے خلاف نازیبا الفاظ، دھمکیاں اور فضول قسم کی لفاظی ہی کی ہے، جیسا کہ انہوں نے کچھ دن قبل ہی پاکستان کے بارے میں ایک احمقانہ بیان دیتے ہوئے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف دی جانے والی ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تھی۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جہاں لاطینی امریکہ کے ممالک کے خلاف بات کی وہاں انہوں نے ایران شمالی کوریا اور پاکستان، چین اور روس کے خلاف بھی ایک مرتبہ پھر متنازعہ گفتگو کرکے شاید یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکی حکومت کے لئے یہ ممالک کسی اہمیت کے حامل نہیں ہے یا پھر یہ کہ ان ممالک کی کردار کشی کو امریکہ نے اپنا فرض اولین بنا لیا ہے۔ البتہ امریکی صدر نے اسرائیل کے خلاف بات کرنے سے گریز کیا ہے، اگرچہ اسرائیل نے ماضی میں اور آج تک ہمیشہ امریکہ کو اور اس کے عوام کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، لیکن ٹرمپ نے گذشتہ امریکی صدور کی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صیہونیوں کی خوشنودی کی خاطر اسلام کو انتہا پسند اور ریڈیکل اسلام جیسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہوئے شاید اسلامی دنیا کو باور کروا دیا ہے کہ وہ صیہونیوں کی خوشنودی کو پوری دنیا کے امن و مان اور عزت اور وقار پر زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
خبر کا کوڈ : 671150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش